Mard Aur Aurat
مرد اور عورت
مرد اور عورت کارخانہء قدرت کے دو اہم ترین پُرزہ جات ہیں۔ میں اس سے پہلے متعدّد بار مرد اور عورت کے رشتے پہ خانگی امور کے متعلّق اور شوہر اور بیوی کے باہمی تعلْق پہ لکھ چکی ہوں۔ آج کُچھ بات ہو جائے عام زندگی میں گھر سے باہر جن مردوں اور عورتوں کا آپس میں انٹریکشن ہوتا ہے، اُس پہ یہ انٹریکشن دو مخالف صنف کے کلاس فیلوز کا ہو سکتا ہے یا اُستاد اور شاگرد کا، ایک بس کنڈکٹر اور ایک بس میں سفر کرتی خاتون کا بھی ہو سکتا ہے اور ایک راہگیر نوجوان بچّی اور محلّے کے لڑکوں کا بھی۔
یہ انٹریکشن ایک ڈاکٹر اور مریضہ کا بھی ہو سکتا ہے یا ایک لیڈی ڈاکٹر اور مرد مریض کا بھی۔ فیس بُک پہ ایک خاتون قلم کار اور مرد قاری کا ہو سکتا ہے یا مرد قلم کار اور خاتون قاریہ کا۔ اس انٹریکشن کی کئی ساری صورتیں ہو سکتی ہیں۔ جب تک اس ربط میں فریقین اپنی اپنی حدود کے اندر رہ کر، باہمی میل جول جاری رکھتے ہیں، اُس وقت تک معاملات بالکل درست ڈگر پہ رہتے ہیں۔
مسائل اُس وقت جنم لیتے ہیں، جب مرد یا عورت میں سے کوئی بھی ایک فریق اپنی حدود سے تجاوز کرتا ہے۔ مثلاً ڈاکٹر مرد، خاتون مریضہ کی نبض کا معائنہ کرنے کی بجائے اُس کی کلائی پکڑ لے یا خاتون ڈاکٹر مرد مریض سے بلاوجہ ہی بے تکلّف ہونے کی کوشش کرے، خاتون قلم کار بلاوجہ ہی boldness کے نام بے ہودہ تحاریر لکھنے لگے یا مرد قاری یا قلم کار خواہ مخواہ خاتون کے ان باکس کے چکّر لگائیں، تو یقیناً chaos پیدا ہو گا، شور برپا ہو گا اور آواز اُٹھّے گی۔
آواز نہ اُٹھائی جائے تو شاید نتائج مزید سنگین صورت اختیار کر کے سامنے آ جائیں۔ جب تک ہر دو فریق اپنی اپنی حدود کا پاس رکھّیں، یہ تعامل کسی بھی جگہ پہ، کسی بھی سطح پہ ہو، کوئی مسئلہ در پیش نہیں ہوتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرد ہو یا خاتون، اُن کی حدود کا تعیُّن کون کرے گا؟ کوئی بھی مہذّب معاشرہ ہر فرد کو اپنی ذات کیلئے از خود حُدود متعیّن کرنے کی اجازت نہیں دیتا، ان حُدود کے تعیّن میں کُچھ معاشرتی، سماجی یا مذہبی عوامل بہر صورت کار فرما ہوتے ہیں۔
جب جب یہ معاشرتی، سماجی یا شرعی حُدود پامال کی جاتی ہیں، اُس کے نتیجے میں ہمیشہ بُرائی جنم لیتی ہے۔ اکثر اوقات یہ بُرائی مخفی ہی رہتی ہے لیکن کبھی کبھار یہ بُرائی کسی بہت اندوہناک سانحے کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ جیسے اسی چودہ اگست پہ اقبال پارک پہ وقوع پذیر ہونے والا دردناک واقعہ ہو یا گُجرات یونیورسٹی کی طالبہ کی ہسپتال میں بے یارو مددگار پڑی لاش کی صورت میں پیش آنے والا اندوہناک سانحہ۔
اسی حدود کو پامال کرنے کا نتیجہ کبھی نور مقدّم کے بہیمانہ اور لرزہ خیز قتل کی صورت میں سامنے آتا ہے اور کبھی لاہور کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے دو طلباء کے سرِ عام بوس و کنار اور لڑکی کی طرف سے شادی کے پروپوزل والے واقعے کے منطقی انجام کی صورت میں سامنے آتا ہے کہ شادی تو اُن کی نہ ہونی تھی، نہ ہوئی، دونوں کا مستقبل بھی لبِ بام آ کے تاریک ہو گیا۔
اب ہوتا یہ ہے کہ اس نوع کا کوئی بھی واقعہ سامنے آتا ہے تو ایک طوفان برپا ہو جاتا ہے، جس میں ساری مرد ذات کی عزّت خس و خاشاک کی طرح بہا دی جاتی ہے، ہر مرد کو وحشی، درندہ، پوٹینشل ریپسٹ اور جانے کون کون سے القابات سے نوازا جاتا ہے اور متاثرہ خاتون کو مظلوم، مقہور اور معصوم ثابت کرنے پہ ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا جاتا ہے۔
ظاہر ہے مظلوم تو مندرجہ بالا، ایک آدھ کو چھوڑ کے، ہر واقعے کی شکار، ہر عورت ہے، صرف مظلوم نہیں، بے انتہاء مظلوم لیکن کیا یہ خواتین اتنی ہی بے قصور بھی ہوتی ہیں؟ (میں خود تین بیٹیوں کی ماں ہوں، کسی بھی بیٹی کی کردار کُشی کرنا ہر گز ہر گز میرا مقصد نہیں۔ اللّٰہ پاک ہر ایک بیٹی کی عزّت کی حفاظت فرمائے، میری بیٹیوں سمیت)۔ لیکن آپ ایک لمحے کیلئے غور کریں تو ان سارے کیسز میں مرد اور عورت دونوں فریقوں نے اپنی اپنی حدود پامال کیں۔
نہ ہی ان واقعات میں سراسر قصور عورت کا ہے اور نہ ہی مرد کا۔ دونوں اپنی اپنی حدود سے متجاوز ہوئے۔ اب یہ بد قسمتی ہے کہ اکثر اس طرح کے واقعات میں ظلم کا شکار ہونے والی صرف اور صرف عورت ہی ہوتی ہے۔ اس طرح کے واقعات کے بعد اگر کوئی بھی قلم کار ظلم کا نشانہ بننے والی لڑکی کی غلطی کی نشاندہی کرتا ہے تو اُس پہ یکدم "وِکٹم بلیمنگ" کی تلوار ایسے سونتی جاتی ہے کہ بس نہیں چل رہا ہوتا کہ اُس کے ٹُکڑے کر دئیے جائیں۔
خُدا کے بندو! کوئی بھی انسان اور خاص طور پہ عورت اتنی شقّی القلب نہیں ہو سکتی کہ کسی کی بیٹی کے بہیمانہ قتل پہ یا کسی بھی قسم کے ظُلم پہ وہ یہ سمجھے کہ اس کے ساتھ جو ہوا، بہت اچھّا ہوا۔ نعوذ باللّٰہ ثم نعوذ باللّٰہ۔ لیکن ایسے وقت میں یہ نشاندہی اس لئے ضروری ہوتی ہے کہ جو بچیاں ہمیں پڑھ رہی ہوتی ہیں، اُنہیں اس بات کا ادراک اور احساس ہو کہ احساسِ ذمہ داری اور حدود دونوں اصناف پہ یکساں لازم ہیں۔
نہ تو ہم اس بات کے حامی ہیں کہ عورت کو سات پردوں میں قید کر دو کہ مرد کے سامنے جونہی عورت جائے گی، وہ بپھر جائے گا اور نہ اس بات کے قائل کہ عورت نہایت نا مناسب اور نا کافی لباس میں گھر سے نکلے اور مرد سے توقّع رکھّی جائے کہ وہ نظر نیچے رکھّے۔ نہ تو ہم صرف بیٹیوں کو تربیّت کے نام پہ snub کرنے کے قائل ہیں، نہ ہی بیٹوں کی تربیّت کی آڑ میں بیٹیوں کو مادر پِدر آزادی دینے کے قائل۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہر دو فریقین کا اپنی اپنی حدود پہ کاربند رہنا ہی ایک صالح معاشرے کی بنیاد بنے گا۔ اور کسی بھی واقعے کی ذمہ داری آنکھیں بند کر کے کسی ایک فریق پہ ڈال دینا ہر گز قرینِ انصاف نہیں، بلکہ اسے انتہاء درجے کا تجاہلِ عارفانہ ہی کہا جا سکتا ہے۔