Bad Zuban Siasi Culture
بدزُبان سیاسی کلچر
کل یا پرسوں شاید، ٹی وی ٹاک شو میں ایک دوسرے کو آن ائیر گالی بک رہا تھا، اور یہ وہ حکومتی نُمائندہ ہے، جو انصافینز کے پسندیدہ نُمائندوں میں سے ایک ہے۔ خیر،گالی بکنا تو ہمارے (معذرت کے ساتھ پنجابی) کلچر کی ایک روایت ہے اور سیاسی کلچر تو ہے ہی بدتہذیبی اور بدزُبانی پہ مبنی۔ اِس بدزُبانی کے کلچر کے حمام میں سبھی سیاست دان ننگے ہیں، اِس پہ تو کیا ماتم کرنا، جب ہر سیاسی یہاں تک کہ مذہبی پارٹی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ کارکُنان تک اپنے اپنے لیڈر کی بدزُبانی کا دفاع پورے شدّومد سے کرتے نظر آتے ہیں۔ خیر، یہ تو چونکہ ایک معمول کی کارروائی تھی، اگرچہ براہِ راست شو میں یہ اپنی نوعیّت کی پہلی مثال تھی شاید۔
لیکن اِس گالم گلوچ کے درمیان، شدّتِ جذبات میں گِل صاحب کا مُردہ ضمیر بھی ایک انگڑائی لے کے جاگ گیا اور اُنہیں یکایک احساس ہوا کہ رمیش کُمار تو تین، چار دفعہ میرے پاس کینسر کی جعلی ادویات کی اپروول کےلئے آیا تھا۔ گِل صاحب، آپ کسی مقامی چوکی کے انچارج بھی ہوتے نا تو دھڑلے سے جعلی ادویات کی سپلائی کے مُبیّنہ خواہش مند کو قانون کی گرفت میں لے کے جعلی ادویات کے نیٹ ورک کی بیخ کُنی میں کردار ادا کر سکتے تھے۔ آپ تو حکومت کے چند گنے چُنے نک چڑھے اور لاڈلے نُمائندگان میں سے ایک تھے۔ آپ کےلئے ایسے شخص کو قانون کی گرفت میں لینے میں کیا امر مانع تھا؟
جب سے میں نے وہ کلِپ سُنا ہے، مُسلسل ذہنی اذیّت میں ہوں۔ ہم نے ابھی ابھی، حال ہی میں کینسر کو بُھگتا ہے۔ ہماری عزیزترین متاع اِسی نامُراد بیماری نے ہم سے چھین لی ہے۔ اللّٰہ پاک کسی دُشمن کو بھی کینسر جیسے عفریت کے ہتھّے نہ چڑھائے، اِس تکلیف سے گُزرنے والا مریض اور اپنے کسی پیارے کو پل پل زندگی سے دور اور موت کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھنے کی اذیّت بس اِس سب سے گُزرنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ حالانکہ ہم جانتے تھے کہ چوتھی سٹیج پہ تشخیص ہونے والا کینسر یقینی موت ہے، لیکن ہم نے ہر مُمکن طریقہء علاج اختیار کرنے کی کوشش کی۔
ہم نے ریڈیو تھیراپی سے علاج کروایا، جو سرکاری ہسپتالوں میں میسّر نہیں تھی۔ ہم پہ تو اللّٰہ پاک کی خاص کرم نوازی تھی کہ ابّو جی کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ مرض ظاہر ہوا اور ہمارے پاس گریجویٹی کی رقم موجود تھی، کُچھ ابّو جی کی savingsتھیں تو ہم اِس اتنے مُشکل مرحلے سے بغیر کسی مالی پریشانی کے گُزر گئے الحمدُللّٰہ۔ ورنہ آپ تصوّر کریں کہ ہر تین ماہ بعد ابّو جی کو ایک انجیکشن لگتا تھا، یہ انجیکشن تیس سے پینتیس ہزار کا ہوتا تھا اور تین ماہ کی دوائی بھی کم و بیش تیس سے چالیس ہزار کی اور ہر ماہ ہونے والے ٹیسٹس پہ ہزارہاء روپے لگتے تھے۔
اِن چار سالوں میں بلامُبالغہ لاکھوں روپے ابّو جی کے علاج پہ خرچ ہوئے۔ لیکن کیا اب میں یقین کر سکوں گی کبھی کہ یہ لاکھوں روپے لگا کے بھی ہمیں اصل دوائیاں ملی ہوں گی؟مُجھے بتائیں کہ ایک غریب گھرانے کا فرد خُدانخواستہ اِس بیماری کا شکار ہو جائے، وہ تو لاکھوں روپے نہیں لگا سکے گا، لامحالہ کسی خیراتی یا سرکاری ہسپتال پہ ہی انحصار کرے گا، اور اُن ہسپتالوں میں دوا کی بجائے موت بانٹی جا رہی ہو تو ایک غریب انسان کہاں جائے گا؟
مُجھےافسوس ہے کہ ہمارا مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا، جو پر کا کوّا بنانے میں ماہرترین ہیں، اُنہیں اِس معاملے کی سنگینی کا ایک رتّی بھر احساس نہیں ہو سکا۔ کہیں کسی پلیٹ فارم پہ ایک لفظ نہیں سُنا نہ پڑھا اِس حوالے سے۔ اللّٰہ پاک آپ سب کو اور آپ کے پیاروں کو ہر مُوذی مرض سے بچائے، لیکن یہ معاملہ اِتنا آسان ہرگِز نہیں تھا، جتنی آسانی سے سب نے اِسے سُن کے کان مُنہ لپیٹ لئے ہیں۔ اِس بیان کی بُنیاد پہ، جو براہِ راست سارے پاکستان نے سُنا، باقاعدہ اِس مُعاملے کی تفتیش ہونی چاہیئے۔