Apne Rab Ka Shukr Ada Kijiye
اپنے رب کا شکر ادا کیجئے
یہ 2011ء کی بات ہے، موسٰی ابھی دو سال کا نہیں ہوا تھا، اسے ہرنیا کی شکایت ہو گئی۔ اُس وقت تک کوئی تکلیف تو نہیں تھی الحمدُللہ لیکن خاصی سوجن تھی۔ ڈاکٹرز نے سرجری کا مشورہ دیا۔ اب آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ پہلی اولاد ہو اور اتنی چھوٹی سی عُمر میں آپریشن کی نوبت آ جائے تو ماں باپ کے دِل پہ کیا گُزری ہو گی۔ بہت سخت پریشانی کے عالم میں اِس کی فوری سرجری کیلئے دوڑ دھوپ شروع کر دی۔ آخر ہمیں میو ہسپتال سے جون کے مہینے کا وقت مِلا۔ آپریشن سے ایک ہفتہ پہلے اِسے ہسپتال داخل کروا دینا تھا۔
جس وقت مُجھے اور موسٰی کو گھر والے ہسپتال چھوڑ کے واپس گئے تو میں سخت گھبراہٹ کا شکار تھی۔ ایک تو پہلا موقع تھا یوں ہسپتال میں اِتنے دِن گُزارنے کا، پھر موسٰی کی تکلیف اور آپریشن کاسوچ سوچ کے دِل وقت سے پہلے ہی ڈوب ڈوب جا رہا تھا۔ موسٰی کو جب پہلی بار نرس برینولا لگانے لگی تو اُس سے دو بار نہیں لگ سکا۔ جب وہ تیسری بار سوئی چبھونے لگی تو میری برداشت جواب دے گئی اور میں اُس سے اُلجھ پڑی۔ امّی جی نے مُجھے ڈانٹ کے موسٰی کو مُجھ سے لیا اور برینولا لگوایا۔ میری اِس طرح کی کیفیّت تھی۔
لیکن جب میں نے ایک دو دِن ہسپتال میں گُزارے تو میری ساری پریشانی سراپا شُکرگُزاری میں بدل گئی۔ وہاں وارڈ میں، میں نے زندگی میں پہلی بار ایسے بچّے دیکھے، جن کی anal یا urethra کی openings (مقعد اور پیشاب کی نالی کے سوراخ)، پیدائشی طور پہ تھے ہی نہیں۔ میں نہیں جانتی کہ میڈیکلی اِس حالت کو کیا کہتے ہیں۔ اِس طرح کے بعض بچّے دوسری اور بعض تیسری بار آپریشن کیلئے ہسپتال میں داخل تھے۔ یہ میرے لئے اِس قدر تکلیف دہ اور جسے کہنا چاہیئے Shocking قسم کی بیماری تھی کہ میں شاید الفاظ میں بیان نہ کر پاوءں۔
ایک دِن ایسے ہی ایک بچّے کو، جو موسٰی کے ساتھ ایک ہی بستر پہ تھا، اُسے انیما دیتے دیکھ لیا۔ اُس بچّے کے پیٹ میں شاید بائیں طرف بڑی آنت کی کسی اوپننگ پہ شاید، سوراخ کیا گیا تھا اور اُسے بینچ پہ لِٹا کے، اُس سوراخ سے انیما دے کے، اُس کا پاخانہ جسم سے نکالا جا رہا تھا اور اُس کی ماں اُسے ساتھ ساتھ صاف کر رہی تھی۔ یقین مانیں کہ جتنی تکلیف یہ منظر دیکھ کے مُجھے اُس وقت ہوئی تھی، یہ الفاظ لکھتے ہوئے میں بالکل اُسی کیفیّت سے گُزر رہی ہوں۔ یہ مناظر دیکھ کے میں موسٰی کی پریشانی کو بالکل ہی بھُول گئی اور ہر ہر لمحہ صرف اُن بچّوں کیلئے آسانی کی دُعا اور اپنے اوپر موجود رب کی رحمتوں کا شُکر ادا کرتے گُزرا۔
یہ واقعہ آج یوں یاد آ گیا کہ گُزشتہ ڈیڑھ دو ہفتے سے طبیعت خاصی ناساز تھی، زُکام اور کھانسی کی زیادتی سے میری زُبان کی لذّت تقریباً ختم ہی ہو گئی تھی۔ روز صبح اِس اُمّید پہ اُٹھتی کہ آج یہ مسئلہ حل ہو چُکا ہو گا، لیکن خاصے دِن گُزر گئے اور آج جب میرے ٹیسٹ بڈز کی لذّت بحال ہوئی تو مُجھے خیال آیا کہ ہم سب پہ اللہ پاک کی کتنی کتنی اور کیسی کیسی عنایات ہیں، لیکن ہم ناشُکرگُزار انسان اُن کا ادراک ہی نہیں رکھتے۔
ہماری زُبان کی لذّت، کبھی ہم نے سوچا بھی نہیں کہ یہ کتنی بڑی نعمتِ خُداوندی ہے۔ اِن چند دِنوں میں ایسے لگ رہا تھا کہ دُنیا ہی بےرونق ہو گئی ہے۔ کُچھ بھی کھانے پینے کا جی ہی نہیں چاہتا تھا۔ ہم کھانا کھاتے ہیں اوروہ حلق سے بہ عافیّت اُتر جاتا ہے، یہ کتنی بڑی نعمت ہے۔ کھاناہضم ہو کے، جُزوِ بدن بن کے، excretion قدرتی طور پہ عمل میں آ جاتی ہے۔ یہ کتنی بڑی نعمت ہے، کوئی اُس بچّے کی ماں سے پوچھے، جسے ہر بار بچّے کو بڑی آنت کے ذریعہ انیما دینا پڑتا ہو گا۔
ہمیں ربِّ کائنات صحتمند، تندرست اولاد کی نعمت سے نواز دے، یہ کتنی بڑی نعمت ہے، ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن انسان فی الحقیقت "ظلوماً جہولاً کی عملی تفسیر ہے۔ ہم اگر صرف اپنے جسم کے اندر موجود مُختلف نظاموں پہ معمولی سا تفکّر کریں تو یہی ہمارے ذاتِ باری تعالٰی پہ بطورِ خالق و مالکِ کائنات، ایمان لانے کیلئے بہت کافی ہے۔ پھر جب تک اُس کی مشیّت ہوتی ہے، ہمارا سارانظام اُس کے حسبِ منشاء خودکار طریقے سے مصروفِ عمل رہتا ہے کہ ہمیں ادراک تک نہیں ہو پاتا اور جب وہ طنابیں کھینچ لے تو ہر نظام بےکار ہو کے، بالآخر انسان کی موت پہ منتج ہو جاتا ہے۔ انسان کو اُس ذاتِ پاک نے بہت سارے اختیارات سونپ کے بھی ایک حد سے آگے بےبس بنایا ہے۔ اِس سب میں عقل والوں کیلئےنشانیاں ہیں۔