Tuesday, 07 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Qasim Taj/
  4. Safarnama e Depalpur

Safarnama e Depalpur

سفرنامہ دیپالپور

خیال کہاں سے آتا ہے اور کہاں جاتا ہے مجھے معلوم نہیں مگر میرے خیال سے یہ ہماری روزمرہ کی زندگی پر بہت منحصر ہے ہم کیا کام کرتے ہیں، ہم کیسے لوگوں سے ملتے ہیں، ہمارے گھر میں معاملات کیسے طے پاتے ہیں، ہمارے آس پاس کے لوگوں کی عادات کیا ہیں یہ سب کہیں نہ کہیں ہمارے خیالات اور بالآخر ہمارے زندگی کی معاملے پر اثر ہوتے ہیں۔ مجھے اللہ نے سفر کی عادت ڈالی ہوئی ہےاس عادت کی وجہ سے میں اور میرے کچھ ساتھی ان مقامات پر جاتے ہیں جہاں پر زیادہ تر لوگ نہیں جاتے ہیں۔ یہ عادت لیے ہم لوگ دیپالپور، بھمن شاہ اور پاکپتن شریف کا تمام سفر ایک ہی دن میں کر ڈالا۔ یہ سفر ویسے بھی دہلی ملتان روڈ پر ہے تو کرنے کا اور مزہ بھی آیا۔

دیپالپور کا نام راجہ دیپال راجپوت کے نام پر ہے، پرانے زمانے میں دیپالپور شہر دہلی سے ملتان جاتے ہوئے راستے پر ٹھراو کا ایک بڑا مقام تھا۔ یہاں پر چوبیس مساجد، چوبیس کنویں اور دیپالپور قلعہ کے "قلعہ درواڑ" کی طرز کے چوبیس برج تھے جن کے نام و نشان اب نہ ہوتے کے برابر ہے۔ قلعہ دیپالپور کے اندر اب شہر بس رہا ہے بلڈنگ کہیں، کہیں سے نظر آتی ہے اور تاریخ کے نشان ختم ہوتے جارہے ہیں۔ دہلی دروازے جیسے دو دروازے بابِ روشن اور بابِ قائداعظم موجود ہیں باقی دروازے اور ان کی تاریخ وہاں کے مقامی لوگ کھاگئے۔ ہم وہاں سے حویلی لکھہ کے راستے میں موجود بھمن شاہ حویلی بھی پہنچے۔ بھمن شاہ گرونانک کے بیٹے شری چند کا پیروکار تھا اور سکھوں کے اداسی فرقہ کے اہم ترین افراد میں سے ایک تھا اور یہ حثیت شاید اس کو ابھی بھی حاصل ہے۔ ایک دفعہ جب بھمن شاہ کی عمر صرف 1 سال تھی تو ایک کوبرا سانپ کی اس کی چھاتی کے اوپر آکر بیٹھ گیا یہ منظر دیکھ کر ماں کا دل پریشان ہوگیا اور وہ دوڑ کر بھمن شاہ کے پاس پہنچی لیکن جیسے ہی وہ پہنچی تو کوبرا سانپ وہاں سے غائب ہوگیا اس بات میں کتنی فیصد سچائی ہے یہ بات صرف اللہ جانتا ہے۔

خیر بھمن شاہ کی حویلی شان و شوکت میں کسی بھی طرح شاہی قلہ سے کم نہ تھی مگر اس کی حالت انتہائی نازک تھی اگر میرا یہ سفرنامہ کوئی صاحب اثر شخص پڑھ رہا ہے تو اب یہ اس کی ذمہ داری بن گئی ہے کہ وہ اس حویلی کی شان و شوکت کو دوبارہ بحال کرایا یا کم از کم میری طرح اس کے لیے آواز اٹھائے۔ ہم وہاں سےہمارے ملک میں موجود سب سے بڑے صوفی، پنجابی کے پہلے شاعر اور مٹھاس کے کنویں " بابا فرید گنج شکر" کے مزار پر پہنچے۔ بابا فرید نے باقاعدہ درباروں کے ساتھ "لنگر" کا نظام کھڑا کیا۔ اگر آپ کو کسی مزار حتی کہ سکھوں کے گردوارہ پر بھی "لنگر" پر انتظام نظر آئے تو اس کے موجد بابا فرید ہی ہیں۔ بابا فرید ہندوستان میں کئی جگہوں پر "چلہ" کاٹ چکے ہیں۔ سننے میں ہے کہ آپ ایک چلہ مسلمانوں کے قبلہ اول یوروشلم میں بھی کاٹ چکے ہیں۔۔

بابا فرید کے نام پر پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک میں فرید کوٹ نام علاقے موجود ہیں انڈیا میں کیونکہ تعلیم کی قدر ہمارے ملک سے زیادہ ہے تو وہاں ان کے نام پر ایک یونیورسٹی بھی موجود ہے۔ ہم کیونکہ صرف صوفی بزرگوں کو صرف مانتے ہیں ان کو جانتے نہیں اس لیے ہم نے بابا فرید سے لے کر بلھے شاہ اور عثمان علی ہجویری تک کوئی باقاعدہ تعلیمی ادارہ نہیں بنایا۔ بابا جی کے دربار میں ان کی مدفن جگہ پر دو دروازے موجود ہیں نور دروازہ اور بہشتی دروازہ۔ بہشتی دروازہ سال میں صرف ایک دفعہ کھلتا ہے تو میں اور میرے دوست نور دروازے کے ذریعہ فاتحہ خوانی کے لیے اندر چلے گئے ہم نے فاتحہ خوانی کی اورمشہور میٹھی سوغات "توشہ" کھانے کے لیے شہر کو نکل آئے۔ توشہ کے ذائقہ گلاب جامن سے ملتا جلتا ہےاور یہ میں نے صرف پاکپتن میں ہی کھایاہے۔ اس سارے سفر میں ہم چار ساتھی موجود تھے۔ کہا جاتا ہے کہ دوست کا ہم خیال نہ ہونا ایک سزا ہے مگر الحمداللہ مجھے یہ سزا نہیں ملی میرے یہ تمام ساتھی ہم خیال بھی تھے اور ہمراہ بھی تھے۔

حویلی بھمن شاہ سے پاکپتن کا راستہ پنجاب کا اصل راستہ تھا۔ راستہ میں دور نگاہ تک کھیت ہی کھیت تھے۔ علاقہ کیونکہ ڈویژن ساہیوال کا حصہ ہے تو وہ ہمیں ساہیوال کی بھینس سے تعلق بنانے کا موقع بھی مل گیا۔ اور حقیقی گاوں کو دیکھنے کا موقع میسر ملا جہاں آج بھی مکان کچے اور لوگ سچے موجود ہیں۔ ان لوگوں کو اور ان مقامات نجانے ترقی کے نام پر نیا زمانہ کیوں کھاتا جا رہا ہے یہ گاوں اور لوگ ناجانے کہاں جاتے جا رہے ہیں۔

Check Also

Roohani Therapy

By Tayeba Zia