Kabhi Hum Bhi Khushaal Thay
کبھی ہم بھی خوشحال تھے
سردار بی بی گاؤں والوں کو چنے اور مکئی کے دانے بھون کر دیتی جو ان کے سہ پہر کے snack ہوتے۔ شام کو بھٹ تلے آگ جھونک کر گاؤں کی ماؤں بہنوں کو ایک پنڈال مہیا کرتی جہاں روٹیاں پکانے کے بہانے گاؤں کی خبریں دے کر اور تبصرے کرکے اپنا من ہلکا کیا جاتا۔ جب کسی گھر میں بقائے نسل کے آثار نظر آتے تو پیار سے مائی داراں کہلانے والی سردار بی بی امید سے نوید تک کے تمام مراحل میں گھر والی کی خدمت میں جْتی رہتی۔
اس سب کے بدلے میں اسے سارا دن اپنائیت بھی ملتی، راز و نیاز کے ذریعے اعتماد بھی ملتا، دودھ، لسی، مکھن، انڈے اور سالن بھی ملتے۔ آئے دن کسی نہ کسی گھر میں خوشی کا موقع ہوتا تو مائی داراں کو حسبِ استطاعت شیرینی، کپڑوں کا جوڑا، نقدی یا پھر اناج کی بوری پیش کی جاتی۔ دولت کی ریل پیل اوروں کے ہاں تھی نہ ہی مائی داراں کے ہاں لیکن خوشحال سبھی تھے۔ محرومی یا معاشی تنگی کا احساس نہ اِس طرف تھا نہ اْس طرف۔ سب کی ضرورتیں بھی پوری ہو رہی تھیں اور میل ملاقاتوں کی کثرت سے خوشیوں کا تبادلہ بھی ہو رہا تھا۔
مائی داراں اگر زنان خانے کی رازداں تھی تو پیار سے بابا جلّہ کہلانے والا جلال دین گاؤں کی مردانہ محفلوں کی جان ہوتا۔ وہ خبر رسانی اور داستان گوئی کرتے کرتے ان کی وضع قطع درست کرتا اور کسی کسی کی "حجامت" بھی کر دیتا۔ زیادہ تر افراد کا بر بھی وہی ڈھونڈتا، پھر ان کی شادی کی تقریب کا کرتا دھرتا بھی وہی ہوتا، اس جوڑے کو جب بیٹے کی شکل میں اللہ کی نعمت عطا ہوتی تو اس کو جسمانی طور پر "مسلمان" کرنے کی سعادت بھی بابے جلےّ کو حاصل ہوتی اور جب کوئی اس دنیا سے رخصت ہوتا تو اس کے کفن دفن اور تعزیت کیلیئے آنے والوں کی خاطر مدارت کا تمام انتظام بابا جلّہ خود سنبھال کر لواحقین کو اس غم کی گھڑی میں مزید پریشانیوں سے بچا لیتا۔
اس سب کے بدلے میں اسے بھی ہر گھر سے ہر خوشی کے موقع پر گھر والوں کی استطاعت کے مطابق تحفے اور نذرانے ملتے جو شیرینی، کپڑوں کے جوڑے، نقدی، اناج کی بوری یا بَچھیا کَٹیا بھی ہو سکتی تھی۔ اس کے علاوہ سبزی، موسمی پھل اور جانوروں کا چارہ تو روزانہ کے تحفے تھے۔ یہ تحفے اور نذرانے نہ احسان سمجھ کر دئیے جاتے اور نہ ہی حق سمجھ کر لیے جاتے۔ بنیاد ہوتی تھی باہمی محبت اور اپنائیت جو نسل در نسل چلتی۔
معاشیات کا مطلب ضروریاتِ زندگی کا احسن طریقے سے پورا ہونا تھا۔ نمود و نمائش اور تفاخر کا مرض صرف چند لوگوں کو لاحق تھا۔ معاشی خود مختاری یعنی economic independence جیسی انقلاب آفریں"نعمت" سے ابھی آشنائی نہیں ہوئی تھی بلکہ ہزاروں سالوں سے جاری معاشی سانجھ یعنی Economic Inclusiveness کی "قباحت" ہی سماج کی بْنتی تھی۔
پھر اچانک ہی گاؤں میں بجلی آ گئی جو اپنے ساتھ ٹی وی بھی لے کر آئی۔ نئے زمانے کی اس انقلابی ایجاد کی بدولت جہاں مائی داراں اور بابے جلّے جیسے گاؤں کے ان سادہ لوح قدامت پرستوں کی اولاد کو فلموں کے ذریعے اور جدید تعلیم سے بہرہ مند دانشوروں کی زبانی جبر اور استحصال جیسی اصطلاحات سے واقفیت ہوئی وہیں صاحبِ حیثیت گھرانوں کے بچوں کو اشتہاروں، فلموں اور ڈراموں کے ذریعے جدید طرزِ زندگی کی جھلک دیکھنے کو ملی۔۔
گاڑی، ایئر کنڈیشنر، فریج، پنکھے اور واشنگ مشین جیسی سہولیات اس زندگی کا لازمہ تھیں۔ پھر معاشی سانجھ کو ایک فریق نے اقتصادی استحصال جانا تو دوسرے نے بیکار کا بوجھ۔ پہلے فریق نے معاشی خود مختاری کی منزل حاصل کرنے کی ٹھانی۔ کچھ نے شہروں کی راہ لی اور باقی گاؤں میں ہی روز گار کا متبادل انتظام کرنے میں جْت گئے۔ دوسرے فریق نے پْر آسائش ماحول کو یقینی بنانے کیلیئے معاشی وسائل کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کو بھی معاشی خوشحالی کی بھٹی میں جھونک دیا۔ دولت اور آسائشوں کی فراوانی دونوں طرف ہوتی گئی لیکن خوشحالی آہستہ آہستہ نایاب ہوتی گئی۔ خوشیوں کا سبب بننے والی گپ شپ اور محفل آرا ئی ناپید ہوگئی۔
بابے جلے کی محفل اور مائی داراں کی بھٹی والی Bonfire پر خوش گپیاں کرکے دل کا بوجھ ہلکا کرنے والے مرد وزن کی تفریح کا واحد ذریعہ اب ٹی وی کی سکرین رہ گئی تھی وہ بھی صرف ریٹائرڈ خواتین و حضرات کیلیئے۔ کارآمد مرد وزن تو دولت کے ڈھیر اکٹھے کرنے میں مصروف ہو گئے تاکہ جدید طرز کے لیکن مقامی موسم کے لئے انتہائی نامو زوں مکان کھڑے کر سکیں، پھر ان مکانوں کو ٹھنڈا یا گرم رکھنے کے آلات نیز لوہے اور پلاسٹک کے دیگر سامانِ آسائش و آرائش سے ان مکانوں کو بھر سکیں۔ مکان خوشنما گودام تو بن گئے لیکن گھر نہ بن سکے وہ گھر جہاں سے زندگی کے رنگ و بو ابلتے ہوں۔
آج ترقی یافتہ دنیا کے ماہرینِ عمرانیات و نفسیات معاشی غارت گری سے گھبرا کر "معاشیاتِ انبساط" یعنی Economics of Happiness کی باتیں کر رہے ہیں۔ وہ دولت، آمدنی اور منافع جیسے روایتی معاشی اہداف کی بجائے اقوامِ عالم کو خوشی و شا دمانی اور خوشحالی و بھر پور زندگی جیسے مقاصد کے حصول کی ترغیب دے رہے ہیں۔ گردشِ ایام کو پیچھے لوٹانا تو ممکن نہیں ہوتا لیکن ترقی یافتہ دنیا کی چکا چوندکو دیکھ دیکھ کر زبردستی محسوس کی گئی محرومیوں کی بدولت اپنی ہنستی بستی زندگی کو سوگوار کرنے والی ہماری جیسی قوموں کو اب معاشی جدوجہد کے دریا میں غوطے کھاتے ہوئے ہی ایک اور دریا کا سامنا کرنے کی فکر لاحق ہو جائے گی۔
Gross National Happiness Index یعنی مجموعی قومی مسرت کے اشاریہ کے تقاضے پورے کرنے کا دریا۔ اس دنیا میں جاری کسی بھی رجحان یا چونچلے سے بچنا اب عام افراد یا اقوام کیلیئے خاصا مشکل ہے۔ اس طرح کا رویہ اپنانے کیلیئے جس عزم اور استقامت کی ضرورت ہوتی ہے وہ اگر اتنے ہی ارزاں ہوتے تو ہم پہلے ہی اپنی تہذیبی متاع سنبھالے سر اٹھا کر کھڑے رہتے۔ ذہنی سکون اور جسمانی راحت چھین لینے والی مادی ترقی کی ہلاکت خیز دوڑ میں شریک نہ ہوتے۔
اب بھی وقت ہے کہ ہمارے حکومتی زعما بالعموم اور ابلاغی میدان کے ذہن ساز بالخصوص اس بات کی اہمیت کو محسوس کریں کہ محرومیوں کے ازالے کیلیئے مخلصانہ کوشش کرنا اور عوامی سطح پر بالخصوص ذرائع ابلاغ پر ان محرومیوں کو اچھالنا مختلف نتائج کے حامل ہیں۔ ہمارا مذہبی و تہذیبی ورثہ مایوسی، سوگ اور واویلا پر مشتمل نہیں بلکہ صبر و شکر اور رحمتِ الہی کی امید سے پْر ہے۔
معاشی وسائل میں اضافہ کرنے کی جائز کوشش ضرور کی جائے لیکن مطلوبہ نتائج نہ ملنے کی صورت میں افسردہ ہونے کی بجائے جو سہولتیں دستیاب ہیں ان پر مالک کا شکر ادا کیا جائے۔ اور شکر زبانی وظیفے کا نام نہیں بلکہ یہ دلی کیفیت ہے۔ یہی خوشحالی کا راز ہے۔ دولت کی فرا وانی خوشیوں کی یعنی خوشحالی کی ضامن نہیں ہوتی۔ خوشحالی ایک ذہنی رویے کا نام ہے۔ جو حاصل ہے اس پر مطمئن ہونا اور جو نہیں ملا اس کا ملال نہ کرنا۔