Dard Ki Shahabi Tikon
درد کی شہابی تکون
"آج عفت مر گئی"۔ لاچاری اور بے بسی سے بھرے اس چار لفظی جملے سے شہاب اپنی شریکِ حیات کا تذکرہ شروع کرتے ہیں۔ عمر میں سولہ سال چھوٹی انکی "بڑھیا" ڈاکٹر عفت جواٹھارہ سالہ رفاقت کے ہر لمحے میں اپنے "کْوکے" کی رضا ڈھونڈتی رہی۔ اس نے شہاب کے تقاضوں کے بغیر اس کی ضرورتوں کو پورا کرکے ماں جی کی کمی تو پوری کر دی لیکن کوشش کے باوجود شہاب کی زندگی میں پیدا ہوئے تنہائی کے خلا کو غالباً پر نہ کر سکی۔
یہ خلا نجانے کب پیدا ہوا تھا۔ شاید لڑکپن میں، جب چندراوتی کی سلگائی ہوئی آنچ سے شہاب کا من گھائل ہوا یا پھر نوجوانی میں، جب عبداللہ صاحب اپنے ہونہار بیٹے کی آئی سی ایس میں کامیابی پر ابھی پوری طرح سرشار بھی نہ ہو پائے تھے کہ راہیِ عدم ہو گئے۔ فنا کی بازی میں سبقت لے جانے والی عفت اس وقت شہاب کو حیران کر دیتی ہے جب بائیسویں سکیل کی قابلِ رشک نوکری چھوڑنے کے شہاب کے ارادے پر بہت آرام سے پیار بھرے لہجے میں کہتی ہے "جو تیری مرضی وہ میری مرضی"۔
کیا ایسے دمساز کی جدائی اتنی ہی معمولی تھی جتنی شہاب کے چار لفظوں سے ظاہر ہو رہی ہے؟ نہیں۔ یقیناً نہیں۔ چار لفظوں میں اس صدمے کو بیان کرنا تو شاید پاکستانی افسر شاہی کے عہد ساز کردار شہاب کے اس مزاج کی مجبوری تھی جو آئی سی ایس کی رکھ رکھاؤ سے بھری تربیت اور تین دہائیوں پر محیط نازک انتظامی ذمہ داریوں نےتشکیل دیا تھا ورنہ حالت یہ تھی کہ عفت کا وجود جیسے ہی قبر کی مٹی تلے چھپتا ہے شہاب کی ٹانگیں ان کے جسم کا بوجھ اٹھانے سے معذور ہو جاتی ہیں۔ سارا رکھ رکھاؤ دھرا رہ جاتا ہے اور شہاب زمین پر ڈھیر ہو جاتےہیں۔
اس موقع پر تو شہاب آنسو نہیں بہاتے لیکن اس سانحہ سے دو ہفتے پہلے جب عفت انکو ذہنی طور پر صدمے کیلیئے تیار کرنے کی غرض سے تفریح کے بہانے کینٹر بری کے پارک میں لے کر گئی اور وہاں ایک بنچ پر انکی گود میں سر رکھ کر انکو انہونی سے خبردار کیا تو شہاب کی آنکھوں سے آنسؤوں کا سیلاب امڈ آیا۔ ان آنسؤوں کو عفت نےاپنے جامنی دوپٹے سے پونچھا لیکن غیر جذباتی ہو کر۔ پھر "کْوکے" کو اپنے کام خود سنبھالنے کی تلقین کرتے ہوئے اس کے ناخن آخری دفعہ کاٹے۔ شہاب کے دکھ بانٹنے والی اور اس کے ساتھ راضی راضی غریب الوطنی کی اذیت سہنے والی عفت خود اپنی جان لیوا بیماری کے دنوں میں"ابنِ مریم ہوا کرے کوئی" کی بے مرادصدائیں لگاتی رہی لیکن اس کےدکھ کی دوا کوئی نہ کر سکا۔ نہ شہاب اور نہ کینٹر بری ہسپتال کے مسیحا۔
دکھ کی دوا تو شہاب تیرہ سال قبل اپنے انتہائی بااثر عہدے کے باوجود ماں جی کے لیئے بھی نہ کر سکا تھا جب وہ کراچی کے جناح ہسپتال میں رات گئے اس قدر آناً فاناً زندگی کا بوجھ اتارتی ہیں کہ اپنے رومال میں بندھے گیارہ پیسے اگلے دن یعنی جمعرات کو خیرات کرنے والی اپنی ساری زندگی کی روایت بھی پوری نہ کر سکیں۔ وہ روایت جو اس وقت شروع ہوئی جب منگنی کے بعد ان کے عبداللہ صاحب انھیں ایک میلے میں ملتے ہیں اور انھیں تحفتاً پانچ روپے دینا چاہتے ہیں۔ بار بار کے انکار اور اصرار کے بعد بالآخر ماں جی صرف گیارہ پیسے قبول کرنے پر آمادہ ہوتی ہیں اور ان کا مصرف یہ کہ اگلی جمعرات کو عبداللہ صاحب کے نام پر مسجد میں تیل ڈلوا دوں گی۔ پھر ساری زندگی وہ کراچی اور لاہور جیسے شہروں میں بھی ایسی مسجدیں ڈھونڈ لیتیں جہاں تیل کے چراغ جلتے تھے۔ اس کے علاوہ انھیں پیسوں کا کوئی مصرف شاید معلوم ہی نہیں تھا۔
اپنے عبداللہ صاحب کی پیروی میں ماں جی تو آرام سے اگلے جہاں چل دیں لیکن ان کا "کْوکا" شہاب ان کی میت کو ایمبولینس میں رکھوا کر خود پیچھے پیچھے اپنی گاڑی میں روانہ ہوتا ہے تو سارا بھرم اور وقار آنکھوں سے بہتے دریا کی نذر ہو جاتا ہے۔ گاڑی کے سٹیئرنگ پر کبھی ہاتھ اور کبھی سر مار مار کر شہاب بچوں کی طرح بلک بلک کر روتا ہے۔ عبداللہ صاحب کے سانحہ پر ماں جی نے اپنے "کْوکے" کو سینے سے لگا کر رونے سے منع کیا تھا کہ اس طرح عبداللہ صاحب کی روح کو تکلیف ہوگی۔ آج اس کْوکے کو چپ کرانے والا اور سمجھانے والاکوئی نہ تھا کہ ماں جی کی روح کو بھی تکلیف ہوگی۔ لیکن روحوں کو تکلیف تو واویلا کرنے سے ہوتی ہے۔ یہاں تو زبان چپ تھی بس دل کا کرب آنکھوں سے بہہ رہا تھا۔ یہ رونا یہیں نہیں رکتا۔ کتنے ہی دنوں تک صدرِ پاکستان کے دفتر کی فائلیں شہاب کے آنسوؤں سے تر ہوتی رہیں جنھیں پھر دھوپ میں رکھ کر سکھایا جاتا۔ بالآخر اپنے آنسوؤں کے موتی کاغذ پر بکھیر کر شہاب "ماں جی" کو اردو ادب کا اثاثہ بناتے ہوئے امر کر دیتا ہے۔
یہی اشکوں کے موتی شہاب نے بہت سال پہلے "چندراوتی" لکھتے ہوئے بھی بکھیرے تھے۔ اس کی یاد میں جس سے اس کی پہلی ملاقات گورنمنٹ کالج لاہور کے زمانۂ طالبعلمی میں پنجاب پبلک لائبریری سے کتاب لینے پر جھگڑے کے سبب ہوئی۔ بالآخر خاموش سمجھوتہ ہوگیا۔ شہاب کے نام جاری ہوئی کتاب چندراوتی کے حوالے اور اس کی کتابِ دل شہاب کے نام۔ پھر ایک ٹیوشن پڑھانے کے بدلے خریدی گئی بائیسکل پر چندراوتی کو لاہور کی سیر کروانا اور اس کی ماتا سے ملوانے ایمن آباد لے کر جانا شہاب کا من پسند مشغلہ بن گیا۔ لیکن اس سورن کنیّا کے برتنوں میں شہاب کھا پی نہیں سکتا تھا۔ لسّی پانی اس کے ہاتھوں کے چْلّو میں انڈیلا جاتا۔
من کا گھاؤ اگر تھا بھی تو ابھی چھپا ہوا تھا پر چندراوتی کا تن روگی ہوگیا۔ ڈاکٹر نے ٹی بی بتائی اور وہ بھی جان لیوا۔ وہ چندراوتی جس کی رنگت سونے کی ڈلی جیسی تھی اور جلد کی نزاکت کا یہ عالم کہ پانی پیتی تو گلے سے گذرتے گھونٹ گنے جا سکتے تھے اب اس کا چہرہ پگھلے ہوئے سونے جیسا ہوگیا۔ شہاب اس کی ماں کے ساتھ مل کر اس کی تیمارداری کرتا رہا۔ اس کے کپڑے اور بستر دھوتا۔ بالآخر چندراوتی ان دونوں کو اس خدمت سے آزاد کرکے سورگباش ہوگئی۔
شہاب چندراوتی کیلیئے خریدی گئی بائیسکل بیچ کر اس کی ماں کے بنارس جانے کا انتظام کرتا ہے تاکہ وہ اپنی بیٹی کے پھول گنگا میں بہا آئے۔ اس کے مرنے کے تیسرے دن شہاب کو چندراوتی سے محبت کا احساس ہوا۔ کئی روز تک شہاب دن رات ان سڑکوں پر دیوانہ وار پیدل گھومتا رہتا ہے جن پر وہ چندراوتی کو بائیسکل پر لے کر پھرتا تھا۔ جب پاؤں میں چھالے پڑ گئے اور ہمت جواب دے گئی تو آ کر گورنمنٹ کالج کے لان میں بیٹھ گیا اور "چندراوتی" لکھنا شروع کر دیا۔
اس کا پروفیسر ڈکنسن جو اس کے ساتھ چندراوتی کو دیکھ کر اسے گولڈن گرل اور شہاب کیلیئے موزوں ترین کہا کرتا تھا پاس سے گذرا تو پوچھا "?Where is your golden girl" شہاب نے ہچکیاں لے کر جواب دیا "Sir, she has reverted to the gold mine".