Tareekh e Taraaji e Kaba
تاریخِ تاراجیِ کعبہ
کعبے میں پہلا جھگڑا تب ہوا جب حضرت علیؑ نے اپنا امیر حج مقرر کیا اور حضرت امیر معاویہ نے اپنا امیر حج مقرر کر دیا۔۔ دونوں امیروں کی امارت پر عین حج کے موقع پر جھگڑا ہوا تاہم بات زبانی کلامی لڑائی جھگڑے تک محدود رہی قتل و غارت نہیں ہوئی لیکن اس کے بعد کعبہ میں قتل و غارت کا ایک سلسلہ ملتا ہے جو ابھی تک جاری ہے۔
یزید نے حصین بن نمیر کی قیادت میں ایک لشکر کعبے کی طرف بھیجا جس نے کعبے پر منجنیقوں سے پتھراؤ کیا، غلاف کعبہ کو آگ لگا دی، دس سال بعد حجاج بن یوسف نے دوبارہ کعبے پر حملہ کیا صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ اور ان کے تمام ساتھیوں کو شہید کیا اور ان کی لاش مکہ مکرمہ کے چوک میں لٹکا دی۔
کعبے پر تیسرا بڑا حملہ اسماعیل بن یوسف علوی نے کیا، گیارہ ہزار حاجی قتل ہوئے، کعبے کا غلاف، سونا، چاندی اور لاکھوں دینار لوٹ کر چلا گیا۔ اس کے بعد جزارین اور مناطین کی آپس کی لڑائی کعبے میں لڑی گئی اس میں بھی کئی حجاج کرام شہید ہوئے اکثریت حج کیے بغیر ہی واپس لوٹ گئی مناسک حج بھی جنگ کی نظر ہو گئے۔
بحرین میں قرامطہ نے طاقت حاصل کی تو ابو طاہر قرامطی کی قیادت میں کعبہ پر حملہ کیا، یہ اب تک کا سب سے خونخوار حملہ ثابت ہوا۔ تیس ہزار مکہ مکرمہ کے رہائشی اور دو ہزار حاجی مارے گئے۔ کعبے کا فرش خون سے سرخ ہوگیا۔ قرامطہ نے مکے میں خوب لوٹ مار کی اور حجر اسود اکھاڑ کر اپنے ساتھ بحرین لے گئے۔ بائیس سال حجر اسود قرامطہ کے قبضے میں رہا اور مسلمان بائیس سال حجر اسود کے بغیر حج کرتے رہے۔ بعض روایات یہ ہیں کہ معتصم نے بائیس ہزار اشرفیوں کے عوض حجر اسود واپس لیا تھا۔ تاریخ میں یہ بھی درج ہے کہ قرامطہ نے حجر اسود کو توڑ کر تین ٹکڑے کر دئیے اور انہیں دریا میں پھینک دیا تھا۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ موجودہ حجر اسود اصلی حجر اسود نہیں ہے۔
بنو امیہ، بنو عباس کی آپسی لڑائیاں بھی کعبہ میں لڑی جاتیں تھیں، ہر فریق چاہتا تھا کہ خطبہ میں اس کے خلیفوں کا نام لیا جائے انہی کی مرضی کا خطبہ پڑھا جائے۔ اس لئے ہر سال امیر حج بنانے پر لڑائی جھگڑا یقینی تھا۔
بنو عباس کی خلافت کمزور ہوئی تو ترکوں نے اپنی اجارہ داری قائم کر لی، ترک بادشاہوں نے حجاز کے علاقوں پر قبضہ کرکے اپنے امیر حج سے اپنے نام کا خطبہ شروع کر دیا۔ بادشاہوں کی آپس کی لڑائی بھی چلتی رہی، مصر کے بادشاہ بھی کعبہ پر قبضے کی جنگ میں شامل ہو گئے۔
سترہویں صدی میں عبدالعزیز نے ترکوں کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا، ترک امراء آپس میں بھی لڑتے رہتے تھے، عرب قبائل کی بھی آپس کی لڑائیاں ہر وقت جاری رہتی تھیں۔ عبدالعزیز نے ریاض تک کا علاقہ فتح کیا اس کے بعد اس کے بیٹے سعود بن عبد العزیز کو حکومت ملی۔ سعود بن عبدالعزیز نے ترکوں سے جنگیں لڑیں، آخری فیصلہ کن جنگ مکہ مکرمہ میں لڑی گئی۔ آل سعود کی مدد انگریز کر رہے تھے، اسلحہ گولہ بارود انگریزوں کا اور خون دونوں طرف مسلمانوں کا۔
اس وقت کعبے میں جو کالا پتھر لگا ہے وہ حجر اسود نہیں ہے بلکہ اگر آپ اسے غور سے دیکھیں تو اس کے اندر آپ کو تین چار کنکر نظر آئیں گے، یہ اصل حجر اسود کے بچے ہوئے ٹکڑے ہیں۔ قرامطہ نے حجر اسود کے تین ٹکڑے کیے تھے، اگلے آٹھ سو سال میں آٹھ ٹکڑے ہو گئے۔ سلطنت عثمانیہ کے عبد العزیز نے آٹھ ٹکڑوں کو جوڑ کر چاندی کا خول چڑھا دیا تھا یہی خول آج تک چل رہا ہے۔ حجر اسود کے چند ٹکڑے ترکی کی ایک مسجد کی چھت میں بھی لگے ہوئے ہیں۔
1979 نومبر میں محمد بن عبداللہ قحطانی نے فجر کی نماز کے وقت کعبے پر حملہ کیا، وہ امام مہدی ہونے کا دعویدار تھا اس کے ساتھ لگ بھگ چار سو جنگجو موجود تھے۔ سعودی عرب نے مختلف ممالک کی آرمی سے مدد مانگی، پاکستان میں مشہور ہے کہ ہماری نمبر ون فوج نے کعبے میں آپریشن کیا یہ بالکل جھوٹ ہے۔ خانہ کعبہ میں آپریشن فرانس کی سپیشل فورسز نے کیا تھا۔ چودہ دن خانہ کعبہ کا محاصرہ جاری رہا۔ ایک سو ستر افراد کعبہ میں مارے گئے اور دو سو گرفتار ہوئے۔
ہر مسلمان حکمران نے اپنے اقتدار کی جنگ کو دین اسلام کی بقاء کی جنگ قرار دیا، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو تاراج کیا۔