Khud Khushi Ke Asbab Aur Sadd e Bab
خُودکُشی کے اسباب اور سدباب
خُودکُشی ایک ایسا دِلخراش اور تکلیف دِہ موضوع ہے کہ اس پر قلم اٹھاتے ہوئے بھی دِل افسردہ ہو جاتا ہے لیکن اِس رُجحان کو روکنے اور کم کرنے کیلئے اِسکی وجوہات اور اِسکے سدِباب پر لکھنا اور بات کرنا بھی ضروری ہے۔
دُنیا بھر میں خُودکُشی ایک تشویش اور دردناک مسئلہ ہے، ہر 40 سیکنڈ میں اِسکی وجہ سے کوئی نہ کوئی فرد اپنی زندگی ختم کرلیتا ہے۔ WHO کی رپورٹ کے مُطابق سال 2019 میں دنیا بھر میں تقریباً 800000 سے زیادہ لوگوں نے خُودکُشی کی، اور ایک اندازے کے مطابق سال 2020 میں اس کی تعداد1400000 تھی۔ یہ 15-29 سال کی عُمر کے لوگوں کے مرنے کی دُوسری بڑی وجہ ہے۔
دُنیا میں ہونے والی خُودکُشیوں میں سے ٪77 کا تعلق غریب اور ترقی پذیر ممالک سے ہے، مگر بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں امیر اور پڑھےلکھے افراد میں بھی اِسکا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں اِسکی شرح %8.9 ہے، 19-2018 میں اس میں کچھ کمی دیکھنے کے بعد ایک بار پھر اِس میں اضافہ دیکھا جارہا ہے، جِسکی بُنیادی وجہ سیاسی و مُعاشی عدم اِستحکام کی وجہ سے ہونے والا ڈپریشن اور اِیمان کی کمزوری ہے۔ اِسکے علاوہ مایوسی و نااُمیدی، جِسمانی تشدد، ذہنی و نفسیاتی دباؤ، طویل بیماری و بے بسی، پچھتاوے، بے عزتی اور تنہائی کا احساس بھی اِسکی اہم وجوہات میں شامِل ہیں۔
مردوں میں اِسکا تناسُب عورتوں سے تقریباً 3 گنا زیادہ ہے۔ خُودکُشی کا عمل افراد اور مُعاشرے کو بری طرح مُتاثر کرتا ہے۔ مرنے والا خود تو اِس دُنیا سے چلا جاتا ہے مگر اِسکے اِس منفی فِعل کا اثر سالوں تک اِسکے خاندان پر پڑتا رہتا ہے۔ اِسی لئے دینِ اِسلام میں مایوسی کو گُناہ اور خُود کُشی کو حرام قرار دیا ہے۔
لوگوں میں اِجتماعی اور اِنفرادی سطح پر شعور اور آگاہی پیدا کرکے اس رُجحان کو بہت حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً اگر آپ کسی شخص میں بہت زیادہ مایوسی و نااُمیدی دیکھیں یا آپ کا کوئی قریبی دوست یا رشتہ دار اچانک سماجی طور پر خود کو محدود کرلے، لوگوں سے ملنےجُلنے کی بجائے تنہا رہنا شروع کر دے، اِسکی طبیعت میں بیزاری اور چڑچڑاپن پیدا ہوجائے، اور باتوں میں بے بسی نمایاں ہو توپھر اُس پر طنز و مزاح اور تنقید و نصیحت کرنے کی بجائے اُس کی مدد اور رہنمائی کریں۔
ایسے لوگوں کے ساتھ پیار اور ہمدردی کے ساتھ پیش آئیں تاکہ وہ آپ پر اعتماد کریں اور اپنے دل کی بات آپ سے بیان کرسکیں، اور کسی بڑے سانحے سے بچ جائیں۔ اِنھیں قائل کریں کہ نفسیاتی مسائل کیلئے کسی نفسیاتی معالج سے رجوع کرنے میں کوئی شرمندگی اور قباحت نہیں ہے۔ جِسطرح ہم جِسمانی امراض دُور کرنے کیلئے ڈاکٹر سے رابطہ کرتے ہیں، اِسی طرح نفسیاتی مسائل کے حل کیلئے نفسیاتی ماہرین سے رابطہ کرنا بھی ایک نارمل عمل ہے۔
پاکستان میں حکومتی سطح پر بھی اس رُجحان کو روکنے اور کم کرنے کیلئے اس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ متعلقہ سرکاری اِداروں کو چاہیے کہ اس معاملے میں عوام میں شعور اور آگہی پیدا کرنے کیلئےایک موثر مُہم کا آغاز کریں، اور اس بارے میں زیادہ سے زیادہ مُستند اَعداد و شُمار اکٹھے اور مُنظّم کریں تاکہ اِنھیں مدِنظر رکھتے ہوئےاِس مسئلے پر ایک موثر اور جامع پالیسی بنائی جاسکے۔
پاکستان میں تقریباً ٪80 لوگ کسی نہ کسی ذہنی مرض کا شکار ہیں، تحقیق کے مطابق صرف لاہور میں ڈیپریشن کی شرح ٪53.4 ہے۔ اگر آپکو یا آپکے کسی جاننے والے کو کبھی اِس حوالے سے کوئی مدد یا رہنمائی درکار ہوآپ بلا جھجک کسی بھی وقت 03117786264 پر ماہرین سے رابطہ کر سکتے ہیں۔