Selab Kahani, Paharon Ka Badla
سیلاب کہانی، پہاڑوں کا بدلہ
آج وہ بہت خوش تھا۔ اس نے روز کی طرح آج بھی اپنے 3 سالہ بیٹے ہمدان کے لئے اس کی پسندیدہ مٹھائی خریدی۔ مٹھائی کی دکان سے نکلتے وقت اس کی نظر سامنے جیولر کے شو کیس پر پڑی۔ شوکیس میں سرخ نگینوں سے سجا ایک خوبصورت کنگن چمک رہا تھا۔ وارث اتنا خوش تھا کہ ترنگ میں آ کر اپنی بیوی زرینہ کے لئے وہ کنگن خرید ڈالا۔ گھر آ کر جب وارث نے کنگن زرینہ کو دیا تو بھی حیران رہ گئی۔
وارث خشک مزاج آ دمی تھا۔ جذبات کا اظہار کرنا اسے بالکل نہیں آتا تھا۔ کبھی بتا ہی نہیں سکا کہ وہ اپنی بیوی زرینہ سے کتنا پیار کرتا ہے۔ اپنے بیٹے ہمدان سے بھی اسے بے حد پیار تھا اور زیادہ تر اس کے لئے ہی نت نئی چیزیں لاتا تھا۔ مگر آج شادی کے چار سال بعد پہلی بار زرینہ کے لئے کوئی تحفہ لایا تھا۔ زرینہ کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔ وارث نے پہلی بار یہ چمک اس کی آنکھوں میں دیکھی تھی۔ وہ بار بار کلائی میں پڑا کنگن گھما رہی تھی۔
"آج کیسے خیال آ گیا میرے لئے کچھ لانے کا؟" وہ لجا کر بولی۔
وارث نے نظر بھر کر اسے دیکھا اور بیڈ پر لیٹے ہوئے بولا "آج بڑی اچھی دہاڑی ہوئی ہے"۔ پہاڑ کے سب سے اونچے اور خوبصورت درخت کٹوائے ہیں میں نے۔ ورنہ تُو جانتی ہے میرے ہاتھ تو بس چھوٹے درخت ہی آتے ہیں مگر آج میں نے وہ جگہ دیکھ لی جہاں سب درخت خوب قد آور ہیں۔ اب ہم بہت جلد امیر ہو جائیں گے زرینہ۔ تو نہیں جانتی، ان درختوں کی قیمتیں دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ بڑی ڈیمانڈ ہے ان کی۔ "
زرینہ وارث کو خوش دیکھ کر مسکرا اٹھی۔ "اچھا، یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ تھوڑے پیسے جمع ہو جائیں پھر ہم اپنےگھر کو سیٹ کرا لیں گے۔ وہ میری ماموں کی لڑکی ہے نا، اس نے اپنا گھر سیٹ کیا ہے۔ سنا ہے ہر چیز ہے اس کے گھر میں۔ فریج، بڑا والا ٹی وی، اے سی۔ اور وہ بھی ہے جو سورج سے بجلی بناتا ہے۔ اس کے گھر میں ہر وقت بجلی ہوتی ہے۔ "
زرینہ بڑے جوش سے بتا رہی تھی۔ "اسے سولر کہتے ہیں، تو فکر نہ کر بس دو چار مہینے رک جا پھر دیکھنا تیری مامے کی بیٹی سے بھی بڑا سولر لگوا کر دوں گا۔ " وارث نے کہا، اور زرینہ آنکھوں میں سپنے سجانے لگی۔ "پھر تو ہم اپنے بیٹے کو بھی اچھے اسکول بھیجیں گے۔ میں پورے گھر کے نئے پردے لوں گی۔ اور ہاں، واشنگ مشین بھی وہ والی لوں گی جو خود ہی سب کپڑے دھوتی اور سکھاتی ہے۔ "
وارث ہنس پڑا "ہاں ہاں سب لے لینا۔ بس دعا کر یہ فاریسٹ والے زیادہ تنگ نہ کریں۔ ویسے تو سب کا حصہ مقرر ہے مگر کبھی کبھی کوئی افسر آ جاتا ہے جو مشکل پیدا کرتا ہے۔ " زرینہ کو اپنی سپنوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ منطور نہ تھی۔ وہ ذرا غصہ سے بولی "یہ بھلا فاریسٹ والوں کو کیا مصیبت پڑتی ہے۔ اتنے ڈھیروں درخت ہیں یہاں اور نئے درخت بھی اگتے ہیں۔ یہ کیوں روکتے ہیں کاٹنے سے؟"
وارث نے ٹی وی کا ریموٹ اٹھاتے ہوئے کہا "یہ کہتے ہیں درخت زمین کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان کی وجہ سے زمین مضبوط رہتی ہے۔ مٹی ٹوٹ کر بہتی نہیں ہے اور بھی نہ جانے کیا کی باتیں خواہ مخواہ کے ڈرامے۔ " زرینہ کو بھی کچھ سمجھ نہ آیا وہ بولی "لو، درخت زمین کو کیسے مضبوط کریں گے؟ پہاڑ، پتھر زمین کو مضبوط کرتے ہیں۔ ہونہہ نئی نئی باتیں۔ "
٭٭٭٭
وارث پہاڑوں کا رہنے والا تھا۔ اس کی ساری زندگی ان پہاڑوں پر ہی گزری تھی۔ پہلے کھیتی باڑی کرتا تھا مگر آمدنی بہت محدود ہوتی تھی پھر اس نے درختوں کی کٹائی کا کام شروع کر دیا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ کام غیر قانونی ہے مگر یہاں سب چلتا ہے کچھ لے کر کچھ دے کر۔ اس کا کام بھی چل پڑا۔ مگر اسکول کے ماسٹر جی کو جب سے اس کے اس کام کے بارے میں پتہ چلا تھا وہ اس کو اکثر سر راہ روک لیا کرتے تھے۔
"وارث یہ درخت ان پہاڑوں کا زیور ہیں۔ یہ زمین کو پکڑے بیٹھے ہیں۔ قدرت سے پنگا نہ لو، جن درختوں کو تم ایک دن میں کاٹ ڈالتے ہو وہ کئی سالوں میں بڑے ہوتے ہیں۔ ارے پاگلو، یہ درخت ہماری زندگی ہیں۔ چند پیسوں کی خاطر اپنی زندگی کا سودا نہ کرو۔ " اور وارث ان کی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کام سے نکال دیتا تھا۔
٭٭٭
"بڑی تیز بارش ہے۔ نہ جانے وارث کب آئے گا؟" زرینہ کا دل ہول رہا تھا۔ آج بارش کو شروع ہوئے ساتواں دن تھا۔ روز کئی کئی گھنٹے بارش برس رہی تھی۔ سنا ہے سیلاب کا خطرہ ہے۔ مگر وہ مطمئن تھی "پہاڑوں پر کیسا سیلاب؟ اگر آیا بھی تو سب پانی نیچے بہہ جائے گا" مگر آج کی بارش دیکھ کر اس کا دل ڈر رہا تھا۔ بجلی کی گرج چمک اور بادلوں کی گڑگڑاہٹ سے دل پر ہیبت طاری ہو رہی تھی۔
اسی وقت فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ زرینہ اچھل پڑی۔ وارث کا فون تھا۔ اس نے کال ریسیو کی۔ "زرینہ، ہمدان کو لے کر گھر سے نکل جا۔ سیلابی ریلا آ رہا ہے۔ " وارث چلَا رہا تھا۔ زرینہ کو کچھ سمجھ نہیں آیا "کیا؟ کہاں نکل جاؤں؟ وارث۔ ہیلو۔ ہیلو۔ وارث۔ " مگر لائن کٹ چکی تھی۔ اسی وقت باہر شور سنائی دیا لوگ چیخ رہے تھے۔ نکلو یہاں سے۔ بھاگو۔ جلدی کرو۔ ہر طرف شور بپا تھا۔
زرینہ نے ہمدان کو اٹھایا اور باہر بھاگی۔ مگر دیر ہو چکی تھی۔ پانی بڑی تیزی سے بہہ رہا تھا۔ پہاڑوں سے پتھر اور مٹی کے تودے پانی کے ساتھ بہتے ہوئے آ رہے تھے اور ہر چیز کو تہس نہس کر رہے تھے۔ گھر خس و خاشاک کی طرح بہہ رہے تھے۔ زرینہ پانی کو تیزی سے اپنی طرف آتا دیکھ کر خوف سے چلائی۔ بچاؤ! وارث! مگر بہتا پانی بڑا ظالم تھا وہ لڑکھڑائی اور پانی میں جا گری۔
آنکھیں دیکھنے سے قاصر تھیں۔ مڈ میلا پانی منہ اور ناک سے سیدھا اندر جا رہا تھا۔ سانس لینے کی کوشش بے کار تھی۔ ہاتھ بچے کو سنبھالنے سے انکاری تھے اور پھر پانی اس کے ہاتھ سے ہمدان کو چھین کر لے گیا۔ "ہمدان۔ ہمدان۔ میرا بچہ۔ " وہ چیخ بھی نہ پائی۔ پانی نے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ وہ دیوانوں کی طرح پانی میں ہاتھ پیر مارتی پتھروں سے ٹکراتی بہتی چلی گئی۔
٭٭٭
وارث بمشکل جان بچا کر گھر پہنچ پایا۔ مگر جس جگہ اس کا گھر تھا اب وہاں ملبے کا ایک ڈھیر پڑا تھا۔ "زرینہ۔ ہمدان۔ ہمدان۔ زرینے۔ " وہ پاگلوں کی طرح ادھر ادھر بھاگ رہا تھا۔ پہاڑ سے بہہ کر آنے والے پتھروں نے اس کے گھر کو مٹی کے گھروندے کی طرح کچل کر رکھ دیا تھا۔ تھک ہار وہ ان پتھروں پر ہی بیٹھ گیا۔ خان لالانے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا "چل وارثے، نیچے کیمپ میں چل کر دیکھتے ہیں۔ کیا پتہ زرینہ وہاں پہنچ گئی ہو؟" وارث یہ سنتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور کیمپ کی طرف بھاگا۔
٭٭٭
خان لالا نے ٹھیک کہا تھا زرینہ وہاں موجود تھی۔ مگر وارث اس کو نہیں پہچان پا رہا تھا۔ اگر اس کے ہاتھ میں سرخ نگینوں سے مزین وہ کنگن نہ ہوتا تو کبھی پتہ نہ چلتا کہ چادر کے نیچے یہ کٹا پھٹا بے جان جسم زرینہ کا ہے۔ ہمدان کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ پہاڑوں نے اپنا بدلہ لے لیا تھا۔