Selab Kahani, Dhabba
سیلاب کہانی: دھبہ
"امی!"
وہی ہوا جس کا ڈر تھا، جس کے ہو جانے کا خوف اندر ہی اندر اسے کھا رہا تھا، وہ خوب جانتی تھی کہ یہ وقت آنے کو ہے۔ مگر جب وہ وقت آئے گا تب کیا ہوگا؟ یہ وہ بالکل نہیں جانتی تھی۔
"امی۔۔ "
اس نے پھر سے اپنی ماں کو ہلایا وہ آنکھیں ملتی اٹھی، "کیا؟ کیا ہوا؟"
"امی۔۔ وہ۔۔ کپڑے۔۔ "
اس کو سمجھ نہ آیا کیسے کہے "کپڑے خراب ہو گئے۔۔ "
اس نے داغ دار دامن ماں کے آگے کر دیا
دامن لگا دھبہ دیکھ کر سکینہ کی بھی روح فنا ہو گئی "خدایا۔۔ اب کیا کروں۔۔ "
سکینہ خود تو عمر کی یہ منزل پار کر چکی تھی مگر اس کی بیٹیاں جوان تھیں اور ماہ نور کے لئے تو مہینے کے یہ چند دن کس قدر کڑے ہوتے تھے۔
وہ جانتی تھی، ماہ نور اس ایک ہفتے میں ادھ مری ہو جاتی تھی، شدید درد اور ٹیسیں اسے بے حال کر دیتی تھیں، سکینہ اس ایک ہفتے میں اس کا بہت خیال رکھتی تھی، کبھی گرم دودھ دیتی۔۔ تو کبھی کوئی پھکی۔
تجربہ کار عورتوں اور دائیوں سے بھی پوچھا تھا کہ اس درد کا درماں کیا ہے؟ مگر سب کا ایک ہی جواب تھا "کسی کسی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔۔ کچھ خواتین کو ماہواری بہت تکلیف سے آتی ہے۔ "
اور اب یہاں اس بے سروسامانی کے عالم میں یہ ایک ہفتہ کیسے گزرے گا؟ سوال تھا کہ عفریت!
سکینہ اور ماہ نور دونوں افتاں و خیزاں ایک دوسرے کا منہ تک رہی تھیں۔
٭٭٭
چند دن پہلے تک سب ٹھیک تھا، ایک گھر تھا، بہت عالی شان نہ سہی مگر بہت آرام دہ تھا، آسائشات زندگی نہ سہی۔۔ ضروریات زندگی میسر تھیں۔ مگر پھر بارشوں اور سیلاب نے وہ تباہی مچائی کے سب تلپٹ ہو گیا۔
سیلابی ریلا اتنی تیزی سے آیا کہ وہ صرف جان ہی بچا سکے۔۔ بھرا گھر چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ کچھ بھی اٹھانے کی مہلت نہ ملی۔
پورا علاقہ زیر آب آ گیا، گھر املاک جانور سب بہہ گئے، اور انھیں امدادی کیمپ میں پناہ لینی پڑی۔
لوگوں کا ایک ہجوم تھا، جگہ، خوراک اور دوا کے لئے لڑتے لوگ، امدادی سامان دینے والی تنظیموں نے انھیں کچھ سامان فراہم کیا تھا۔ بستر کمبل پہنے کے لئے کچھ کپڑے، کچھ دوائیں، مگر ان میں عورتوں کی اس بنیادی ضرورت کی کوئی چیز نہ تھی۔
اور اب ماہ نور اپنا پیٹ پکڑے دھری ہوئی پڑی تھی اور سکینہ سر پکڑے اسے دیکھ رہی تھی۔
ماہ نور کی آہوں نے ساتھ لیٹی حمیدہ کو بھی بیدار کر دیا، کیا ہوا خالہ؟ اس نے سکینہ کو سر پکڑے دیکھا تو پوچھا۔
سکینہ آنسو بھری آنکھوں سے اس کو دیکھنے لگی وہ پریشان ہو کر اٹھ بیٹھی، اب اس کی نظر ماہ نور پر پڑی "اس کو کیا ہوا؟"
سکینہ نے بے چارگی سے حمیدہ کی طرف دیکھا اور جواب دیا، "دھبہ لگ گیا ہے۔۔ اب یہاں کپڑا کہاں سے لاؤں؟ اس کو تو تکلیف بھی بہت ہوتی ہے۔۔ درد کی گولی کہاں سے آئے گی؟"
سکینہ رونے لگی۔
حمیدہ کا ہاتھ بے ساختہ اپنی چادر کے اندر چلا گیا۔ اس نے غیر محسوس انداز میں چارد کے اندر چھپے ہوئے کپڑے کے چھوٹے سے ٹکڑے کوچھوا۔ کل ہی یہ کپڑا اس کو ملا تھا اور اس نے اپنے ان دنوں کے لئے اٹھا کر چادر میں چھپا لیا تھا۔
مگر اب ماہ نور کی حالت دیکھ کر وہ شش س پنج میں پڑ گئی تھی۔ "اگر یہ کپڑااس کو دے دیا تو میں کیا کروں گی؟ لیکن میرا وقت آنے میں ابھی دیر ہے۔۔ اس کو ابھی ضرورت ہے۔۔ کیا کروں؟"
بہت کڑی جنگ کے بعد حمیدہ نے وہ کپڑا سکینہ خالہ کے حوالے کر دیا۔
سکینہ پر تو شادی مرگ کی کیفیت طاری ہو گئی، وقتی ہی سہی کچھ تو سہارا ملا۔
٭٭٭
"امی۔۔ "
ماہ نور تکلیف سے رو پڑی، سکینہ جلے پیر کی بلی کی طرح ادھر ادھر گھوم رہی تھی۔
حمیدہ کا دیا ہوا کپڑا خون میں لت پت ہو چکا تھا، ماہ نور دوہری اذیت میں مبتلا تھی۔
اس کے کپڑے تیزی سے داغ دارہو رہے تھے۔
درد اور ٹیسوں نے اس کو بے دم کیا ہوا تھا۔
"کیا کروں! کہاں جاؤں!" سکینہ کو اپنا مرحوم شو ہر بے طرح یاد آ رہا تھا۔
"بات تو شرم کی ہے مگر جواب بیٹی کا معاملہ ہے۔۔ اس کا باپ زندہ ہوتا تو میں اس سے کہہ سکتی تھی۔۔ مگر اب کس سے کہوں؟"
یہ کیمپ ایک اسکول میں لگایا گیا تھا ماہ نور کے لئے حوائج ضروریہ کے لئے جانا بھی محال ہو گیا تھا۔
"ان داغ دار کپڑوں میں کیسے جائے گی؟"
سکینہ نے کہا "باہر مرد ہی مرد کھڑے ہیں۔۔ تھوڑا صبر کر۔۔ اندھیرا ہو تو لے چلوں گی۔ "
حمیدہ سے ماہ نور کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی وہ سکینہ سے بولی "خالہ ادھر ایک ڈاکٹر بیٹھا ہے۔۔ اس سے درد کی کوئی دوا لادوں۔ "
سکینہ خالہ نے حمیدہ کو عجیب سی نظروں سے دیکھا "پاگل ہوئی ہے؟ کیا کہوں گی مرد ڈاکٹر سے؟ آدمی ہی آدمی بھرے پڑے ہیں وہاں۔۔ "
حمیدہ بولی "ارے خالہ تو یہ بات نہیں بتانا۔۔ کہہ دینا کمر میں درد ہے۔۔ سب درد کی دوائیں ایک سی ہوتی ہیں۔۔ "
سکینہ سے بھی اب ماہ نور کی حالت نہیں دیکھی جا رہی تھی۔ وہ گئی اور ڈاکٹر سے اپنی کمر درد کا بہانہ کر لے دوا لے لائی۔ مگر اس دوا سے ماہ نور کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
ہوتا بھی کیسے۔۔ ڈاکٹر نے سکینہ کی عمر وزن اور بتائے گئے مرض کے مطابق دوا دی۔
رات تک ماہ نور خون سے آلودہ ہو چکی تھی۔
ایک چادر سے خود کو ڈھانپے بیٹھی رات ہونے کا انتظار کر رہی تھی تاکہ باتھ روم جا سکے۔
٭٭٭
وہ رات دونوں ماں بیٹی کی زندگی کی طویل ترین رات تھی، مگر ہر رات کی سحر ہوتی ہے، اس رات کی سحر بھی ہو ہی گئی۔ صبح پتہ چلا کہ کیمپ میں کوئی لیڈی ڈاکٹر آئی ہے، سکینہ کو تو جیسے زندگی مل گئی۔
ڈاکٹر نے جب ماہ نور پر سے چادر ہٹائی تو بدبو کا شدید بھبکا اس کے طبعیت کو مکدر کر گیا۔
"یہ کیا حال کر دیا بچی کا؟"ڈاکٹر نے غصے سے سکینہ کو دیکھا۔
سکینہ گھبرا گئی، "وہ۔۔ ڈاکٹر صاحب میں کیا کرتی؟ گھر سے جان بچا کر نکلے تھے۔۔ کچھ سامان نہیں لیا۔۔ اب یہاں کوئی سامان نہیں تھا۔۔ تو اب میں کیا کرتی؟"
ڈاکٹر کا غصہ کم نہ ہوا۔
"سامان نہیں تھا، لوگ تو تھے۔۔ اتنے آدمی باہر موجود ہیں کسی سے کہتی۔۔ کوئی نہ کوئی تو انتظام کر ہی دیتا۔۔ "
سکینہ سر ا سیما سی ہو کر بولی "شرم والی بات ہے ڈاکٹر جی، جوان لڑکی کی بات غیر آدمیوں سے کیسے کہتی۔۔ "
ڈاکٹر کو غصہ آسمان کو چھونے لگا "کیا شرم والی بات ہے بی بی۔۔ جیسے بھوک لگتی ہے، نیند آتی ہے، قبض ہو جاتا ہے، موشن ہو جاتے ہیں ایسے ہی مہینے میں خون آتا ہے۔۔ اس میں شرم کس بات کی ہے۔۔ "
سکینہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر وہ۔۔ آدمی ہیں۔۔ بعد میں مذاق بناتے۔۔ باتیں کرتے۔۔ "
"آپ سب مائیں ہیں۔ "
ڈاکٹر نے وہاں موجودتمام خواتین سے مخاطب ہو کر کہا "صرف اپنی بیٹیوں کو ہی نہ شرم و حیا نہ سکھائیں بلکہ۔۔ اپنے بیٹوں کی شروع سے ایسی تربیت کریں کہ وہ عورت کا نمونہ یا عجوبہ نہ سمجھیں۔
یہ قدرت کا بنایا ہوا نظام ہے۔۔ اسی نظام سے دنیا میں نئے لوگ پیدا ہوتے ہیں، یہ کوئی سزا یا جرم نہیں ہے۔۔ جس کو چپ چاپ سہنا ہے۔ "
سکینہ سمت تما م عورتیں سر جھکائے کھڑی تھیں۔
٭٭٭