Selab Kahani, Beti
سیلاب کہانی : بیٹی
"کتنا ٹائم رہ گیا اس کا؟" نصیبن خالہ نے جنبشِ ابرو سے انیلا کی طرف اشارہ کیا اور اس کی ساس سے رازداری سے پوچھا۔
رشیدہ نے اپنی بہو انیلاکو دیکھااور کہا "پورے دنوں سے ہے ماشااللہ۔۔ اسی مہینے کی آخری تاریخیں دی ہیں ڈاکٹرنی نے۔۔ بس نصیبن خالہ دعا کرو۔۔ "لڑکا ہو۔۔ " نصیبن خالہ سر ہلانے لگیں۔
"اللہ کرے لڑکی ہو" انیلا نے دل ہی دل میں کہا اور چور نظروں سے ساس کی طرف دیکھنے لگی۔
"کہیں اللہ سے کی گئی سرگوشی بھی نہ سن لیں۔ "
انیلااپنی ساس سے بہت ڈرتی تھی۔ ان کا ہر حکم مانتی تھی۔۔ مگر اپنے دل کا کیا کرتی! اسے ہمیشہ سے ہی بیٹیاں اچھی لگتی تھیں۔
رنگ برنگے کپڑے پہنے، بالوں میں کلپ پونیاں سجائے۔
اس کا شوہر ریاض بھی اس کی خواہش پر حیران ہوتا تھا۔
"یار۔۔ یہ تو عجیب سچویشن ہے۔۔ اماں کو لڑکا چاہئے اور تمہیں لڑکی۔۔ اب دیکھو اللہ کس کی سنتا ہے۔۔ "
انیلا نے گھبرا کر دروازے کی طرف دیکھااور کہا "آہستہ بولو، اماں نے سن لیا تو قیامت لے آئیں گی۔۔ "
اور ریاض ہنس دیتا۔ اسے لڑکے یا لڑکی سے کوئی غرض نہ تھی وہ بس صحت مند اور صالح اولاد چاہتا تھا۔ مگر ان دونوں ساس بہو کی متضاد خواہش پر حیران ہوتا تھا۔
رشیدہ ہر نماز میں رو رو کر دعا کرتیں۔۔ ہر آئے گئے سے کہتیں"بس دعا کرو۔۔ اللہ میرے ریاض کو پہلا پہل بیٹا دے۔۔ بڑا ساتھ دیا ہے میرے بچے نے میرا، ورنہ میں اکیلی بیوہ عورت! کیسے چار چار لڑکیاں بیاہتی؟ میرا بچہ اکیلا لگا رہا میرے ساتھ۔۔ اللہ اب میرے بیٹے کو بازو عطا کر دے"
ایک دن محلے کی لیڈی ورکر نے کہہ دیا "خالہ نبی پاک کا فرمان ہے کہ مبارک ہے وہ عورت جس کی پہلی اولاد بیٹی ہو۔ "
رشیدہ کہاں ہار ماننے والی تھی فوراً بولیں"نبی پاک کا فرمان سر آنکھوں پر۔۔ مگر بی بی ہر نبی پیغمبر نے وارث کی دعا کی ہے لڑکی کسی نے نہیں مانگی۔ "
انیلا چپ چاپ سب باتیں سنتی، جانتی تھی کہ ساس ان کے بھلے کو ہی کہتی ہیں، مگر وہ خود کو روک نہ پاتی اور بار بار اللہ سے بیٹی کی دعا کرتی۔
اس کی الماری کے نچلے خانے میں ایک ننھی سی فراک چھپی تھی جو وہ بہت دن پہلے بازار سے خرید لائی تھی۔ ساس کے ڈر سے اس نے بالکل پیچھے کر کے دبا دی تھی۔
٭٭٭
کئی دن سے مسلسل بارش ہو رہی تھی۔ رشیدہ ہولائی ہوئی سے بارش کو دیکھتی کبھی گلی میں جھانک کر تیزی سے بھرتے پانی کو دیکھتی اور کبھی پورے دنوں سے بیٹھی بہو کو دیکھتی "یا اللہ رحم کرنا۔۔ "
وہ بار بار دعا کرتیں۔ ان کو بس ایک ہی خوف تھا۔۔ "اگر ایسے میں اسپتال جانا پڑا تو کیا ہواگا؟"
٭٭٭
ریاض بہت جلدی میں گھر میں داخل ہوا۔
"جلدی کرو۔۔ نکلنا ہے یہاں سے۔۔ "
اس نے سب سے پہلے اسپتال لے جانے کے لئے تیار کیا گیا بیگ اٹھایا۔
انیلا گھبرا گئی، "کیوں؟ کیا ہوا؟"
"سیلاب کا خطرہ ہے۔۔ اعلان ہوا ہے۔ "
اب وہ الماری سے زیور اور پیسے نکال رہا تھا۔ رشیدہ نے بے بسی سے چھت کی طرف دیکھا "یا اللہ۔۔ تُو جانتا ہے کہ کیسے بنا ہے یہ گھر۔۔ "
مگر جانا تو ہے۔۔ جلدی جلدی بیگ میں چند جوڑے رکھے اور وہ سب باہر نکل آئے۔ باہر بھی لوگ جمع تھے۔
سرا سیما اور ہراساں!
انیلا کی حالت کے پیش نظر انھیں سب سے پہلی گاڑی میں بٹھا دیا گیااور کافی لمبے سفر کے بعدوہ سیلاب زدگان کے لئے لگائی گئی خیمہ بستی میں پہنچا دیئے گئے۔ رشیدہ کو اب انیلا کے سوا کسی چیز کی فکر نہ تھی۔
"دیکھ بیٹا! پریشان نہ ہونا۔۔ بی پی ہائی ہو جاتا ہے۔۔ میں ہوں نا۔۔ ریاض بھی ہے۔۔ تُو بس اللہ کو یاد کرتی رہ۔۔ "
انیلا نے نم آنکھوں سے رشیدہ کو دیکھا۔ کہنے کو تو وہ اس کی ساس تھی مگر سگی ماں سے زیادہ فکر مند تھی۔ مگر انیلا کا دل تو الماری کے نچلے خانے میں دبی ننھی سی فراک کو یاد کر رہاتھا۔
"ہمارا سارا سامان بہہ جائے گا۔۔ ہمارا گھر نہ جانے کس حال میں ہوگا" اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ دن اس طرح آئے گا!
رشیدہ کیمپ میں کسی لیڈی ڈاکٹر کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔ مگر وہاں امدادی کارکن تو تھے۔۔ مگر کوئی ڈاکٹر نہ تھی۔ انیلا کی حالت ویسے بھی ٹھیک نہ تھی اور لمبے سفر کی تھکن اور جھٹکوں نے اس کو بے حال کر دیا تھا۔
ولادت کے ابھی کوئی آثار نہ تھے مگر رشیدہ جانتی تھیں کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ وہ باہر امدادی کارکنوں سے لڑی جا رہی تھی۔
"ارے کسی ڈاکٹر نی کا بندوبست کرو۔۔ کسی نرس کو ہی بلا لو۔۔ کسی بھی وقت ضرورت پڑ سکتی ہے۔۔ "
امدادی کارکن بے بسی سے اس کو دیکھ رہے تھے۔ "او میری ماں۔۔ اس ٹائم کوئی ڈاکٹر یا نرس نہیں آئے گی۔۔ "
ریاض بھی ادھر ادھر پتہ کرتا پھر رہا تھا مگر کوئی سرا ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔
٭٭٭
درد کی شدید جھٹکے سے انیلا کی آنکھ کھل گئی۔
"اماں۔۔ " وہ خوف ذدہ سی آواز میں بولی
رشیدہ کو تو ویسے ہی نیند نہیں آ رہی تھی فوراً اٹھ بیٹھی اور انیلہ کی طرف دیکھنے لگی " کیا ہوا انیلا؟"
انیلا بمشکل بول پائی "اماں۔۔ درد۔۔ درد ہو رہا ہے"
رشیدہ کی جان سے نکل گئی مگر وہ خود کو مضبوط کر کے بولی "اچھا اچھا۔۔ تو پریشان نہ ہو۔۔ میں ہوں نا۔۔ ابھی سب ٹھیک ہو جائے گا۔ "
رشیدہ جلدی سے اٹھ بیٹھی اور انیلا کے ہاتھ پیر ملنے لگی انیلا اتنی دیر میں درد سے بے حال ہو چکی تھی، اس کی آوازیں سن کر اردگرد موجود کچھ اور عورتیں بھی قریب آ گئی اور رشیدہ اور انیلا کو حوصلہ دینے لگے "گھبر اؤ نہیں۔۔ انشاءاللہ اللہ ساتھ خیریت کے خوشیاں دکھائے گا۔۔ "
مگر خوشی کے کوئی آثار نمودار نہیں ہو رہے تھے جبکہ درد کی شدت اب نا قابل برداشت ہوتی جا رہی تھی، سب نے اپنے اپنے تجربے کی بنیاد پر انیلہ کو سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی، مگر معاملہ بگڑتا نظر آ رہا تھا۔
رشیدہ باہر بھاگ گئی، " ارے کوئی ڈاکٹر کو بلاؤ۔۔ ایمر جنسی ہے، دو زندگیوں کا سوال ہے۔۔ "
ریاض پریشانی کے عالم میں باہر ہاتھ مل رہا تھا، کس نے سوچا تھا کہ یہ دن اس طرح آئے گا اپنے شہر کے ایک اچھے اسپتال میں اس نے انیلا کا نام لکھوایا تھا مگر قسمت انھیں یہاں لے آئی تھی۔
خیمہ میں موجود ایک تجربہ کار عورت نے انیلا کا معائنہ کیا اور کہا "بہن بہت مشکل کیس ہے۔۔ بچہ الٹا ہے۔۔ "
"بچہ الٹا ہے۔۔ " رشیدہ کے تو ہاتھ پیروں کی جان نکل گئی۔
"ہاں بچہ الٹا ہے۔۔ "
انیلا کی ہر سانس درد کا نیا طوفان لا رہی تھی۔ عورتوں کا ہجوم اسے موت کے فرشتوں کا ہجوم لگ رہا تھا۔ سب اپنی سی کوشش کر رہے تھے۔ کئی گھنٹوں کے درد نے انیلا کو نیم مردہ کردیا تھا۔
رشیدہ جلے پیر کی بلی کی طرح اندر باہر بھاگ رہی تھی۔ ریاض ایک ایک کارکن کی منت سماجت کر رہاتھا۔ "بھائی کسی فوجی اسپتال کال ملاؤ۔۔ وہ ہیلی کاپٹر بھیج دیں گے۔۔ "
کسی بڑی افسر سے بات کرو۔۔ "
مگر امداری کارکن بے بس تھے۔ اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہے تھے۔۔ ان کے پاس محدود وسائل اور محدودترین رسائی تھی۔
مایوی سی ما یوسی تھی!درد سا درد تھا!انیلا میں اب سانس لیے کی ہمت بھی نہیں بچی تھی۔ مگر درد بڑا بے درد تھا۔۔
انیلا کی آنکھوں کے آگے اندھیرا ہی اندھیرا تھا اور پھر وہ درد ہی کام آیا۔۔
ایک شدید لہر نے انیلا کی مشکل آسان کر دی۔۔
٭٭٭
"مبارک ہو۔۔ لڑکی ہوئی ہے۔۔ "
رشیدہ تو بھول ہی گئیں کہ وہ تو لڑکے کی خواہش مند تھیں۔ خوشی کے آنسو ان کی آنکھوں سے رواں تھے۔ ریاض سجدہ ریز تھا۔ انیلا کی حالت اچھی نہ تھی۔
ولادت تو جیسے تیسے ہو گئی مگر اب دیگر مسائل سر اٹھائے کھڑے تھے۔ آنول نال کس چیز سے کاٹا جائے گا؟ اینٹی بائیوٹک ادویات کہاں سے آئیں گی؟ زچہ بچہ کی صفائی کس چیز سے کی جائے گی؟ سینٹری پیڈز کے بغیر یہ وقت کیسے گزرے گا؟ گرم پانی اور خوراک کا کیا ہوگا؟
کچھ میسر نہ تھا۔۔ بڑی تگ و دو کے بعد کچھ سامان تو مل گیا اسی کے سہارے کچھ معاملات نمٹائے گئے۔ اور یوں رات گزر ہی گئی۔
اگلے دن ایک ایمبو لینس آئی اور انیلا کو اسپتال منتقل کر دیا گیا۔ ماں بچہ اب خطرے سے باہر تھے۔ رشیدہ پوتی کو گود میں لئے محبت سے تک رہی تھیں۔ خوشی ان کے روم روم سے جھلک رہی تھی۔
ریاض انیلا کے بیڈ کے پاس آ کر کھڑاہوا۔ "اب تو خوش ہو؟ اللہ نے تمہاری سن لی۔۔ بیٹی دے دی۔۔ "
انیلا نم آنکھوں سے ریاض کو دیکھتی رہی۔
" نہیں۔۔ میں خوش نہیں ہوں۔۔ "
انیلا کے الفاظ سن کر ریاض حیران رہ گیا
"کیوں۔۔ "
"اس ملک میں عورت ہونا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔۔
جہاں ماں بننا عورت کے لئے اتنا خوف ناک تجربہ ہو وہاں بیٹی پید انہیں ہونا چاہئے۔
کاش یہ لڑکا ہوتی۔۔ "
٭٭٭