Qasr e Aswad
قصر اسود
شہر کے مہنگے ترین علاقے میں مین روڈ پر تیسرا گھر میرا ہے۔ قصر اسود۔۔ (The White Palace)اپنی اردگرد موجود گھروں میں یہ آج بھی ممتاز نظر آتا ہے۔ لیکن آج میرا قصر اسود ویران پڑا ہے۔ وہ وائٹ پیلس جس کو بنانے کے لئے میں دن رات جتا رہا۔۔ سب سے الگ۔۔ سب سے منفرد گھر، اس گھر کو بنانے کے لئے میں نے دن رات انتھک محنت کی، مگر زندگی سے محروم یہ محل اب اپنے ہونے پر شرمندہ ہے۔
کس کے لئے بنایا؟ اس ویرانی کے لئے؟ یا نوکروں کے لئے؟
گھر کا کمرہ آراستہ و پیراستہ ہے۔ جدید سہولیات سے مزین ہے۔ دنیا کے بہترین برانڈز سے لی گئی چیزیں ان کمروں کی زینت ہیں۔ ہر بچے کا الگ بیڈروم ہے۔ ہر بیڈ روم میں اس کے مکین کی پسند کی ہر چیز موجود ہے۔ مگر خود مکین دور دیس کے باسی ہیں۔ میں جو سمجھتا تھا کہ ان چیزوں سے مزین کمرے انسانوں کے لئے کافی ہیں مگر آج جب میں ان کمروں میں تنہا جی رہا ہوں تو مجھے پتہ چلا کہ میرے بچے ان چیزوں کے ساتھ خوش کیوں نہیں تھے۔۔
"چیزیں خوشیوں کی ضمانت نہیں۔۔ آپ کا پیار اور وقت ان بچوں کے لئے بہت ضروری ہے۔ "میری بیوی کے الفاظ کانوں میں بازگشت پیدا کرتے تھے۔
"ہونہہ۔۔ ناشکری عورت۔۔ "اپنے ہی الفاظ اب روح کو زخمی کرتے تھے، میں لاؤنج میں آ بیٹھتا ہوں۔۔ اب یہ لاؤنج اپنی خوبصورتی میں بے مثال ہے۔۔ ویرانی میں بھی۔۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب یہ اک عام سا لاؤنج تھامگر زندگی سے بھر پور تھا۔
وہ لاؤنج جہاں میرے بچے صوفوں پر آڑھے ترچھے لیٹے ٹی وی دیکھتے تھے، اور جوں ہی میں گھر میں داخل ہوتاوہ بھاگ کر میرے پاس آجاتے تھے۔۔
"پاپا۔۔ پاپا۔۔ "صدائیں سی گونج اٹھتی تھیں۔۔
"پاپا ہمارے ساتھ ٹی وی دیکھیں۔۔ "
"پاپا آج تو پاکستان نے زبردست بیٹنگ کی۔۔ "
"پاپا۔۔ علی مجھے باربی مووی نہیں دیکھنے دیتا۔۔ "
بھانت بھانت کی آوازوں سے لاؤنج بھر جاتا تھااور میں ہمیشہ کی طرح مصروف۔۔
"ارے بھئی ہٹو۔۔ جاؤ ٹی وی دیکھو۔۔ صرف آدھے گھنٹے ہے میرے پاس۔۔ بہت ضروری میٹنگ میں جانا ہے مجھے۔۔ "میں انھیں ہٹاتا ہوا آگے بڑھ جاتا تھا میں نے کبھی مڑ کر دیکھا ہی نہیں وہ میرے اس رویے کے بعد مسکرانا بھول جاتے تھے۔
علی اپنا پسندیدہ میچ چھوڑ کر کمرے میں چلا جاتا تھا، زارا بھی باربی شو نہیں دیکھتی تھی۔۔ اور ان کی ماں پھر سے انھیں خوش کرنے کی کوشش میں لگ جاتی تھی، مگر مجھے یہ سب دیکھنے کی فرصت کہاں تھی۔
میرا بڑھتا ہوا بزنس مجھے اپنی طرف متوجہ رکھتا تھا۔ کبھی اگر میری بیوی شکوہ کرتی تھے تو الٹا میں خفا ہوجا تا تھا۔ "تم لوگوں کے لئے کر رہا سب کچھ۔۔ تم کیا چاہتی ہو سب چھوڑ چھاڑ کر گھر میں بچے کھلاؤں میں؟"
"نہیں نہیں۔۔ میں تو"وہ بے چاری گڑبڑا سی جاتی"بس تھوڑا وقت دے دیا کریں بچوں کو بھی۔۔ "وہ التجا سی کرتی رہ جاتی۔
"پیسہ دے تو رہا ہوں۔۔ "کتنا کم ظرف تھا میں۔۔ کتنی صابر تھی وہ۔
اس وقت میں کروڑوں کماتا تھا اور فخر سے اکڑ کر چلتا تھا۔ میرے بچے بہترین اسکولوں میں پڑھتے تھے لیکن مجھے علم نہیں کہ وہ کون سے اسکولوں میں تھے۔ میں تو ماہانہ لاکھوں روپے اسکول کی فیس ادا کر کے خود کو اچھا باپ ثابت کر رہا تھا۔ لاؤنج کا سناٹا کانوں میں گونجنے لگتا تو میں باہر لان میں آ بیٹھتا ہوں۔
میرا لان بھی پورے علاقے میں مشہور تھا۔ میری بیوی کو پودوں درختوں سے بڑا لگاؤ تھا۔ اس نے نجانے کہاں کہاں سے نادر پودے منگوائے تھے۔ مجھے ان میں کچھ خاص دلچسپی نہ تھی اور نہ میرے پاس وقت تھا کہ میں ان کی خوبصورتی کو محسوس کرتا۔ میرے لئے تو یہ ہی بہت تھا کہ میری بزنس پارٹیز میں لوگ میرے لان کی تعریف کرتے تھے، مثالیں دیتے تھے اور میں فخرو غرور سے سوچتا تھا۔۔ "لاکھوں ماہانہ خرچ آتا ہے اس لان پر"
میں ہر شے کو پیسے سے تولتا تھا۔ آج اس لان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں۔ مالی کے رحم و کرم پر تھا۔ نادر پودے مٹی سے اٹ چکے تھے۔ سبز زمردی گھانس بڑھ کر بے ھنگم بڑھ چکی تھی مگر وہ مہربان ہاتھ جو اس کی دیکھ بھال کرتے تھے اب کہیں نہیں ہیں۔
میں نے اپنی ہاتھوں کی طرف دیکھا۔۔ ان ہاتھوں نے تو کبھی اپنی بچوں کے پھول جیسے رخساروں کو محسوس نہیں کیا ان پھولوں کو کیا محسوس کریں گے۔۔
میرا اکلوتا بیٹا فٹ بال کا شوقین تھا وہ اکثر اس لان میں اپنی فٹ بال لئے کھڑا ہوتا اور مجھے منتظر نظروں سے دیکھتا۔۔ کبھی دوڑ کرپاس آتا۔۔ "پاپا پلیز۔۔ بس تھوڑی دیر ساتھ کھیل لیں۔۔ "
"بیٹا مجھے بہت کام ہیں۔۔ جاؤ تم اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلو!"اس کے چہرے کی مایوسی جو مجھے اب نظر آتی ہے نجانے اس وقت کیوں نظر نہیں آتی تھی۔
اس وقت میں ہر شے کو پیسے سے تولا۔ قیمتی ملبوسات و زیورات سے اپنی بیوی کو مزین کیا۔۔ وہ میری ایک تعریفی نظر۔۔ محبت بھرے جملے کی منتظر رہی مگرمیرے لئے وہ غیر ضروری عمل تھا۔۔ بچوں کوزندگی کی ہر سہولت دی۔۔ مہنگی تعلیم، اعلیٰ ترین خوراک، برانڈ کپڑے اور گاڑیاں مگر انھیں دینے کے لئے میرے پاس وقت نہیں تھا اور اب وہ سب پیسہ اور چیزیں میرے چاروں طرف موجود ہیں مگر مجھے ان میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہوتی اور جن کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اب ان کے پاس میرے لئے کچھ نہیں ہے۔ بس ایک خلا ہے جس کو پُر کرنا اب ممکن نہیں ہے۔
مہینوں بعد کسی بچے کو کوئی فون آتا ہےتو خاموشی کے طویل وقفے ہوتے ہیں اور رسمی باتیں۔ کیوں کہ مجھے نہیں پتہ کہ وہ کس بارے میں بات کرنا پسند کرتے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ ان کی زندگیوں میں کون کون لمحات آ کر گزرے۔۔ مجھے بالکل اندازہ نہیں ہے کہ ان کی پسند نا پسند کیا لہذا چند منٹ بعدخاموشی سے تھک کر میں خود ہی فون رکھ دیتا ہے۔۔
پیسہ پیار کا نعم البدل نہیں۔۔ یہ بات جاننے میں مجھے بڑی دیر لگ گئی۔