Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Sarfaraz
  4. Meri Maa

Meri Maa

میری ماں

"جناب کی صلاحیتوں کا لوہا ایک دنیا مانتی ہے۔۔

(تالیاں)

آپ ملک کے لئے ایک عظیم سرمائے کی حیثیت رکھتے ہیں۔۔"

اسٹیج پر مقرر میری تعریف میں زمین و آسمان کی قلابیں ملا رہا تھا۔

"ایسی ہی اولاد ہوتی ہے جن پر والدین بجا طور پر فخر کرتے ہیں۔"

میں پہلو سا بدل کر رہ گیا۔ یہ میری کامیاب زندگی کا سب سے ناکام پہلو تھا۔۔

ماں باپ۔۔ والدین۔۔ پیرنٹس۔۔ یہ سارے الفاظ میری زندگی میں سوالیہ نشان بنے رہے۔۔ میں ساری دنیا سے ان الفاظ کو ختم کرنا چاہتا تھا تاکہ کوئی مجھ سے میرا یہ حوالہ نہ پوچھے۔ میں تھک گیا تھا۔۔ بھاگ بھاگ کر۔۔ مگر جس سمت میں بھاگا مجھے اسی سمت میں یہ حوالہ کھڑا ملا۔

اور آج جب مجھے اطلاع ملی کہ وہ دنیا چھوڑ گئی تو میرا دل چاہا میں چیخ چیخ کر سب کو بتاؤں کہ میری ماں کون تھی۔

جب کسی کی ماں دنیا چھوڑ کر جاتی ہے تو ہر شخص اسے گلے لگا کر تسلی دیتا ہے۔۔

میں کیسا بیٹا ہوں۔۔ جس ماں چلی گئی اوروہ بلک بلک کر رویا نہیں۔۔ اسے کسی نے گلے نہیں لگایا۔۔ کاندھا نہیں تھپکا۔۔ تسلی نہیں دی۔

"قابل فخر ہے وہ ماں جس نے ایسا بیٹا پیدا کیا۔۔"

میں گہری سانس لے کر رہ گیا۔۔ مجھے لگا میں رو دوں گا۔۔ ماں کا چہرہ میری آنکھوں میں گھوم رہا تھا۔۔ میک اپ سے پاک۔۔ سادہ و معصوم چہرہ۔

"اب میں محترم مہمان خصوصی کو دعوت کلام دوں گا۔۔"

تالیاں پھر سے گانج اٹھی۔

میں ایک لمحہ کو رکا پھر ایک فیصلہ کر کے ہی کر سی سے اٹھا۔

"میں جب اپنی ماں کی گود میں آیا تو 3 دن کا تھا۔۔"

بوجھ اتنا تھا کہ میں نے بلا تمہید ہی بات شروع کردی۔

مجمع سناٹے میں آگیا

"جی ہاں صحیح سننا آپ نے۔۔ "

میں تین دن کا تھا جب کوئی مجھے بلقیس ایدھی کے جھولے میں ڈال گیا تھا۔۔"

پنڈال میں سرگوشیاں گونج اٹھا مگر میں نے نظر انداز کیا آج میں اپنے حوالے کو اپنا فخر بنانے والا تھا

کچھ بچوں کو پیدا ہوتے ہی ماں کی گود نہیں مل جاتی۔۔

کچھ بچوں کو پیدا ہوتے ہی باپ کی اذان نہیں مل جاتی۔۔

مجھ جیسے بچوں کو کوڑے کا ڈھیر بطور بستر ملتا ہے اور کتوں اور چوہوں کی آوازیں ہی ہماری پہلی سماعتیں ہوتی ہیں۔

اکثر تو ہم ان کتوں اور چوہوں کی ہی خوراک بن جاتے ہیں مگر کچھ میرے جیسے خوش نصیب بھی ہوتے ہیں جو بچ جاتے ہیں سو میں بھی بچ گیا۔۔نجانے کس کس ہاتھ سے ہوتا ہوا اپنی ماں گہوارے تک پہنچا۔

میری ماں۔۔ بلقیس ایدھی۔۔ ایک سادہ سی عورت تھی۔۔ سر پر دوپٹہ لئے۔۔ گھریلو سی۔۔ بے غرض۔۔ بے ریا۔۔

نہ اسے انگریزی میں گٹ پٹ آتی تھی نہ کسی فیشن یا برانڈ کا اسے پتہ تھا۔۔ مگر وہ اتوار بازار کے سادے سے پرنٹ والے جوڑے میں بھی کسی ملکہ سے کم نہیں لگتی تھی،اس کے دوپٹے کی خوشبو آج بھی میرے اردگرد رہتی ہے۔۔

اس کی ممتا بھری مسکراہٹ آج بھی میرے ذہن پر نقش ہے۔

وہ مجھ جیسے ہزاروں بچوں کی ماں تھی۔۔

وہ بچے جو کسی کمزور لمحے کی گرفت میں آ کر اس دنیا میں وارد ہوئے۔

جن کے وجود کو خود ان کے بائیولوجیکل والدین نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔۔

انھیں میری اس ماں نے اپنا لیا۔۔ اس نے مجھے بھی اپنا لیا۔۔ میں اس کی آغوش میں آیا تو مجھے پہچان ملی۔۔

نام ملا۔۔ شناخت ملی۔۔ ورنہ دنیا مجھے جس نام سے پکارتی وہ تو ایک گالی ہے۔۔

ایسی گالی جس میں ہرگز مستحق نہیں۔۔

نو ماہ کوکھ میں رکھنے والی ماں تو مجھے اپنے گھر میں چند گھنٹے نہ رکھ سکی مگر میری ماں بلقیس نے اپنے گھر کا دروازہ میرے لئے کھلا رہا۔۔

میرے لئے دنیا سے لڑگئی۔۔

ساری دنیا نے کہا یہ ناپاک ہے۔۔ پھینک دو اسے کسی کوڑۓ کے ڈھیر پر۔۔ یہ نجس ہے۔۔ لوگ مجھ سے دامن بچا کر نکلنے لگے

مگر میری ماں نے کہا نہیں یہ معصوم ہے۔۔ یہ بے گناہ ہے۔۔ یہ جنت کا پھول ہے۔۔ یہ میرا بچہ ہے۔

اس نے مجھ اپنالیا۔۔ اپنا بنا لیا اورآج میں جو بھی ہوں وہ اپنی ماں بلقیس ایدھی کی بدولت ہوں۔۔

آنسو میری انکھوں سے ہی نہیں مجمع میں موجود ہر آنکھ سے بہہ رہے تھے۔

"اور آج میں یتیم ہونے کے ساتھ ساتھ مسکین بھی ہوگیا۔۔

آج میری ماں مجھے چھوڑ کر دنیا سے چلی گئی۔۔

مگر وہ جا کر بھی ہمارے درمیان ہے۔۔

اس کا جذبہ اس کی انسان دوستی کبھی اسے ہم سے جدا ہونے نہیں دے گی۔۔

وہ کبھی فراموش نہیں کی جائے گی۔ "

تالیاں چھت اڑا رہی تھیں اور میں ڈائس پر سر کھے پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔

Check Also

Khadim Hussain Rizvi

By Muhammad Zeashan Butt