Beti
بیٹی
آج پھر عرش پر بڑی چہل پہل ہوگی، خوشی کچھ فرشتوں کے پروں سے نور بن کر ٹپک رہی ہو گی۔ "کس بات کی خوشی ہے؟ دوسرے فرشتے حیرت سے تک رہے ہوں گے۔ "کہاں جانے کی اس قدر تیاری ہے؟ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر اشارے کئے جارہے ہوں گے۔ "ارے عرش والو!جلدی کرو۔ ہمیں وقت پر نیچے پہنچنا ہے۔ دیر نہ کرو۔ "خوشی سے آواز گونج سی رہی ہو گی۔ "جانا کہاں ہے؟" شفاف سے لہجے میں سوال پوچھا گیا ہوگا"رحمت زمین پر اتری ہے۔ "ایک چہکتی آواز نے سب کو اطلاع دی گئی ہوگی۔
"فرش والے کے ہاں اللہ نے بیٹی پیدا کی ہے۔ "خوشی سے جھوم جھوم کر بتایا گیا ہوگا۔ ساری فضا میں فرشتوں کے پروں کی لطیف سی پھڑ پھڑا ہٹ سے بھر سی گئی ہو گی۔ فرشتوں کی ٹولیاں شاد ہو کر ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگیں ہوں گی۔ "بیٹی نہیں! یوں کہو ماں پیدا ہوئی ہے۔ بیٹی نہیں!یوں کہو کسی کی جنت دنیا میں اتار دی ہے اللہ نے۔ بیٹی نہیں ! یوں کہو باپ کے لئے جنت کی ضمانت بھیجی ہے اللہ نے۔ بیٹی نہیں! یوں کہو ماں کی خوش بختی کا تحفہ دیا گیا ہے۔ "ندا کی گئی ہوگی، صدائیں دی گئی ہوں گی۔ "چلو چلو۔ جلدی چلو۔ چل کر ماں باپ کو مبارک باد دیں۔
فرشتے عرش سے فرش کی جانب پرواز کرنے لگے ہوں گے۔ مگر فرش پر عجیب سماں تھا۔ فرشتوں کے معصوم دل سہم سے گئے ہوں گے۔ "یہ، یہ، یہاں کیسے؟"فرشتوں میں کھلبلی سی مچ گئی ہوگی۔ "یہ عزرائیل؟ یہ یہاں کیوں ہیں؟ یہ افسردہ سے کیوں ہیں؟ معصوم فرشتوں کے پر لرزنے لگے ہوں گے۔ کسی فرشتے میں ہمت نہ ہوگی کہ عزرائیل سے کچھ پوچھے۔ پھر ایک بر گزیدہ فرشتے نے آگے بڑھنے کی ہمت کی ہوگی۔ "رکو، میں اندر دیکھ کر آتا ہوں۔ "اندر سماں ہی عجیب تھا۔ دکھ درو دیوار سے بہہ رہا تھا۔ چہرے افسردہ تھے"۔
ماں۔ ماں کہاں ہے؟ اسے مبارک باد دینی ہے؟ فرشتے نے ممتا کے نور سے جگمگاتی ہوئی ماں کو ڈھونڈا ہوگامگر ماں، ماں کا چہرہ تو غم سے سفید پڑ چکا تھا۔ ممتا کا الوہی نور دکھ کی سیاہی میں بدل چکا تھا۔ وہ تو ہوش و حواس سے بے گانہ بسترِ زچگی پر پڑی تھی۔ مغموم چہرے اس کی طرف دیکھ رہے تھے، "سرگوشیاں تھیں "ہائے بے چاری۔ گود اجاڑ دی۔ پہلی اولاد تھی۔ کیسے کیسے ارمان ہوں گے، کیا کیا نہ بنایا ہوگا؟ ان نو مہینوں میں، ننھے ننھے کپڑے، آرام دہ بستر، خوبصورت کھلونے، سب جمع کئے ہوں گے۔ مگر، تاسف سے سر ہلائے گئے۔
فرشتے کا دل دھک دھک کر اٹھا ہوگارحمت ِ خدا وندی کہاں ہے؟ اسے لمبی زندگی کی دعا دینی ہے؟ فرشتے نے ننھے سے دجود کو کھوجا ہو گامگر، مگر یہ۔ یہ کیا، یہ خون، خون کس کا ہے؟ یہ فضا میں بارود کی مہک کیوں ہے؟ یہ ننھا سا وجود سرد کیوں ہے؟ یہ نازک سا بدن جو بھاری کپڑ ے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ اس میں یہ سیسہ کس نے بھر دیا؟ فرشتہ سرا سیما سا ہو گیا ہوگا، باپ۔ باپ کہاں ہے؟ اس بخشش کی خوشخبری دینی ہے؟"فرشتے نے چاروں طرف نظر دوڑائی ہوگی" یہ، یہ کیا؟"خوف سے فرشتے کے پر لرزنے لگے ہوں گے، باپ خون آلود ہاتھ لئے بیٹھتاتھا۔
"ہائے، ہائے ظالم، کیوں کیا ایسا؟"ایک ہی سوال سب کے چہروں پر تھا"بد بخت انسان، کوئی باپ اتنا بھی ظالم ہو سکتا ہے؟ ننھا سا معصوم بدن تو گرم ہوا سہنے کے قابل نہ تھا، تو نے انگارے جیسی گولیاں اس کے جسم میں اتار دیں "۔ بیٹا، بیٹا چاہئے تھا مجھے، بیٹی نہیں۔ فرشتہ مارے حیرت کے گنگ رہ گیا ہوگا"بیٹا چاہئے تھا؟ انسان کو بیٹی نہیں چاہئے تھی؟ اللہ کی رحمت نہیں چاہئے؟ جنت کی ضمانت نہیں چاہئے؟ قیامت میں بخشش نہیں چاہئے؟ نبی ﷺ کا پڑوس نہیں چاہئے؟"الہٰی!یہ میں نے کیا سن لیا"؟ فرشتہ اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر باہر بھاگا ہوگا۔
باہر کھڑے فرشتے بھی جیسے اس کی آمد کے ہی منتظر ہوں گے۔ " وہ، وہ عزرائیل، وہ بچی کو واپس عرش پر لے گئے"۔ وہ سب تو عرش سے مبارک باد دینے آئے تھے۔ فرش کے مناظر نے انھیں سہما دیا ہوگا۔ "ہاں، چلو، چلو، جلدی نکلو یہاں سے۔ ہم عرش پر چل کر اپنی ننھی رحمت کا استقبال کر لیں گے۔ یہاں فرش پر اب رحمت ِخدا وندی نہیں عذاب ِ الہٰی اتریں گے"۔ عذاب کا لفظ سن کر فرشتوں کے چہرے فق ہو گئے ہوں گے۔ "کیوں، کیا ہوا ہے؟" ڈری ہوئی آواز میں پوچھا گیا ہوگا۔
"فرش والوں کو رحمت نہیں چاہئے۔ "
یہ سن کر فرشتوں میں سراسیمگی پھیل گئی ہو گی۔ وہ خوف سے لرزتے ہوئے عرش کی طرف پرواز کر گئے ہوں گے۔