8 March
8 مارچ
" بالکل بالکل سب تیاری ہو گئی ہے۔"
اس سال تو میں نے تین ایسی مظلوم عورتیں ڈھونڈی ہیں کہ بس نہ پوچھو،میڈیا تو پاگل ہو جائے گا ان کی کہانی سن کر۔ بس تم اسٹیج پر لائٹنگ اور ساونڈ وغیرہ دیکھ لینا۔"مسزقاصی کا ایک ہاتھ ان کی بیوٹیشن کے ہاتھ میں تھا اور دوسرا فون تھامے کان سے لگا تھا"ہاں ہاں اتنا بڑا ایونٹ ہے تیاری بھی شاندار ہوگی۔ لاسٹ ایر میک اپ فیڈ ہو گیا تھا میرامگر اس سال دیکھنا، بہترین پارلر سے کرآوں گی۔ 12 گھنٹے کی لاسٹنگ والا میک اپ۔ آخر8 مارچ ہے۔ ویمن ڈے ہے۔ بھئی اپنا ہمارا دن ہے۔"
ایک خوبصورت سا قہقہہ ان کے حلق سے ابل پڑا۔ پیچھے کھڑی جمیلہ نے اپنے گرتے وجود کو سنبھالنے کے لئے صوفے کا سہارا لیا۔ شدید نقاہت اور کمزوری سے اس کو چکر آ رہے تھے۔"وہ۔ باجی۔ میں۔"فون بند ہوتے دیکھ کر اس نے ہمت کر کے آواز نکالی تو مسز کاظمی کا دھیان اس کی طرف گیا۔ زرد آنکھیں، سیاہ پڑتی رنگت اور سفید سوکھے ہونٹ عجیب کوفت ہونے لگی تھی۔
"باجی میں۔ میری طبعیت ٹھیک نہیں۔"
مالکن کے چہرے کی ناگواری نے جمیلہ کا رہا سہا حو صلہ بھی چھین لیا تھا۔"ارے تو کیوں ہر سال یہ مٹکا بڑھا لیتی ہو"؟مسز کاظمی نے اس کے بڑھے ہوئے پیٹ کی طرف اشارہ کیا۔"حد ہے ویسےکوئی اور کام نہیں ہے تمہارے میاں کو؟"جمیلہ شرمندہ ہو گئی۔" کچھ پیسے۔"جمیلہ کی زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی مگر کیفیت بتا رہی تھی کہ آج رات ہی اسپتال جانا پڑ جائے گا۔"
بس پیسے دیتے رہو تم لوگوں کو۔ ارے گنجائش نہیں ہے تو کیوں آبادی بڑھا رہے، ہوہر سال ایک بچہ پیدا کرنا فرض ہے تم لوگوں پر؟ "وہ بڑ بڑ کرتی پرس ڈھونڈ رہی تھیں۔"یہ لو۔"چند سوکے نوٹ انھوں نے جمیلہ کی طرف اچھالے۔"اور لمبی چھٹی مت کر لینا۔ کوئی بہانہ نہیں سنوں گی میں۔
"جمیلہ نے بدقت جھک کر نوٹ اٹھائے سلام کیا اور اپنا شرمندہ وجود لے کر کمرے سے نکل گئی۔
٭٭٭٭
"ہماری لیڈر خود ایک عورت تھیں اور عورتوں کا درد سمجھ سکتی تھیں۔ ہم ان کے مشن کو آگے لے کر جائیں گے۔"پنڈال تالیوں سے گونج اٹھا۔"ہم نے غریب خواتین کے لئے ایک فنڈ قائم کیا ہے۔ اس فنڈ سے ہر ماہ غریب خواتین کو اتنے پیسے دئے جائیں گے تاکہ ہماری مائیں، بہنیں عزت سے اپنے گھر میں بیٹھ کر دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔"جلسے میں موجود تمام خواتین میں جوش کی لہر دوڑ گئی۔ تالیوں کا شور آسمان کو چھونے لگا۔ مقررہ نے فخر سے جلسے پر ایک نگاہ ڈالی اور داد طلب نظروں سے اپنے رفقا کو دیکھا۔
"لاؤ جلدی جلدی سب اپنے اپنے شناختی کارڈ کی کاپی دو۔"
مجید پارٹی کا سرگرم کارکن تھا اور آج بھی وہ بڑی تندہی سے کام کر رہا تھا۔
"اے بھیا! تُو نے پچھلی بار بھی کم پیسے لا کر دیے تھے۔ جلسے میں تو زیادہ رقم کا اعلان ہوا تھا۔"خالہ کلثوم نے مجید سے کہا۔
"ارے خالہ جلسے والی باجی نے اپنا حصہ شامل کر کے اعلان کیا تھا۔"مجید چڑ کر بولا۔
"اگر تمہیں نہیں چاہئے تو رہنے دو۔ یہ لو اپنا شناختی کارڈ۔"
"اے نہیں۔ میں تو ایسے ہی پو چھ رہی تھی۔ تُو ٹھیک کہہ رہا ہے۔ جلسے والی باجی کا حصہ بھی تو نکالا جائے گا۔"
٭٭٭٭
" ہمارا اولین فرض آپ لوگو کا تحفظ ہے۔ قانون کی نظر میں ہر ایک برابر ہے۔"
پولیس کی وردی میں ثمینہ کی شخصیت بہت بارعب لگ رہی تھی۔ پریس کانفریس میں موجود ہر شخص متاثر نظر آ رہا تھا۔
"اور ایک عورت ہونے کے ناطے میں خواتین کے مسائل کو سمجھ سکتی ہوں۔ میرا اولین مقصد خواتین کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ ہر ماں ،ہر بہن اور ہر بیٹی کی عزت میری اپنی عزت ہے۔"
حاضرین نے تالیاں بجا کرداد دی۔ کانفرنس کے بعد چائے کا دور چلا۔ سب شاد ہو گئے۔
"میڈم یہ لیں۔"
اسسٹنٹ نے گاڑی میں بیٹھتے ہی فون ثمینہ کی طرف بڑھا دیا۔
"جی سرکار۔"
بڑے آدمی کا فون ہو تو افسر کا لہجہ بھی مودب ہو جاتا ہے۔
"جی جی میں سمجھتی ہوں۔آپ فکر نہ کریں۔ چھوٹے سرکار پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ اس لڑکی کو تو میں غائب ہی کر دوں گی۔بچے ہیں کھیل تماشہ لگا کر رکھتے ہیں۔ یہ چھوٹے گھروں کی لڑکیاں ہمارے بچوں کو بہکاتی ہیں۔ پھر روتی پھرتی ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہو ئی ہے۔"
٭٭٭
عورت مارچ زندہ باد
عورت راج پائندہ باد