Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Nimra Bilal/
  4. Postpartum Depression

Postpartum Depression

پوسٹ پارٹم ڈپریشن

بچوں کی پیدائش جہاں خاندان بھر کے لیے خوشی کا پیغام لاتی ہے وہیں گھر میں پہلی اولاد کی آمد ماں، باپ دونوں ہی کے لیے باعثِ فخر اور مسرت ہوتی ہے۔ لیکن کیا کبھی آپ نے سنا ہے کہ بچے کی پیدائش پر ماں باپ بیزار، چڑچڑے پن، اور ذہنی تناؤ کا شکار نظر آئے؟

جی ہاں، دراصل ایک ذہنی عارضہ ہے جس کو میڈیکل کی اصطلاح میں پوسٹ پارٹم ڈپریشن کہتے ہیں جس کا شکار مرد اور خواتین دونوں ہو سکتے ہیں مگر اس کا زیادہ تر شکار نئی ماں بننے والی خواتین ہوتی ہیں۔ اس عارضے میں ماں اپنے بچے کی ننھی شرارتوں سے محظوظ ہونے کے بجائے وہ افسردہ، بے زار اور بےچین رہنے لگتی ہے، وہ خوش رہنے کی بہت کوشش کرتی ہے مگر ہر کوشش بے سود ثابت ہوتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق 70 سے 80 فیصد نئی ماؤں کو بچے کی پیدائش کے بعد بے بی بلیوز کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں عام طور پر موڈ میں تبدیلی، رونے کا شوق، اور اداسی شامل ہوتی ہے، بے بی بلیوز عام طور پر ڈیلیوری کے دو سے تین دن کے اندر شروع ہو جاتی ہے اور زیادہ سے زیادہ دو ہفتوں تک ہو سکتی ہے، اگر علامات شدید اور دو ہفتوں سے طویل ہو جائیں تو اسے پوسٹ پارٹم ڈپریشن کہتے ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزئشن کے مطابق دنیا بھر میں 13 فیصد خواتیں اس سے متاثر ہوتی ہیں اور ترقی پذیر ممالک میں اس کی شرح 20 فیصد ہے۔ یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے مطابق پاکستان میں اس کی شرح 28 فیصد ہے۔

اس کی علامات میں زیادہ تر اداسی، بے چینی، بے تحاشا تھکاوٹ، موڈ کا بدلنا، رونے کے دورے پڑنا، بلاوجہ الجھنا، نیند کی بے ترتیبی اور چڑچڑاپن شامل ہے۔ اس مرض میں ماں اپنے بچے کے لیے انسیت محسوس نہیں کرتی۔ بچے کی پیدائش کے بعد آنے والی ذمہ داریوں کے لیے بعض دفعہ مائیں خود کو تیار نہیں کر پاتیں اور ایک عجیب احساس میں مبتلا ہو جاتی ہیں کہ جیسے وہ ایک اچھی ماں نہیں ہیں یا نہیں بن سکتیں، بچے کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ اسے مزید تھکا دیتا ہے اور نیند نہ پوری ہونے کی وجہ سے طبیعت بوجھل رہنے لگتی ہے۔

پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں ڈیلیوری کے بعد ہارمونز جیسے کہ ایسٹروجن اور پروجسٹرون کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے بھی موڈ میں تبدیلی واقعہ ہوتی ہے۔ سماجی وجوہات بھی اس بیماری کا مؤجب بن سکتی ہیں جیسے شوہر کی توجہ نہ ملنا، حمل کے دوران خیال نہ رکھا جانا، سسرال والوں کا برا سلوک بھی اس بیماری کی وجہ بن سکتا ہے یا پھر وہ خواتین جن کو پہلے بھی انگزائٹی یا ڈیپریشن کا مسئلہ رہا ہو ان میں اس کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔

اس کے علاج کے لیے دو طریقے تجویز کیے جاتے ہیں۔ طریقہ علاج مرض کی نوعیت پر منحصر ہے۔ سائیکوتھراپی، اس میں بات چیت کے ذریعے مریض کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ دوسرے طریقہ علاج میں اینٹی ڈیپریسینٹ ادویات دی جاتی ہیں جو مریض کو پرسکون کر دیتی ہیں مگر اس کے علاج سے زیادہ ضروری اس کی روک تھام ہے۔

ہمارے ہاں ڈاکٹر بھی ان مسائل کے بارے میں نئی ماؤں کو آگاہ نہیں کرتے اس وجہ سے خواتین بھی اس پر بات کرنے سے کتراتی ہیں کہ ان کے بارے عجیب و غریب خیالات کا اظہار نہ کیا جائے جیسے کہ وہ ناشکری ہے، انھیں بچے کی پیدائش کی خوشی نہیں ہوئی یا پھر انھیں پاگل ہی نہ قرار دے دیا جائے۔ لہٰذا اس پر بات کرنا اہم ہے اور اس کے بارے میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔

گھر والوں کو اس حوالے سے بچے کے ساتھ ساتھ ماں کا خیال رکھنے اور اس پر توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے۔ کیونکہ ماں کے ذہنی مسائل کا اثر براہ راست اس کے بچے کی ذہنی اور جسمانی نشونما پر ہوتا ہے اس لیے ماں کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت کا بھی خیال رکھا جائے اور اس مشکل وقت میں اسے اکیلا نہ چھوڑا جائے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مسائل کا بات چیت کے ذریعے حل تلاش کیا جائے والدین کو چاہیے کہ بچے کی ذمہ داریاں مل جل کر نبھائیں تاکہ صرف ماں پر بچے کا بوجھ نہ ہو وہ اپنے لیے بھی وقت نکال سکے، اور یہ نہ سوچے کہ بچے کے بعد اس کی زندگی کبھی پہلے جیسی نہیں ہوگی، شوہر کو چاہیے کہ بیوی کو وقت دے، اس کے ساتھ بات چیت کرے تاکہ وہ خود کو تنہا محسوس نہ کرے۔

ایک اور اہم نکتہ ماں کا پڑھا لکھا اور باشعور ہونا ہے، اگر ماں یا ساس پڑھی لکھی باشعور ہوگی تو مرض کی تشخیص میں آسانی ہوگی وہ جلد از جلد ڈاکٹر سے رابطہ کرے گی ایسی حالت کو اکثر جادو ٹونوں اور آسیب کا نام دے کر خواتین کو پیروں، فقروں کے پاس لے جایا جاتا ہے جوکہ مرض کی شدت کو مزید بڑھا دیتے ہیں، اس لیے ماں کا پڑھا لکھا ہونا انتہائی ضروری ہے تاکہ ایسے امراض کی بروقت تشخیص ممکن ہو سکے اور بچوں کی قیمتی جانوں کو بچایا جا سکے۔

Check Also

Jimmy Carr

By Mubashir Ali Zaidi