Khwabon Ke Mahal
خوابوں کے محل
بیٹی خدا کی نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ جب خوش ہوتے ہیں تو بیٹی عطا کر تے ہیں۔ وہ عورت خوش نصیب ہے جس کی پہلی اولاد بیٹی ہو۔ زمانہ جا ہلیت میں بیٹیوں کو زندہ گاڑھ دیا جا تا تھا۔ اسلام نے ہی عورت کو اس کے بنیادی حقوق دیے ہیں۔ بیٹی کو صرف زمین میں گاڑنا ہی اس کومار دینا نہیں ہے بلکہ اس کی صحیح پرورش نہ کرنا بھی اس کو مار دینے کے مترادف ہے۔ ہمیں اپنی بیٹیوں کی فکری استعداد کو بہتر بنانا ہے۔ ہمیں ان کی سوچ کو بہتر بنانا ہے۔ ہم اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم تو دلواتے ہیں مگر عملی زندگی کے لیے ضروری تربیت نہیں کرتے۔
یہ دنیا عمل کی جگہ ہے اس میں اپنے آپ کو منوانے کے لیے اور اپنی پہچان بنانے کے لیے عملی طور پر میدان میں آ نا پڑتا ہے۔ عمل تب ہی صیح اور کارگر ہو گا جب سوچنے کی سمت ٹھیک ہو گی۔ ایک عورت صرف اکیلی ذات نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ ایک پورا خاندان جڑا ہوتا ہے۔ نسلوں کا بگاڑ یا سنوار عورت پر ہی منحصر ہے۔ شادی ہمارے معاشرے کا اک اہم ستون ہے لیکن اس کے لیے بنیادی اور ضروری تربیت کا شدید فقدان ہے۔
والدین صرف اپنا فرض پورا کرتے ہیں جبکہ اسی فرض کے ساتھ کچھ سنتیں بھی ہیں جن کا پورا کرنا بہت ہی ضروری ہے، والدین بیٹیوں کو مستقبل میں آنے والی مشکلات کی تربیت دیے بنا ہی رخصت کر دیتے ہیں۔ جب وہ عملی طور پر ان کا سامنا کرتی ہیں تو مناسب تربیت نہ ہونے کی وجہ سے جذباتی پن سے کام لیتی ہیں اور والدین، سسرال اور اپنے لیے نا ختم ہونے والی اذیتیں پال لیتی ہیں۔
مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس میں یہ رواج ہے کہ بیٹیوں کو پہلے دن سے ہی بتایا جا تا ہے کہ وہ اگلے گھر جائیں گی۔ ہر بات میں ٹوکا جاتا ہے ارے اگلے گھر جا کر یہ کیا تو ساس کی جلی کٹی باتیں سننی پڑیں گی، اس جیسے جملے روز کانوں مں ڈالے جاتے ہیں۔ مطلب ساس کا تصور ہی منفی دیا جاتا ہے۔ جو سرا سر غلط ہے۔
لڑکیا ں بھی انسان ہوتیں ہیں ان کی بھی خواہشیں ہو تی ہیں۔ وہ بھی اس معاشرے میں لڑکوں کی طرح جینا چاہتی ہیں، فیصلے کرنا چاہتی ہیں جو کہ عین فطری بات ہے۔ وہ بھی چاہتیں ہیں کہ باہر کی دنیا دیکھیں۔
اگر جوان بیٹیاں کہیں چلنے کا کہیں تو ماں باپ ٹوک کر کہہ دیتے ہیں کہ اپنے شوہر کے ساتھ جہاں دل کرے چلی جا نا ابھی وقت نہی، میک اپ کر نے لگو تو کہتے ہیں جب وقت آئے گا تب کر لینا، بھئی وقت کب آنا ہے۔ کسی خاص کپڑے کی فرمائش کردی تو کہنا کہ اپنے میا ں سے کہنا وہ بنوا دے گا۔ اسی طرح کسی خاص کھانے تک کی فرمائش کو میاں کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔
لڑکیاں اپنی تمام آرزوں کو شادی سے جوڑ دیتی ہیں اور شادی کے بعد کی زندگی کے طلسم میں کھو جاتی ہیں۔ شب و روز وہ اپنی شادی کے خواب دیکھنے لگتیں ہیں کیوں کہ انھیں یہ لگتا ہے کہ شادی کے بعد وہ اپنی پسند اور خواہش کے مطابق جی سکےں گی۔ وہ جہاں چاہیں جا سکیں گی۔ وہ جو چا ہیں پہن سکیں گی۔
کیا ماں باپ کا بیٹی کی تربیت کا یہ طریقہ ٹھیک ہے؟ کتنے فیصد لڑکیاں وہ زندگی جیتی ہیں جو وہ اپنے تصور میں سوچتی ہیں بہت کم تعداد ہے۔ زندگی تصورات کے سہارے نہیں جی جا سکتی، سسرال کیسا ہو گا کون نہی جانتا، شوہر کیسا ہوگا کسے پتا، کون جانے وہ اس کا کتنا ہم خیال ہوگا، لڑکی کی خواہشات اس کے لیے کتنی اہمیت رکھتی ہیں کوئی نہیں بتا سکتا۔ کبھی کبھی وہ چاہ کر بھی اپنی بیوی کی خواہش کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا۔ اس کی اپنی مجبوریاں بھی ہو سکتیں۔
عمومی طور پر شادی کے بعد پندرہ سولہ برس میں تعمیر کردہ طلسمات کا یہ محل ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔ سوچو تو کتنا مشکل ہے اس محل کے سنگ ریزوں کو سمیٹنا، کتنی چبھن ہو تی ہے ان کرچیوں کی اور یہی چبھن میاں بیوی کے رشتے میں جھلکنے لگتی ہے۔ رشتہ صرف نبھانے کی حد تک رہ جاتا ہے محبت اور الفت تو نام کی نہیں رہتی جھگڑے اور فساد ہوتے ہیں۔
ماں باپ کو چاہیے کہ بیٹی کو ضرور بتائیں کہ اس نے اگلے گھر جانا ہے۔ مگر سلیقے سے ماں اپنے عمل سے بتائے کہ گھر کیسے چلانا ہے، خاندان کو جوڑ کر کیسے رکھناہے۔ اسے سسرال سے ڈرانے کے بجائے بتائے کہ وہ اس کا اپناگھر ہے۔ گھر ہمیشہ اپنا ہو تا ہے اپنا سمجھ کر رہے گی تو اچھا لگے گا۔
ماں باپ کو چا ہیے کہ حتی المقدور حد تک بچیوں کی فرمائش کو پورا کیا کریں۔ ان کو ساتھ لے کر باہر نکلا کریں۔ ان کو بھی دنیا کے رنگ دیکھائیں۔ وہ جو کھا نا یا پہنناچاہتی ہیں جائز حد تک ا ن کو اجازت دیں۔ انھیں بے پنا ہ محبت دیں انھیں فیصلہ سازی میں شامل کریں اس سے ان میں اعتماد آئے گا۔
اپنی بیٹیوں کو بتائیں کہ شوہر بھی انسان ہیں۔ اس کی بھی کئی مجبوریاں ہو سکتی ہیں، معاشی، معاشرتی یا خاندانی، وہ کوئی راجکمار نہیں جسے کوئی مسئلہ یا غم نہ ہو۔ شوہر بھی عام انسان ہے وہ بھی تمہاری طرح ہی دکھ اور سکھ محسوس کرتا ہے۔ اسے بھی چیزیں اچھی اور بری لگتی ہیں۔ اس طرح وہ جان جائیں گی کہ تصورات کے محل نہیں بنانے اور اس طرح اس کے مزاج میں ٹہراو آ جائے گا، والدین کے گھر وہ پہلے ہی کسی حد تک اپنی پسند کی زندگی جی چکی ہوں گی۔
سسرال میں وہ کچھ جس کے وہ خواب دیکھتی تھیں نہ ملنے پر بھی وہ غمزدہ نہیں ہوتیں۔ وہ جان جاتی ہیں کہ اُونچ نیچ زندگی کا حصہ ہے۔ ہمیں اپنی بیٹیوں کی پسند نا پسند کو شریعت کے تابع لانا ہوگا۔ تاکہ وہ ہم سے کچھ ایسا نہ مانگیں جو ہمیں دینے میں دشواری ہو۔
ماں باپ کا فرض ہے کہ شادی سے پہلے بیٹے اور بیٹی کی تربیت کریں۔ ان کو بتایا جائے کہ اب تم لوگ الگ نہیں بلکہ ایک اکائی ہو۔ میاں اور بیوی کا سکھ دکھ سانجھا ہے۔ دونوں کے ماں باپ بھی الگ الگ نہیں ہیں۔ ساس کا تصور دینے کے بجائے ماں کاتصور دیا جائے۔ ان سب چیزوں پہ عمل کرنے کے لئے بڑوں کو بھی اپنا بڑا پن دکھانا ہو گا ورنہ یہ معاشرہ فسادات کا شکار ہی رہے گا۔