Ik Baat Kehni Hai
اک بات کہنی ہے
فیس بک پہ بہت سے لوگ غریبوں کی مدد کرنے کے لیے پیسے مانگتے رہتے ہیں۔ چاہے وہ مدد راشن کی صورت میں ہو، کوئی مالی مدد، کسی غریب کی شادی کی صورت میں یا کچھ اور۔۔
ان میں سے کچھ لوگ تو واقعی ایمان داری سے غریبوں کی مدد کرتے ہیں جبکہ باقی ایسا کرتے ہیں کہ چار پیسے لے کر ایک پیسے کی مدد کریں اور تین پیسے جیب میں ڈال لیں۔
اب اچھے اور ایمان دار لوگوں کو چاہیے کہ اپنے اوپر عوامی اعتماد بحال رکھنے کے لیے ایک سادہ سا کلیہ اپنا لیں۔ ہر ماہ ایک رپورٹ پیش کر دیا کریں جس کے دو حصے ہوں پہلے میں بتایا جائے کہ اس ماہ فلاں فلاں نے مجھے اتنی اتنی رقم بھیجی۔
اس طرح عام عوام کو پتا چل جائے گا کہ آپ کے پاس ٹوٹل کتنی رقم اکٹھی ہو رہی ہے اور آپ کے پراجیکٹ اتنی رقم والے ہیں بھی یا نہیں اور جس جس نے رقم بھیجی ہوگی وہ بھی دیکھ لیں گے کہ لسٹ میں ان کا نام موجود ہے یا نہیں۔
دوسرے حصے میں بتا دیا جائے کہ یہ رقم کہاں لگی۔ اس میں لکھا ہو کہ اس ماہ فلاں فلاں کی اتنی اتنی مدد کی گئی یا اتنے پیسوں سے یہ یہ کام کیا گیا۔ جن کی مدد کی گئی ہے، ان کی شناخت چھپانا ضروری ہو تو ان کا پورا نام لکھنے کے بجائے، صرف پہلا نام لکھ دیں۔
جیسے نوید لکھ دیں تو کوئی نہیں جان پائے گا کہ کس نوید کی بات ہو رہی ہے لیکن کبھی کوئی تحقیق کرنا چاہے گا کہ اس کے پیسے ٹھیک جگہ پہ لگ رہے ہیں یا نہیں تو وہ آپ سے نوید یا کسی بھی اور نام والے کی تفصیلات لے کر اس سے پتا کر لے گا کہ آپ کو فلاں ماہ اتنی امدادی رقم یا راشن ملا تھا یا نہیں۔
آپ سب جو غریبوں کی مدد کے لیے اتنی محنت کرتے ہیں، آپ کے لیے مہینے میں ایک دفعہ ایسی تفصیلات پیش کرتے ہوئے تھوڑی سی مزید محنت تو کوئی معنی نہیں رکھتی۔ لیکن اس سے کئی دور رس فوائد حاصل ہو جائیں گے۔
گو کہ اس طرح بھی کچھ فراڈیے لوگوں کے دھوکہ دینے کے امکانات قائم رہیں گے لیکن یہ امکانات کم ضرور ہو جائیں گے اور یہ تفصیلات جاننے کے بعد دیانت داری سے کام کرنے والوں پہ لوگوں کا اعتماد مزید بڑھے گا اور جو ایسا نہیں کریں گے لوگ خود ہی انھیں فراڈیا سمجھ کر ان سے دور ہو جائیں گے۔
دھوکہ اتنا ہے کہ دہائی ہے صاحب، اس لیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ دوسرے آپ پہ اعتماد کریں تو اندھا اعتماد مانگ کر ان کی آزمائش مت کیجیے۔ انھیں اعتماد کرنے کے لیے کوئی ٹھوس پلیٹ فارم تو مہیا کیجیے۔
میں خود سوشل میڈیا کے ذریعے اس طرح کے کام کرنے کے زیادہ حق میں نہیں کیوں کہ آج کے دور میں جب حساب لینے والا کوئی نہ ہو تو دیانت سے کام کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور سوشل میڈیا پہ صرف امداد مانگی جاتی ہے، حساب نہیں دیا جاتا۔
رمضان آتے ہی بہت سے لوگ دوسروں کی بھلائی کے لیے شدومد سے یہ امدادی نیک فریضہ انجام دے رہے ہیں تو ایسے میں سب پہ اعتبار کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے کھرے کھوٹے کو الگ کرنے کے لیے یہ چھوٹی سی تجویز دی گئی ہے۔
کسی دوست کو یہ بات بری لگے تو معذرت!
جو احباب متفق ہیں، ان سے درخواست ہے اس تجویز کو آگے بڑھائیں۔ تاکہ امداد کے نام پہ ہمیں لوٹنے والے ان موسمی مینڈکوں کو روکنے والی کوئی آواز تو اٹھے۔۔