Zard Sahafat Ki Siyahi
ذرد صحافت کی سیاہی
کل ایک پرائیویٹ نیوز چینل دیکھنے کا اتفاق ہوا، بریکنگ نیوز کی پٹی چلی، پھر شور شرابے جیسا میوزک گونجا اور درمیان میں ایک اینکر چیختا ہوا گویا ہوا اور تازہ ترین، سب سے پہلے، سب سے تیز کے قافیوں کے ساتھ خبر سنانے لگا، اسکے بعد ایک اینکر مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور تجزیہ نگاروں کے ساتھ حاضر تھا، سوال در سوال اور بنا کسی دلیل کے دیے جانے والے جذباتی جواب اور دوسروں پر الزامات کا سلسلہ ان سب نے مل کر جاری رکھا اور لایعنی سے گفتگو کے بعد بحث و مباحثہ، بلند آواز تکرار اور بھرپور لڑائی والا ماحول بنانے کے بعد جناب اینکر بریک کا کہہ کر منظر سے غائب ہوگئے۔
میرا دھیان سکرین سے بھٹک کر سکول اور کالج میں میڈیا کی اہمیت اور کردار کے بارے میں یاد کی ہوئی سطروں پر جا پہنچا۔ پھر آج کل کے چینل، صحافی، انکے تبصرے، تجزیے، تحریریں سب کو سامنے رکھا تو ایسے معلوم ہوا کہ کتابوں کھوٹی تھی شاید، شاید سب جھوٹ لکھا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کھوٹے تو آج کل کے صحافی ہیں اور جھوٹ تو اب لکھا جاتا ہے، بیچا جاتا ہے۔
پاکستان کا میڈیا ریاست کا وہ ستون بن چکا ہے جو بجائے سہارے دینے کے ریاست کو تباہ کرنے پہ تلا ہے۔ خبر رسانی، بروقت رپورٹنگ، تجزیے اور تبصرے ہر کام ہی صحافت کی اصل سے ہٹ کر ریٹنگ، شہرت اور پیسے کے گرد گھوم رہا ہے۔ عوام کو حکومت کی کارکردگی دکھا کر خوش کرنا ہے یا اپوزیشن کی تنقیدیں اور الزامات سنا کر نالاں سب کا سب میڈیا کے ہاتھ میں ہے۔ تجزیوں اور تبصروں میں مہنگائی کی اصل وجہ بیان کرنی ہے یا مہنگائی بم اور غریب دشمن کا رونا ڈال کر رخ پلٹا ہے۔
بات صرف نیوز چینلز اور سیاست تک محدود نہیں، انٹرٹینمنٹ چینلز پر دکھانے جانے والے ڈرامے بھی معاشرے پر یکساں اثرانداز ہوتے ہیں۔ ڈراموں میں دکھانے جانے والے لباس، طور طریقے، طرزِ زندگی ہر شے کو ناظرین خاص طور سے صنف نازک آئیڈیلائز کرتی ہے اور اسطرح بےحیائی سکرین سے نکل کر معاشرے میں پھیل جاتی ہے۔ گویا میڈیا کے ذریعے اخلاقی تربیت والا جو فائدہ سکول میں یاد کیا تھا وہ شاذو نارد ہی نظر آتا ہے بیشتر تو معاملہ الٹ ہی ہے۔
خیر بنیادی طور پر بات خبر رساں میڈیا کی ہو رہی تھی۔ گو بہت سے لوگ غیر جانبدار ہوکر حقائق و دلائل پیش کرتے ہیں اور بے باک تجزیے اور تبصرے کرتے اور لکھتے ہیں مگر بہت سوں کا حساب پیسہ پھینک تماشہ دیکھ والا ہے ۔ ایسے لوگ اپنے تجزیوں اور تحریروں سے صحافی کم اور سیاسی جماعتوں کے ترجمان زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔
جس طرح مغرب ہمیشہ اپنے کالے کرتوتوں کو آزادی اظہار رائے کا لبادہ اوڑھاتا ہے ویسے ہی یہ صحافی طبقہ آزادی صحافت کے نعرے کو استعمال کرتا ہے۔ ایسا کونسا تماشہ ہے جواس نعرے تلے نہیں ہوا۔ صحافت کے مقصد حقائق کو عوام کو سامنے رکھنا ہے، اصل خبر دینا ہے، تصویر کے دونوں رخ دکھانا ہے، غیر جانبدار تجزیے پیش کرنا اور سچ کا ساتھ دینا ہے مگر ہمارے ہاں تو صحافی اس بات پر سراپا احتجاج رہے کہ جھوٹی خبر دینے پر جرمانہ عائد کردیا گیا اور میڈیا کیلئے اصول و ضوابط کی طے کر دیے گئے۔
یہ لوگ ایک طرف تو سوال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور دوسری جانب جب ان سے سوال کیا جائے تو ہراساں کیے جانے کا ڈھول پیٹتے ہیں۔ ان نام نہاد صحافیوں کی سیاسی وابستگیاں اور ہمدردیاں ان کا ذاتی معاملہ ہے مگر کسی بھی معزز انسان کی ذاتی زندگی پر بلا تحقیق کچھ بھی لکھنا، کہنا، چھاپنا ان کا حق ہے۔
اس پیشے کی سے وابستہ خواتین ایسی معتبر ہستیاں ہیں کہ کوئی ان پر حق بجانب ہوتے ہوئے بھی انگلی اٹھائے تو نہ صرف میڈیا کے زرد چہرے بلکہ فیمنزم کے تمام علمبردار بھی سرگرم ہو جاتے ہیں مگر جب یہی خواتین شہرت حاصل کرنے کی خاطر کسی معزز خاتون پر الزامات لگاتیں ہیں یا اپنے شو کی ریٹنگ کیلئے کسی مظلوم بے بس عورت تشہیر کر کے رہی سہی عزت کا بھی جنازہ نکال دیتی ہیں تو سب خاموش رہتے ہیں۔
انیسویں صدی میں یلیو جرنلزم یا زرد صحافت کی اصلاح متعارف ہوئی۔ حقیقت کو چھپانا، کسی مقصد یا لالچ میں کسی جھوٹی بات کو خبر بناکر پیش کرنا اس اصلاح کے تحت آیا۔
مگر مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے گویا پاکستان میں بات اس سے بھی آگے بڑھ چکی ہے اور صحافت زرد کی بجائے سیاہ ہوچکے ہیں۔ اصلاح بھلے ذرد صحافت کی استعمال ہوتی ہے مگر معذرت لے ساتھ کردار سبھی سیاہ ہیں، انکے ہاتھوں سے روشنائی سے لکھے الفاظ بھی محض سیاہی اور اندھیر ہی پھیلا سکتے ہیں۔