Hajj Muhasbe Ka Zariya
حج محاسبے کا ذریعہ
حج اسلام کا پانچواں رکن ہی نہیں بلکہ ایک جامع عبادت اور اپنا ایمان پرکھنے کا ایک پیمانہ بھی ہے۔ حج کی ایک چیک لسٹ ساز وسامان اور تیاری کی ہوتی ہے جو حجاج کرام حج روانگی سے پہلے چیک کرتے ہیں،۔ حج کی ایک چیک لسٹ اور بھی ہے جس کے زریعے سے ہم اپنے ایمان کا محاسبہ کر سکتے ہیں، یہ چیک لسٹ سب کیلئے ہے خواہ حجاج کرام ہوں یا گھروں میں بیٹھے ہوئے مسلمان۔
حج کا سب سے پہلا کام احرام باندھنا ہے جوکہ برابری اور سادگی کی علامت ہے، اس سے ہمیں یہ چیک کرنا ہے کیا ہماری زندگیوں میں سادگی ہے؟ ہم لوگوں کو انکی دولت اور شہرت کے اعتبار سے رتبہ دیتے ہیں یا اسلام کے مطابق اسکے تقوی اور کردار کی پرکھ پر۔
حاجیوں کے اس لباس احرام کو باندھنے کا مقام میقات ہے، میقات گزر جائے تو واپس پلٹ کر وہیں سے احرام باندھا جاتا ہے بصورت دیگر حج ہی نہیں ہوتا۔ یہ ہمیں سبق دیتا ہے کی کچھ کوتاہیوں کو فوراً سدھار لینا چاہیے ورنہ بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ لہذا ہمیں اپنی چیک لسٹ میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم غلطی یا گناہ سرزد ہونے کے بعد فوراً توبہ اور اصلاح کرتے ہیں یا حالات کو مزید بگڑنے کیلئے چھوڑ دیتے ہیں!
پھر مکہ میں داخل ہوکر سب سے پہلے طوافِ زیارت کرتے ہیں کوئی شاپنگ، سیر و سیاحت نہیں جو اس بات کا اظہار ہے کہ اے رب عظیم آپ کے شہر میں آکر سب سے پہلے آپ گھر آئے ہیں یعنی اللہ اور اسکے دین کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔ ہمیں اپنی چیک لسٹ میں یہ دیکھنے کہ ضرورت ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ اور اسکے دین کو اپنی زندگی میں کہاں رکھا ہوا ہے ہماری ذاتی مصروفیات پہلے ہیں یا دینی فرائض؟
اسی طرح حج کے طواف کے سات چکر، ان میں رمل کرنا، حجر اسود کو بوسہ دینا، رکن یمانی کو چھونا سب کے پیچھے کوئی منطق نہیں بلکہ مسلمان یہ سب اس لیے کرتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح حج ادا فرمایا یعنی سنت رسول ﷺ کی پیروی۔ ہمیں اس بات کے محاسبے کی ضرورت ہے ہم کہاں تک سنت رسول ﷺ پر عمل پیرا ہیں! ہم زیادہ ثواب کمانے کے چکر میں کیا حرج ہے کہہ کر سنت سے ہٹ کر بدعت پر تو عمل کرنے لگتے؟
اسی طرح صفا مروہ کی سعی ایک عظیم عورت بی بی حاجرہؑ کی سنت ہے، جسکی پیروی میں حجاج کرام سعی کرتے ہیں۔ چیک لسٹ میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم صرف صفا مروہ کے درمیان ہی حضرت حاجرہؑ کی پیروی کرتے ہیں یا بچوں کی تربیت میں بھی؟ کیا ہم آج اپنی نسلوں کو ایسے تربیت دے رہے ہیں کہ وقت پڑنے پر خود کو خوشی سے قربان کرنے پر آمادہ ہوجائیں؟ کیا آج کی مائیں اسماعیل جیسے بچے پروان چڑھا رہی ہیں؟
اسکے بعد رمی جمرات بھی ایک اہم رکن ہے جو کہ ابراہیمؑ کی سنت پر ہے، جن مقامات پر شیطان نے انکو اسماعیلؑ کے ذبح کرنے سے روکنے کیلئے وسوسے ڈالے اور ابراہیم نے کنکر مار کر شیطان کو بھگایا آج تک ان تین مقامات پر تمام حجاج رمی جمار کرتے ہیں۔ اس سے ہمیں اپنی لسٹ میں یہ چیک کرنے کی ضرورت ہے کہ جب شیطان ہمارے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے، ہمیں نیکی سے اور اللہ کی اطاعت سے روکتا ہے تو ہم شیطان کو دھتکارتے ہیں یا اسکی مان لیتے ہیں؟
اسی طرح قربانی کا جانور ذبح کرنے سے ہمیں اپنی لسٹ میں یہ دیکھنا چاہیے ہم اللہ کی خاطر کیا قربان کر سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنی محبوب ترین شے اللہ کو دے سکتے ہیں؟
اللہ اکبر کی تکبیرات بلند کرتے ہوئے ہمیں یہ پرکھنا ہے کہ کیا ہم نے سچ میں اللہ تعالیٰ کو سب سے بڑا جانا ہے یا پھر ہمارے رشتے، ہمارے دوست احباب، ہماری دنیا داری، ہمارا مال بڑا ہے؟ کہیں ہم اپنے نفس کی بڑی بڑی خواہشات کی خاطر اللہ تعالیٰ کے حکم جو چھوٹا تو نہیں کر دیتے؟
غرض یہ کہ حج کا ہر ہر کام ہمیں محاسبے کا نکتہ دیتا ہے، عام حالات میں اور حتیٰ کی جنگ میں بھی نماز سے رخصت نہیں لیکن حج میں نمازیں قصر کرکے اور جمع کرکے ادا کی جاتی ہیں جو کہ بتاتی ہیں اسلام میں اہمیت چند جسمانی اعضا کو حرکت دینے کی نہیں بلکہ اللہ کے حکم کے آگے سر جھکانے کی ہے۔
جس طرح ایک حاجی مناسک حج کی ادائیگی میں خود کو تھکا لیتا ہے، مال خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ جسمانی توانائی اور وقت بھی لگاتا ہے تو کیا ہم اللہ تعالیٰ کے کاموں کیلئے اپنا وقت، مال، اپنی قوتیں صرف کرتے ہیں!
گویا حج پورا ایک تربیتی سیشن اور اپنے محاسبے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اگر ہم فرائض و واجبات کو صرف ظاہری طور پر ادا کرنے کی بجائے انکی روح تک جائیں تو نہ صرف ہر حج حج مبرور (نیکیوں سے بھرا ہوا) ہوگا بلکہ ایک مومن کی ساری زندگی ہی مبرور ہوگی۔