Artificial Intelligence Ka Inqilab
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا انقلاب
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 15000 سے زائد انجینئرز فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ سسٹم سالانہ تقریباً 33000 ڈاکٹرز پیدا کر رہا ہے۔ کچھ یہی حال وکلاء کا بھی ہے۔ طلب کو دیکھا جائے تو یہ رسد بہت کم ہے۔ مسلسل بڑھتی آبادی اور عالمی ادارہ صحت کے میعار یعنی ایک ہزار افراد کے لیے ایک ڈاکٹر وغیرہ کو مدنظر رکھا جائے تو اس سے دگنی تعداد میں بھی یہ پروفیشنلز تیار ہوں تب بھی اگلے دس سال تک ان کی کھپت ہوتی رہے گی۔ لیکن پھر پیدا ہوگا وہ "ببل" جس کی جانب میں نے پچھلی تحریر میں اشارہ کیا۔
ہمارے ہاں بچہ پیدا بعد میں ہوتا ہے والدین اسے ڈاکٹر، وکیل بنانے کا خواب پہلے سوچنے لگتے ہیں۔ سوچنا بھی چاہیے کہ والدین کی حیثیت سے ان کے بھی خواب ہوتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ رجحان تقریباً نوے فی صد والدین پایا جاتا ہے۔ ہمارا روایتی نظام تعلیم بھی اسی کو اسپورٹ کرتا ہے۔ میٹرک ود سائنس کرو، انٹر میں میڈیکل یا انجینئرنگ رکھو، بیچلر کرو یا ایم بی بی ایس، ایل ایل بی۔۔ اور بن جاؤ کامیاب انسان۔۔ نتیجہ؟ عدالتوں کے گرد وسیع ہوتی چیمبرز کی قطاریں، جگہ جگہ کھلتے کلینک، اور ہر ایک ڈیڑھ سال بعد بہتر نوکری کی تلاش میں کاغذات لیے پھرتے انجینئرز۔۔
یہ رجحان اور رسد اگر اسی طرح جاری رہی تو آئندہ دس بارہ سال بعد یہ ببل پھٹے گا۔ اور اس کی بڑی وجہ یقیناً مصنوعی ذہانت ہی ہے۔
آج کل جنریٹو اے آئی کا دور چل رہا ہے۔ یہ دراصل دستیاب ڈیٹا کی مدد سے لفظ سے بہترین لفظ جوڑنے اور کسی بھی مسئلے کے بہترین حل تجویز کرنے کا نام ہے۔ دیکھا جائے تو مذکورہ بالا تینوں شعبہ جات کی بنیاد میں یہی اصول کار فرما ہے۔ شعبہ طب میں تھوڑا مختلف لیکن تان وہیں پر ٹوٹتی ہے کہ موجود ڈیٹا بے شک وہ ٹیرا بائیٹس میں ہو جائے، کی بنیاد پر فیصلہ سازی۔۔
جج صاحبان نے ابھی سے فیصلوں کے لیے اے آئی سے مدد لینا شروع کر دی ہے۔ بڑے بڑے انجنیرنگ پراجیکٹس اور ان کی سیمیولیشن "ٹپ آف دا فنگر" کی مرہون منت ہو چکی ہے۔ ایسے آلات منظر عام پر آ رہے ہیں جو ہمہ وقت آپ کی صحت پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ بروقت متعلقہ ادویات اور غذائیں تجویز کر سکیں۔ سرجری تک کا کام روبوٹ سنبھال چکے ہیں اور ابھی یہ محض ابتداء ہے۔
یہ سچ ہے کہ ہر مشین پر کام کرنے والوں کی ضرورت بہرحال رہتی ہی ہے۔ بالکل ایسے ہی کہ اگر ریڈیو کا دور ختم ہوا تو پاڈکاسٹ اور ایف ایم کا دور آیا۔ اس لیے صداکاروں کی ضرورت تو برقرار ہے لیکن دوسرا رخ یہ کہ ریڈیو سیٹس پر کام کرنے اسے بنانے اور ٹھیک کرنے والوں کی ضرورت نہیں رہی۔
اب گیپ بڑھے گا، یا تو اپنے شعبے کا ماہر اتنا ماہر ہو کہ ہر موضوع پر مکمل گرفت اور سال ہا سال کا تجربہ رکھتا ہو اور اس سے متعلقہ ہر مشین کو چلانا جانتا ہو۔ ریسرچر ہو، یا پھر ہر طرح کی معلومات سے عاری غیر ہنرمند۔۔ درمیان والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ بڑی بیماریوں کے اسپیشلسٹ کی طلب بڑھتی رہے گی۔ لیکن چار پانچ ہزار کیمیائی فارمولوں کے نام رٹ کر مختلف کیفیات کے مطابق انہیں تجویز کرنے والوں، ریاضیاتی فارمولوں کو یاد کرکے کوئی ڈیزائن بنانے والوں یا پھر چالیس پچاس سالہ تاریخ کے قوانین و کیسز کو ذہن نشین کرکے کیسز لڑنے والوں کی اہمیت اگلی ایک دہائی کے بعد گھٹتی چلی جائے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ روبوٹک انجینئرنگ، بایومیڈیکل، جینیٹک انجینئرنگ وغیرہ جیسے شعبہ جات میں ابھی انقلاب آنا باقی ہے۔ لیکن یہ انقلاب اگلے پانچ سات سال میں بپا ہونے والا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ مذکورہ شعبوں یا پیشوں کو بھی بہا لے جائے گا۔ ایک بار روبوٹس، آرٹیفیشل جنرل انٹیلیجنس یعنی اے جی آئی وغیرہ کو میدان سنبھالنے دیں پھر نہ تو سادہ ایم بی بی ایس کیے ڈاکٹرز کی ضرورت رہے گی نہ ایل ایل بی کرکے پریکٹس کا ڈیسک ڈھونڈنے والوں کی نہ ہی انجینئرنگ میں صرف بیچلر کرکے نوکری کی تلاش میں دفتر دفتر ایپلائے کرنے والوں کی۔۔
میں نے تعلیمی نظام میں پیراڈائم شفٹ کی بات کی تھی۔ اس پر لکھوں گا تو تحریر کی طوالت اور بھی بڑھ جائے گی مختصر یہ کہ اب بچوں کو چار چار سال تک زبانوں کے حروف تہجی لکھنا اور پڑھنا سکھانے کا دور جانے والا ہے۔ اسی طرح اعلیٰ تعلیم میں موٹی موٹی کتابوں کو دن رات رٹے لگانے کا وقت بھی بیت چلا۔ جس روز یہ شفٹ عمل میں آئے گا دنیا بھر کا تعلیمی نظام بھی بدل جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی یہ روایتی ڈگریاں بھی جن کا ذکر اس تحریر میں کر رہا ہوں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ متبادل کیا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ اس حوالے سے حتمی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ اس لیے اگر آپ کے بچے میٹرک یا اس سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو ان کو وہ بننے دیں جو یہ بننا چاہتے ہیں یا آپ بنانا چاہتے ہیں۔ اگر ممکن ہو تو آئی ٹی سیکٹر کا ہی چناؤ کریں اور اس میں سرفہرست مشین لرننگ، سائبر سیکیورٹی وغیرہ ہونی چاہیے۔ لیکن اگر بچے پرائمری سے کم سطح پر زیر تعلیم ہیں تو ابھی سے ایسا خواب نہ دیکھیں جو ہمارے "پرکھ" دہائیوں سے دیکھتے آئے ہیں۔ تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو۔۔ بچے سے بات کرتے ہوئے اسے تحقیق کا شوق ڈالیں۔ آنے والے وقت میں یا تو تعلیم میں اوجِ کمال درکار ہوگا یعنی سائنسدان یا ریسرچر بننا یا پھر عمومی تعلیم حاصل کرکے سرکاری و نجی سطح پر مینجمنٹ۔۔ درمیان کا کوئی راستہ نہیں۔
ہیومن-کمپوٹر انٹرایکشن، پالیسی مینجمنٹ اور کئی دیگر نئی ڈگریاں جنم لیں گی جن کے بارے میں فی الحال تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اس طویل تحریر کا لب لباب یہی کہ اگر آپ کے بچے ابھی چھوٹے ہیں تو انہیں روایتی ڈاکٹر، وکیل یا انجینئر بنانے کے خواب نہ دیکھیں۔ انہیں ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونے دیں۔ ریسرچ کی عادت ڈالیں۔ روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت میں لگاؤ پیدا کریں۔ باقی آنے والے وقت پر چھوڑ دیں۔
خوش رہیں خوشیاں بانٹیں۔ اپنا اور اپنوں کا خیال رکھیں۔