Ghair Sanjeeda Ishq
غیر سنجیدہ عشق
سستی و کاہلی، غیر مستقل مزاجی، اور دور رس نتائج کی منصوبہ بندی نہ ہونے کے باوجود ہر پاکستانی کے تین عشق ہیں، جو کبھی نا کبھی اسکی زندگی میں وقوع پذیر ہو سکتے ہیں، اور میاں ہو کر ہی رہتے ہیں۔ جو کبھی کبھار جان لیوا بھی ثابت ہوتے ہیں، اور وہ عشق پاکستان میں موجود تین طرح کے طبقات سے ہوتے ہیں۔ سیاست دان، تاجر، اور مولوی حضرات۔
میں نے اپنی زندگی میں اس بات کو بغور مشاہدے اور پاکستان کی سیاسی و غیر سیاسی تاریخ کے مطالعے سے اخذ کیا ہے اور اس نتیجے تک پہنچے میں کامیاب ہوا ہوں کہ جس شخص کے پاس کچھ زرعی زمین یا کاروبار موجود ہے، اور اسے بیٹھے بٹھائے گھریلو اخراجات میسر ہوں اور محنت کی چنداں ضرورت نہ ہو، تو وہ خدمت خلق کا نعرہ لے کر میدان میں نکل کھڑا ہوگا (جس کا مقصد سراسر اپنی موجودہ دولت میں اضافہ اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کی تگ و دو ہے)۔ کچھ عرصہ نام نہاد خدمات انجام دینے کے بعد وہ اپنی اولاد کے لیے سیاست میں آنے کی راہیں ہموار کرتے ہیں تاکہ جاہل، سست، اور اپنے حقوق و فرائض سے ناآشنا عوام پر اس خاندان کی لازوال حکمرانی قائم و دائم رہ سکے۔ اور پاکستان پر چند مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری قائم رہے۔
دوسرا طبقہ تاجر حضرات کا ہے، جن کی مسلمانی کی تاریخ گواہ ہے، میں اس تحریر میں ہرگز اس بات کا رونا دھونا اور ڈھنڈورا پیٹنا نہیں چاہتا کہ دو سو ممالک میں ایمانداری کی فہرست میں پاکستان کوئی ایک یا ڈیڑھ سو ممالک سے پیچھے ہے، یا ایمانداری میں غیر مسلم ممالک ہم سے آگے ہیں بلا بلا۔۔ میں تو قطعئ اس کو جھوٹ اور پراپیگنڈا مہم کا حصہ سمجھتا ہوں جو مسلمانوں کے خلاف ہے، بس اور بس۔ خیر واپس آتے ہیں اپنی بات پر، تاجر حضرات بھی سیاسی حضرات کی تقلید میں جائز ناجائز طریقوں سے مارکیٹ میں اپنا کاروبار اس طرح سے پھیلاتے ہیں کہ وقت آنے پر اپنی مرضی سے حکومتی اداروں کو بلیک میل کیا جا سکے، اشیاء خوردونوش سٹاک کر کے مہنگے داموں بیچیں اور اپنی آنے والی نسل کے حوالے کاروبار کر کے حج و عمرہ سے فراغت کے بعد داعی اجل کو لبیک کہہ دیں۔
اب آتے ہیں تیسرے طبقے یعنی علما اسلام کی طرف، جن کا بظاہر مقصد پاکستان میں دین اسلام کی تبلیغ و ترویج ہے۔ ریسرچ سے اس بات کی تصدیق کی جا سکتی ہے کہ دینی مدارس میں انہیں بچوں کو بھجوایا جاتا ہے جو دنیاوی معاملات اور تعلیمی میدان میں ناکام ثابت ہوتے ہیں، حتیٰ کہ موٹر سائیکل مکینک بھی والدین کو دونوں ہاتھ جوڑ کر جواب دے دیتا ہے کہ یہ کند ذہن بچہ کام سیکھنے کے قابل نہیں۔ مزید برآں وہی بچہ عالم دین بن کر اپنی بچپن کی تمام محرومیوں کو ساتھ لے کر اسی معاشرے کا حصہ بنتا ہے۔ نتیجتاً علماء کی نصیحتوں میں آپس میں محبت بھائی چارے اور دین اسلام کی سر بلندی و ترویج کی بجائے اناپرستی، ایک دوسرے کی بیخ کنی، اور صرف اور صرف اپنے ہی فرقے کو مسلمان قرار دینے میں کوششیں نظر آتی ہیں۔ اور اپنی موجودگی میں ہی اپنی اولاد کو انہی دینی مدارس کی سرپرستی سونپی جائے، اس سے بڑھ کر آج کے علماء کا کوئی خواب نہیں۔ اور وہی دینی نشست، سیاسی و سرکاری نشست میں بدل جائے توسونے پہ سہاگہ۔
ہماری عوام سے بس اب یہی گزارش ہے کہ یہ تینوں گروہ جس روش کو اپنا چکے ہیں اور جس راستے پر چل پڑے ہیں یہاں سے واپسی تقریباً ناممکن ہے، آپ خود ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے عشق سے باز آجائیں اور ایسے لوگوں کی اندھی تقلید سے دستبردار ہوکر حقدار کو اسکا حق دیں، اچھے لوگوں کو سپورٹ کرکے سامنے آنے کا موقع فراہم کریں۔ اور آنے والی نسل کے دینی تعلیم و اقدار کی حفاظت کے لیے ذہین و دین کے ساتھ مخلص لوگوں کو مدارس کا رخ اختیار کرنا چاہیے، جو اپنی ذاتی انا و عناد کو بالائے طاق رکھ کر دین مبین اسلام کی سر بلندی کے لیے ایک ہو کر خدمات انجام دیں۔