Siasat Aur Islam
سیاست اور اسلام
سیاست پیغمبرانہ طریقہ ہے، انبیاء کرام کی اکثریت نے دین کی ترویج سیاسی و معاشرتی طور پر کی، جس سماج میں حاکم وقت ظالم و بے انصاف تھا، ویاں حاکم کو للکارا، گویا معاشرے میں تبدیلی کے لئے سیاسی عمل میں تبدیلی ضروری ہے، ویسے تو اسلام نے حکومت کی یا ریاست کی یا طرز معاشرت کی کوئ حتمی صورت پیش نہیں کی ہے اور اس بات کو علامہ شبلی نعمانی، مولانا ابوالکلام آزاد اور مودودی و ڈاکٹر اسرار بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کسی بھی الہامی کتاب میں مثالی ریاست کا فارمولا درج نہیں ہے۔
چاروں الہامی کتب میں چند اصول و ضوابط درج ہیں جیسے کہ بنیادی انسانی حقوق، مساوات، انصاف، روزگار و معیشت، اور حاکم کی خصوصیات وغیرہ۔ ہمارے یہاں ہمیشہ اسلامی ریاست و مثالی ریاست کی بات کی جاتی ہے، اور افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ حالیہ دور میں مثالی ریاست کا مضحکہ بنا دیا گیا ہے۔ جب کہ ہمارے پاس عہد نبوی کے واضح اصول موجود ہیں۔
علامی شبلی نعمانی لکھتے ہیں۔ عہد رسالت سے قبل حجاز کے خطے میں کوئی ریاست قائم نہ تھی، لیکن حجاز کے چہار جانب چھوٹی بڑی ریاستیں قائم تھیں۔ میثاق مدینہ کے بعد اسلامی سیاست دو مدارج سے گزری، پہلے مرحلے میں مدینے میں امن و امان اور باہمی اعتماد کی فضا قائم کی گئ، پھر دوسرے شہروں میں بھی وفود و خطوط کے ذریعے اسلام کی دعوت دی گئی۔
ان خطوط میں کسی قبیلے یا شہر کے طرز معاشرت پر اعتراض نہ ہوتا تھا، نہ ہی کسی مخصوص حکومت کو قائم کرنے کا مشورہ ہوتا تھا، صرف اللہ کی وحدانیت قبول کرنے کی دعوت، امن و امان کا پیغام اور سماج کےکمزور گروہوں کے لئے زکوتہ، انصاف اور معاش کا نظام وضع کرنے کے مشورے ہوتے تھے، جو قبول عام کا درجہ اختیار کرتے گئے۔
علامہ شبلی نعمانی مزید لکھتے ہیں، فتح خیبر کے بعد اسلام کی ملکی و سیاسی تاریخ کا دوسرا دور شروع ہوا، خیبر وہ غزوہ ہے جس میں فتح کے بعد وہاں کی زمین یہودیوں ہی کے حوالے کر دی گئ کیونکہ خیبر میں مسلمان آباد نہ تھے اور مدینے کے شہری اور مجاہدین وہاں جا کر رہنے بسنے کو تیار نہ تھے، نبی کریم ﷺ نے رواداری کی شاندار مثال قائم کی اور علاقے کو اس کی رہائشی آبادی کے حوالے کر دیا گیا۔ بعد میں کئ دوسرے علاقوں کی آبادی کو بھی اسی طرز پر رکھا گیا ( علاقوں کے نام کتاب میں درج ہیں۔ یہ ساری تفصیلات سیرت النبی کی چھ جلدوں کا مطالعہ کرنے سے مل جائیں گی۔ ان روایات کو مودودی صاحب نے بھی اپنی کتب، تفہیم القرآن اور مقالات و خطبات میں بیان کیا ہے)
تاریخ پڑھنے سے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا اسلام کا مقصد صرف ریاست قائم کرنا تھا؟
اسکا جواب کئ بزرگوں نے اپنی کتب، خطبات، تقاریر و مقالات میں دیا ہے، مولانا سید سیلمان ندوی، مولانا ابو ا لکلام آزاد، علامہ شبلی نعمانی، مولانا مودودی، علامہ اقبال، ڈاکٹر اسرار احمد اور ڈا کٹر قمر الدین خان، یوسف امین اصلاحی ڈاکٹر سبط حسن سب اس نکتے پر متفق ہیں کہ اللہ کو اس سے سروکار نہیں کہ ریاست کا نظام شاہانہ ہے یا آمرانہ۔ جمہوری ہے یا اشتراکی۔ اگر اللہ کی مرضی ہوتی تو وہ اپنی کتب کے ذریعے انسان کو آگاہ کر دیتا کہ کہ ایسا نظام بناو، قرآن میں بادشاہوں کے تذکرے ہیں لیکن ریاست جیسے اہم مسئلے پر قرآن خاموش ہے۔
سلیمان ندوی لکھتے ہیں "نبی کریم ﷺ کی بعثت کا اصل مقصد دعوت مذہب، اصلاح اخلاق اور تزکیہ نفوس تھا۔ آپ نے ملکی انتظامات اسی حد تک قائم کئے جہاں تک ملکی بد امنی کے باعث دعوت توحید کے لئے مصائب پیش آتے تھے۔"
شبلی نعمانی اور مودودی بھی اسی نکتے پر متفق ہیں۔ پچھلے چند ہفتوں سے اس موضوع کے مختلف نکات کا بغور مطالعہ کیا ہے، اور مطالعہ اسلئے کیا کہ فدویہ کو سترہ سال کی عمر سے ہی سیاست میں دلچسپی ہے، اور مستقبل قریب میں سیاست میں ہی آنا ہے، ادب و ادبی تقریبات و دیگر فنون لطیفہ معاشرت کا ایک حصہ ہیں، لیکن ہمارے جیسے ترقی پذیر سماجوں میں تبدیلی سیاسی عمل سے ہی آتی ہے۔ بعد از مطالعہ اور تازہ ترین صورتحال کے حوالے سے مزید تحاریر بھی آتی رہیں گی۔