Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mumtaz Malik/
  4. 26 Saal, Dhuwan Nahi Ujala

26 Saal, Dhuwan Nahi Ujala

26 سال۔۔ دھواں نہیں اجالا

26 سال کا ایک لمبا عرصہ آج مجھے فرانس میں رہتے ہوگیا ہے۔ آج کے دن 7 مارچ 1998ء بروز ہفتہ پی آئی اے کی فلائٹ سے جب اپنے گھر سے چلی تھی تو میری ماں تھی، بھائیوں سے بھرا ہوا گھر تھا۔ خوشیاں تھیں۔ بہت سی امیدیں تھیں اور پھر ایک سال میں ہی ماں کے دنیا سے جانے کی خبر سنی۔ دیکھ نہیں سکی۔ پھر اپنے بھائیوں کے گھر بستے دیکھے۔ کسی میں جا سکے، کسی میں نہیں۔ ڈولیاں اترتی نہیں دیکھ سکے۔ ان 26 سالوں میں فرانس میں فرانک سے یورو تک سفر کیا۔ تنخواہ سے اپنی کمائی تک اور پھر اپنی کمائی سے تنخواہ تک۔ ایک یورو کی چیز کو تین یورو تک ہوتے دیکھا۔

اداروں کو بنتے ہوئے دیکھا۔ بگڑتے ہوئے دیکھا۔ کئی جنگوں کے احوال سے اس ملک کو متاثر ہوتے دیکھا۔ عالمی جنگ کے خطرات کو محسوس کیا۔ کئی سال سے "زیلے جون" نامی تنظیم کا مہنگائی کے خلاف رونا دیکھا۔ کئی وزارتیں بدلتے ہوئے دیکھیں۔

یہاں پر ایک نسل کو جوان ہوتے دیکھا۔ والدین اور اس کی نئی نسل کے تضادات کو دیکھا۔

انکے خیالات کو بدلتے دیکھا۔ میں نے لچکدار لوگوں کو بے حد کرخت ہوتے دیکھا اور بے لچک لوگوں کو نرم خو ہوتے دیکھا۔ ایک چوتھائی صدی گزارنے کے بعد آپ اس قابل ہو جاتے ہیں کہ جب آپ لوگوں کے درمیان تقابلے جائزہ لے سکیں۔ جب آپ عوامی طور پر زندگی گزارتے ہوئے اور اسے پاکستان سے جوڑ کر دیکھیں تو وہاں کے حالات کے اثرات یہاں پر اپنی کمیونٹی پر دیکھیں۔ پاکستان میں ہونے والے وہاں کی مہنگائیوں، وہاں کے ہنگاموں، وہاں والی دہشت گردیوں، وہاں کی سیاست کو لوگوں پر اثر انداز ہوتے ہوئے دیکھا۔ انہیں پاکستان کے غم میں تڑپتے ہوئے دیکھا۔ کئی لوگوں کو جہان سے گزرتے ہوئے دیکھا۔ ڈاکٹر کی یہ صلاح سنی کہ اپنے ملک سے رابطہ توڑو گے تو سکون میں رہو گے۔ جہاں رہتے ہو وہاں جیو۔

لیکن، دل ہے کہ مانتا نہیں۔۔

اسے ہر وقت ہی اس ملک کی خبریں چاہئیں۔ کیوں چاہیں؟ یہ خود بھی نہیں جانتا۔ اس ملک میں ہم نے جوانی سے بڑہاپے تک کا سفر طے کیا۔ تو گود کے بچوں نے گود سے جوانی تک کا سفر طے کیا۔ انگلی پکڑ کر چلنے والے اب ہمیں رستہ دکھا رہے ہیں، سمجھا رہے ہیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ ایسا کرو اور ایسا مت کرو۔ اس میں انہیں برا نہیں کہا جا سکتا۔ اس میں ان کی ہم سے محبت جھلکتی ہے۔ جیسے ناہنجار اولادیں ہوتی ہیں یقین کیجئیے والدین بھی ناہنجار ہوتے دیکھے ہیں۔ جو اچھے لفظوں کو بھی برے پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔

جو ہماری اولادوں کی ہمارے لیئے فکر کو ان کی نافرمانی میں شمار کر دیتے ہیں۔ اسے ان کی گستاخیوں کی لسٹ میں ڈال دیتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں۔ وہ ہمارا خیال رکھتے ہیں۔ ہم کہاں گئے، کیا کھایا، کیا پیا، سوئے کہ نہیں، کچھ چاہیئے کہ نہیں۔ کیا یہ سب کچھ ہم نہیں پوچھتے تھے اپنے بچوں سے؟ ایک عمر کے بعد پھر جگہ بدل جاتی ہے۔ اولاد والدین کی جگہ اور والدین اولاد کی جگہ پر آ جاتے ہیں۔ اگر کل آپ ان سے محبت کرتے تھے۔ تو آج ان کی محبت پر شک مت کیجیئے۔

آج کے زمانے، آج کے وقت، آج کی ضرورت کے حساب سے ہمیں خود کو ڈھال لینا چاہیئے۔ ہم کل اپنے بچوں کو آسانیاں دیتے تھے تو آج بھی اپنے دل پر درد بنانے کے بجائے بچوں کے مسائل ان کی مجبوریوں کو سمجھ کر ان کے ساتھ جینے کی کوشش کریں۔ ہر قدم پر، ہر خاندان میں، ہر رشتے میں، کچھ نہ کچھ کھٹاس مٹھاس وقت کے ساتھ چلتی رہتی ہے۔ کہیں رشتے ٹوٹتے دیکھے۔ کہیں رشتے جڑتے دیکھے۔ کہیں بنتے دیکھے۔ کہیں بگڑتے دیکھے۔ خود اپنی زندگی میں بہت سا اتھل پتھل دیکھا۔ رشتوں کو رنگ بدلتے ہوئے دیکھا۔ رشتوں کو آپ کا حق مارتے ہوئے دیکھا۔ خون کو سفید ہوتے ہوئے دیکھا۔ خون کے آنسو بہتے ہوئے دیکھے۔ خون تھوکتے ہوئے دیکھا۔ لفاظی میں نہیں حقیقت میں۔

بڑے بڑے زور آور ٹوٹتے ہوئے دیکھے، اور بڑے بڑے کمزوروں کو زور پکڑتے ہوئے دیکھا۔ یہی دنیا ہے یہی اللہ کا قانون ہے۔ ہر صبح کے بعد شام اور ہر شام کے بعد ایک نیا سویرا طلوع ہوتا ہے۔ الحمدللہ زندگی نے بہت کچھ دیا۔ بہت کچھ سکھایا۔ بہت سے پردے نظروں سے ہٹائے اور کئیوں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے کی ہمت اور توفیق بھی عطا کی۔ اللہ سے یہ توفیق مانگتے رہنا چاہیے کہ کوئی اچھا کام کریں تو اسے بھول جائیں اور کوئی غلطی ہو جائے تو اپنی اس غلطی کو یاد رکھیں اور اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کریں۔ بہت بہت شکریہ فرانس۔

اس زندگی میں، اس ملک میں ہمیں عزت ملی، تحفظ ملا، روزگار ملا، وقار ملا، عزت سے سر اٹھا کر جینے کا موقع ملا، اچھے دوست ملے، جینے کا ایک نیا انداز ملا، دنیا کو دیکھنے کی نئی نظر ملی، آگے بڑھنے کے مواقع ملے، اچھے استاد ملے، اچھے شاگرد بھی ملے، خود بھی شاگرد کی زندگی جینے کا موقع ملا، بہت کچھ وابستہ ہے ان سالوں کیساتھ۔ انسان کہیں بھی رہے وہاں یہ سب حالات زندگی میں پیش آتے ہیں۔ لیکن ایک پاکستانی لڑکی اس زبان سے بھی نابلد اجنبی دیس میں جو کبھی اپنی گلی سے باہر نہ نکلی ہو، محلے سے باہر کی دنیا نہ دیکھی ہو، اس کے لیئے شہر سے باہر بیاہ کر جانا اور پھر ملک سے باہر سات سمندر پار کا یہ سفر بالکل ایسا ہی تھا جیسے اڑن قالین پر کوئی ایک دنیا سے دوسری دنیا کا سفر کر لے۔

آج بھی یاد ہے ایک سال بھر کی بچی کو گود میں لیئے پیرس کے چارلس ڈیگال ایئرپورٹ پر جب میں اتری تب مجھے احساس ہوا کہ میں کتنی دور آ چکی ہوں کہ میری ماں اتنی شدت سے اس بچی سے لپٹ کر، مجھ سے لپٹ کر کیوں روئی تھی؟ کیونکہ وہ ہماری آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد سال بھر میں ماں بھی نہ رہی۔ اور آج تک میں یہ سوچتی ہوں کہ وہ ایک سال یا میں نہ آتی تو شاید ماں زندہ رہتی یا شاید وہ چلی جاتی تو میں پھر آتی اسے رخصت کرکے دل کو یقین تو ہوتا کہ واقعی وہ چلی گئی ہے۔ لیکن کہتے ہیں نا اللہ کے ہر کام میں کوئی بھی حکمت وہی جانتا ہے۔

یہاں ہم نے آ کر اولادیں پیدا بھی کی اور کسی اولاد کو اپنے ہاتھوں مٹی بھی دی۔ اپنی گودوں میں بھی کھلایا۔ ہر درد، ہر خوشی آپکی زندگی میں آتی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ وہ جو ہم نے جیا۔ شاید وہ اپنے ملک میں کوئی نہیں جیتا۔ وہ تھا تنہائی کا عذاب جو ہمیشہ وابستہ رہا۔ یہ درد اپنی ذات سے کبھی جدا نہیں ہو سکا۔ جب آپ کے پاس کوئی ایسا بھی نہ ہو جس کے سینے سے لپٹ کر، کندھے پر سر رکھ کر آپ رو سکیں۔ جس کے ساتھ آپ بیٹھ کر دل کی بات کر سکیں۔ ہنس سکیں۔ دل کھول کر رکھ سکیں۔ یہ کمی ہمیشہ رہے گی اور یہ کمی ہر پردیسی کے حصے میں آتی ہے۔ ساری خوشیوں پر یہ کمی حاوی ہو جاتی ہے۔ بس اسی درد کا نام پردیس ہے۔ ورنہ کیا نہیں ہے یہاں۔ سب کچھ تو ہے۔ الحمدللہ شکریہ فرانس۔

شکریہ زندگی اور شکریہ میرے ہمسفر اختر شیخ صاحب۔ جن کی سنگت میں جس کی ہمت افزائی، مجھ پر کیئے بھروسے، حوصلے اور مجھے دی ہوئی میری انسانی آزادی نے مجھے کچھ کرنے کا حوصلہ دیا۔ اپنے بیگانوں کس کس نے اسے کیسے کیسے نہ ورغلایا کہ اسے چھوٹ مت دے، یہ تیرے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ بھاگ جائے گی۔ یہ کر لے گی۔ وہ کر لے گی۔ مگر شاباش ہے اختر شیخ صاحب کی استقامت کو جن کی وجہ سے میں اپنے قدموں پر کھڑی ہو سکی۔ ورنہ میں بھی صرف چولہے اور چوکے میں اپنا آپ جھونک کر یہاں اس کمیونٹی کی ہزاروں ڈگریوں کی دعویدار عورتوں کی طرح صرف دھواں ہو چکی ہوتی۔ لیکن اس نے مجھے دھواں نہیں ہونے دیا۔ اس نے مجھے روشنی بننے کا موقع دیا۔ میں جہاں جاؤں اجالے کی طرح پھیل جاؤں۔ اس عنایت کا کریڈٹ واقعی میرے شوہر کو جاتا ہے۔

ہر وہ عورت جو میدان میں کچھ کر رہی ہے اور اس کا شوہر اس کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ اچھے راستوں پر گامزن ہے۔ اس کی شاباش اس کی شوہر کو بنتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کسی کامیاب مرد کے لیئے اس کی بیوی کا ساتھ ہمت حوصلہ اسے شاباشی کا مستحق بناتا ہے۔ میں نے اپنے گھر کی ہر ذمہ داری کو بخوشی نبھایا۔ میرا شوہر میرے گھر اور اپنے بچوں کی طرف سے جبھی بے فکر رہ سکا۔ اس کے بچے صاف ستھرے، تمیزدار پڑھائی پر توجہ دینے والے ہوں۔ وہ گھر آئے تو میرا گھر کسی ملازمہ کے بغیر صاف ستھرا، دھلے دھلوائے کپڑے، گرم کھانا تیار انکے آگے پیش کیا۔ میں نے میرا گھر ہمیشہ میرے شوہر کی کمائی سے ہی چلایا۔ اس نے مجھے جتنی چادر دی۔ میں نے اسی میں خود کو پورا کر لیا۔

وہ ہڈ حرام، نکما، ویلیاں کھانے والا نہیں تھا، اور میں فیشن پرست، مارک کی ماری، پھوہڑ، فضول خرچ اور ناشکری نہیں تھی۔ اس لیئے زندگی میں پیسے کی وجہ سے تماشے کم ہی ہوئے۔ کئی ملکوں کی سیر کی۔ اللہ کا گھر دیکھا۔ پاکستان میں مہینوں بھی رہنا چاہا تو الف سے لیکر ے تک کا خرچ میری جیب میں اس نے اپنی کی کمائی کا دیکر بھیجا۔ مجھے میرے یا اپنے رشتےداروں کا دست نگر نہیں ہونے دیا۔ کہیں میری کسی ضرورت کے لیئے مجھے ترسنے نہیں دیا اور میں نے بھی کبھی اپنے آپ کو ضرورت سے نکل کر خواہش کے گٹر میں گرنے نہیں دیا۔ کیونکہ جو ایک بار خواہشات کے گٹر میں گر گیا اسے دوبارہ سے اس سے پاک کرنے کے لیئے سمندروں کا پانی بھی کم پڑ جاتا ہے۔

زندگی کی تمام کامیابیاں مجھے اسی کے حوصلے ہمت کے طفیل زندگی نے عطا کیں۔ زندگی آسان ہے اگر آپ اسے سادگی اور کسی مقابلے کے بغیر گزارنا سیکھ لیں۔ لیکن زندگی بہت مشکل ہے جب ہر وقت آپ کو خواہشوں کے گھوڑے پر سرپٹ بھاگتے رہنا ہے۔ کیونکہ بھاگتے ہوئے آپ راستے کی دلکشی کا لطف کبھی نہیں لے سکتے۔ اس کے لیئے تو آپ کو دھیما چلنا پڑتا ہے۔ کہیں رکنا بھی پڑتا ہے۔

Check Also

Hamari Qaumi Nafsiat Ka Jawab

By Muhammad Irfan Nadeem