Local Bodies System Nazar Andaz Kion
لوکل باڈیز سسٹم نظر انداز کیوں
آپ کے شہر کی سڑکیں خوبصورت اور کشادہ ہوں، کھیلوں کے خوبصورت گراونڈ ہوں، سیوریج کا بہترین نظام ہو اور اس طرح کے دیگر سہولیات اور ان سے جڑے مسائل کے حل کے لیے جو نظام قائم کیا جاتا ہے اسے بلدیاتی نظام یا لوکل گورنمنٹ سسٹم کہا جاتا ہے، بلدیاتی اداروں کو حکومت کا تیسرا ستون بھی کہا جاتا ہے یعنی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بلدیاتی حکومتوں کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں کبھی بلدیات اداروں کی اہمیت کو نہیں سمجھا گیا۔ خاص کر ہماری سیاسی جماعتوں نے کبھی ایک مضبوط اور طاقتور بلدیاتی نظام بنانے کی کوشش نہیں کی جس کا انکو بہرحال نقصان بھی ہوا اوراس کا فائدہ ہمیشہ غیر جمہوری قوتوں نے اٹھایا کیوں کے بلدیاتی ادارے حقیقت میں سیاست کی نرسریاں ہوتی ہیں، بلدیاتی اداروں سے ہی آپکو نہ صرف نئی قیادت میسر آ تی ہے بلکہ یہ وہ قیادت ہوتی ہے جو براہ راست نچلی سطح سے منتخب ہوکر آتی ہے اور عوام کے مسائل کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتی ہے۔ پاکستان میں سب سے پہلے مقامی حکومتوں کا نظام صدر ایوب خان لے کر آئے کا نام دیا ۔ Basic Democracies جسے انہوں نے اور اس نظام کہ تحت منتخب نمائندوں کو بیسک ڈیموکریٹس کہا جاتا تھا۔ ان منتخب نمائندوں کو یہ اختیار تھا کہ یہ لوگ اپنے ووٹ کے زریعے قومی اور صوبائی اسمبلی سمیت صدر پاکستان کا بھی انتخاب کرینگے۔
1970 کے انتخابات میں بھٹو اقتدار میں آے تو انہوں نے ایک مختصر عرصے میں نیا متفقہ آئین تشکیل دیا جو 1973 میں مکمل ہوا۔ 1973 کہ آئین میں بلدیاتی حکومتوں کے قانون سے متعلق آرٹیکل 32کو شامل کیا گیا۔ آرٹیکل 32 کے مطابق" ریاست متعلقہ علاقوں کے منتخب نمائندوں پر مشتمل مقامی حکومت کے اداروں کی حوصلہ افزائی کرے گی اور ایسے اداروں میں کسانوں، مزدوروں اور خواتین کو خصوصی نمائندگی دی جائے گی"۔
ذولفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں بھی ایک بلدیاتی نظام بنایا گیا مگر انکے دور حکومت میں بلدیاتی انتخابات نا ہوئے۔ 1979 میں صدر ضیاالحق کے دورحکومت میں دوبارہ بلدیاتی انتخابات ہوئے اس کے بعد پاکستان کی دو بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن نے دودو دفعہ حکومت کی مگر دونوں میں سے کسی جماعت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے اور ایک دفعہ پھر 2001 میں جرنل پرویز مشرف نے بلدیاتی انتخابات کروا کر بااختیار بلدیاتی حکومتیں قائم کیں۔ 2008 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کرکے وفاق کے ساتھ سندھ اور بلو چستان میں بھی اتحادی حکومت قائم کی جبکہ مسلم لیگ نون نے بھی ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں حکومت بنائی۔ 8 اپریل 2010 کو پاکستان کی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر آئیں میں 18 ویں ترمیم کو منظور کیا۔ اس ترمیم میں دیگر قانون سازی کے ساتھ140-A کے تحت بلدیاتی حکومتوں سے مطلق کچھ احکامات کو بھی شامل کیا گیا۔
آرٹیکل 140-Aمیں مقامی حکومتوں کے نظام کی بات تو کی گئی مگر یہاں ان حکومتوں کے اختیارات کا کوئی تعین نہیں کیا گیا نا ہی ان حکومتوں کی مدت کا تعین کیا گیا بلکہ اسے صوبائی اسمبلیوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا کے وہ مقامی حکومتوں کو کتنے مالی اور انتظامی اختیارات دیتی ہے۔ مگر ستم ظریفی تو دیکھی اس پانچ سالہ دور میں کسی حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے۔ 18-2013کے درمیان پہلی دفعہ جمہوری حکومتوں نے ملک کے چاروں صوبووں میں بلدیاتی انتخابات کروائے، مگر بلدیاتی حکومتوں کے پاس اختیارات نا ہونے کہ برابر تھے۔ 2018 کے انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران موجودہ وزیراعظم عمران خان نے بار ہا برسراقتدار آنے کے بعد ایک مضبوط بلدیاتی نظام لانے اور بلدیاتی انتخابات کروانے کا وعدہ کیا مگر آج تین سال گزرنے کہ باوجود ملک کے کسی صوبے میں بلدیاتی حکومتوں کا وجود نہیں۔ جناب وزیراعظم صاحب ابھی بھی وقت ہے کہ آپ پاکستانی کے عوام کو ایک مضبوط بلدیاتی نظام دیں تاکہ اقتدار حقیقی معنوں میں نچلی سطح تک منتقل ہو اور عوام کہ مسائل انکی دہلیز پر حل ہوں یہ آپکی حکومت کا حقیقی تبدیلی کی جانب سب سے بڑا قدم ہوگا۔