Zindagi Ki Arzani
زندگی کی ارزنی
کیا آپ نے وہ روح فرسا منظر دیکھا؟ کیا انسانی بے بسی کی انتہاؤں کو چھوتا وہ دل خراش نظارہ آپ کی روح کو بھی گھائل کر گیا؟ کیا اس مظلوم ترین باپ کی آواز کانوں سے ہوتی ہوئی آپ کے دل کو بھی تار تار کر گئی؟ کیا اس کے لفظ آپ کے کانوں میں بھی پگھلا ہوا سیسہ بن کر سماعت کے پردوں کو جلا کر راکھ کر گئے؟ جب ایک باپ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے" میرا ایک ہی بیٹا تھا خدایا۔ او مسلمانو۔ او مجھے مر جانے دو۔ اب میں جینا نہیں چاہتا"۔ سوچیے اگر سوچنے کے لائق کچھ صلاحیت اس ریاستی نظام کے جبر اور بے حسی نے باقی رہنے دی ہے۔
کہ اس دکھیاری ماں کا کیا حال ہو گا؟ جس نے کوکھ سے پیدا کرنے سے لے کر لڑکپن کی اس عمر کو پہنچنے تک ایک ایک لمحہ وہ اس کی آنکھوں کی بینائی تھا کہ ماں ہر منظر اس کے توسط سے دیکھتی تھی۔ دل کی دھڑکن بن کر دھڑکتا تھا، سانس بن کر اس کے اندر جیتا تھا اور روح کی طرح اس کے جسم میں زندگی کی علامت تھا۔ اب اس غمزدہ ماں کے دل پر کیا بیت رہی ہو گی؟ کہ جب اس کی بینائی، اس کی دھڑکن اور اس کی سانس اور اس کی روح اس سے چھین لی بھیڑیوں، درندوں اور وحشیوں نے اس سے اس کا اکلوتا بیٹا چھین کر۔ ایسے عالم میں جب ماں باپ سے ان کی زندگی کا مقصد ہی چھین لیا جائے۔
چند لمحوں پہلے وضو کے پانی کے قطرے گراتا، بھاگتا دوڑتا ہفتہ وار عبادت کے لیے اپنے گھر سے خدا کے گھر کی طرف جائے اور خدا کےگھر سے واپس ٹکڑوں میں بٹا ہوا اور خون میں نہلایا ہوا بیٹا واپس آئے۔ اور والدین اس کے ساتھ مر جانا چاہتے ہوں۔ زندگی کے بوجھ سے آزاد ہو جانا چاہتے ہوں۔ اور یہی حال کسی یتیم کا ہو جس کا ایک واحد باپ ہی کے ستون پر کھڑے مکانِ حیات کی چھت اس پر اچانک آن گرے اور اسے یہ بھی نہ پتا ہو کہ وہ ملبے سے زندہ نکلے گا یا جیتے جی مردہ حالت میں؟
کسی بے چاری خاتون، جس نے اپنے خاوند کو چند لمحے پہلے تیار کروا کر جمعہ پڑھنے بھیجا اور اچانک اس پر بیوگی کا ایسا پہاڑ ٹوٹ پڑا کہ جیتی جاگتی لاش بن جائے۔ کسی بہن، کسی بھائی کا جسم کا حصہ یوں اس سے جدا کر دیا جائے کہ زندگی بھر اس اذیت بھرے زخم سے یادوں اور حسرتوں کا لہو بہتا رہے۔ ان آہوں، کراہوں، سسکیوں اور ہچکیوں کے درمیان اچانک کچھ آوازیں شامل ہوتی ہیں۔ احساس سے عاری آوازیں۔ مصنوعی تاسف خود پر طاری کیے ہوئے کچھ خواص اپنے اپنے محفوظ ترین مقامات سے حفاظتی دستوں کے ساتھ ٹی وی کیمروں کے سامنے آتے ہیں اور چند رٹے رٹائے جملے بولتے ہیں۔
بزدکانہ کاروائی ہے۔ مزمت کرتے ہیں۔ افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ اتنے اتنے کلوگرام بارود استعمال ہوا۔ خودکش بمبار کی عمر اتنی تھی۔ شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔ فارانزک کے لیے بھیج دیے ہیں۔ دشمن ملک کی کاروائی ہو سکتی ہے۔ پتا لگا لیا ہے اس کے ڈانڈے فلاں فلاں سے ملتے ہیں۔ سہولت کار بھی ساتھ تھے۔ اور، اور دہشتگرد ان بزدلانہ کاروائیوں سے بہادر قوم کے حوصلے پست نہیں کیے جا سکتے۔ ہم دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ کر وغیرہ وغیرہ۔
یہ کہہ کر یہ لوگ واپس ان ایوانوں، ان محلات اور ان آشیانوں میں لوٹ جاتے ہیں جہاں ان کے گرد حفاظت کا ایک آہنی حصار انہی لوگوں کے خون پسینے سے قائم ہوتا ہے، جو اپنے گھروں میں بھی خطرے میں ہوتے ہیں اور خدا کے گھر میں بھی غیر محفوظ۔ جن کا کام یا بے موت مارے جانا ہوتا ہے یا بے موت مارے جانے والے پیاروں پر بین کرتے ہوئے جیتے جی مر جانا۔ اور بھئی کون سا حوصلہ؟ بند کرو یہ ڈرامے بازی۔ یہ لفاظی اور یہ سال ہا سال سے جاری اداکاری۔ ہمیں یہ بتایا جائے کہ ہمارا خون کس کے سر ہے؟ ویڈیو میں صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس والے پر فائر کیا گیا جس سے وہ بچ گیا اور سی سی ٹی وی کیمرے کی سمت میں بھاگا۔
جس پر ویڈیو کا جائزہ لینے والوں میں سے کسی کی آواز آتی ہے کہ "یہ کمانڈر تھا " سوال یہ ہے کہ وہ خالی ہاتھ کیوں تھا؟ اسے مزید تزویراتی طور پر دیکھا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے تو یہ کہا جاتا تھا کہ حملے کے تانے بانے افغانستان سے جا ملتے ہیں۔ اب تو افغانستان میں پاکستانی حمایت یافتہ حکومت ہے۔ اب؟ کچھ چہ مگوئیاں اس بارے بھی سنی گئیں کہ یہ امریکہ کی طرف کمر کر کے روس کی طرف منہ کرنے کا شاخسانہ ہے۔ یہاں بھی پھر سوال ہےکہ اگر اس مفروضے میں کوئی حقیقت ہے تو اس پر پہلے سے غور کیوں نہیں کیا گیا؟
ریاست اور صرف پچاس گھروں کے سینکڑوں افراد کی زندگیاں یکلخت تباہ ہو گئیں۔ کیا اسکا حل یہ بیان بازی ہے؟ خدا نخواستہ تم میں سے اس طرح کسی کا اکلوتا بیٹا مر جاتا تو یوں ہٹو بچو کی صداؤں میں اس طرح کی کھوکھلی پریس کانفرنس کر رہے ہوتے دکھاوے کے مزمتی بیان داغ رہے ہوتے؟ نہیں۔ پنجابی میں کہتے ہیں"جیہڑے تن تے لگدی اوہو ای جانڑیں " (جس بدن پر لگتی ہے وہی درد کی شدت محسوس کر سکتا ہے)۔
ایک اور انتہائی افسوسناک رویہ وہی ہے جو ہر جگہ ہم برصغیر کے مسلمانوں کے راستے میں حائل ہے، اور وہ ہے جبر سہنے کو مشیتِ ایزدی قرار دینا اور فکر کے راستے میں تقدیس کی رکاوٹیں کھڑی کرنا۔ فرد اور ریاست کا رشتہ زندگی سے استوار ہے۔ ریاست فرد کے جان و مال کی حفاظت کی بنیادپر فرد سے معاشی فوائد حاصل کرتی ہے۔ یہ نہیں کہ ایک ریاست اس پر مذہبی عقیدت کا مظاہرہ کرے کہ بے موت مارے جانے والے شہید ہیں۔ شہادت ایک مکمل طور پر شعوری عمل ہے۔ مگر یہاں دہائیوں سے جاری ریاستی عملداری کے فقدان کے باعث انسانی جان کی ارزنی کو شہادت کا نام دے کر اس خون کے سوال کے راستے میں تقدیس کی رکاوٹ کھڑی کی جاتی ہے۔
اس ریاستی نظام کے لیے موزوں ترین رویہ ہم افراد کا خود اپنی جانوں کو ارزاں سمجھنا ہے۔ مثلا ََآپ نے کبھی دیکھا کہ ٹرین میں حادثہ ہو، سانحہ مری ہو، کوئی بم دھماکہ ہو یا کوئی بھی جانی نقصان۔ 24 سے 48 گھنٹوں کے بعد یہ حادثہ صرف ان لوگوں کا درد ہو کر رہ جاتا ہے جن گھروں کا جانی نقصان ہوا۔ باقی قوم ساری اگلے حادثے کا انتظار کرنے لگتی ہے۔ مین سٹریم میڈیا، سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا پر بھی نہ کوئی فالو اپ ہوتا ہے اور نہ کوئی یاددہانی۔ رات گئی بات گئی۔
زندگی انمول ہے۔ قدرت کا بیش قیمت تحفہ ہے۔ اس سر زمین پر جس کی ارزاں بولی لگائی جاتی ہے۔ پاکستان بننے سے لے کر آج تک یہاں عام لوگوں کا خون اس نظام کی بنیادیں یہاں عام لوگوں کے خون سے سیراب ہوتی ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم کم ازکم سوشل میڈیا کی طاقت استعمال کرتے ہوئے، زندگی کو ارزاں ہونے سے بچائیں۔ اس نظام اور اس کے ہرکاروں سے اپنے خون کا حساب مانگیں جو اکلوتے بیٹے کے ماں باپ کی چیخ و پکار اور "میں زندہ نہیں رہنا چاہتا " کی آواز کے جواب میں کیمرے کے سامنے مذمت کرتے ہیں اور کیمرے کے پیچھے کہتے ہیں "بچے اور پیدا کر لو"۔