Zimni Intekhab Aur Awami Establishment
ضمنی انتخاب اور عوامی اسٹیبلشمنٹ
ریاستی انتظام و انصرام کیسے چلتا ہے؟ اسکی مثال ایک جوائنٹ فیملی سسٹم کی سی ہے۔ جس میں موجود تمام لوگ حقوق و فرائض کا ایک توازن اپنے اپنے کاندھوں پر اٹھا کر گھر کو چلاتے ہیں۔ آمدن اور اخراجات میں ہر کسی کی ایک مساوی شراکت داری ہوتی ہے۔ اب اگر گھر کے تمام افراد کو آپ ریاستی باشندوں یا رعایا سے تشبیہہ دیں اور گھر کو ایک ملک یا ریاست سے تو ہم باآسانی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ریاست و رعایا کے بیچ حقوق و فرائض کا ایک توازن اسکی کامیابی کی اساس ہے اور یہی چیز اسے تینوں دنیاؤں میں سے ایک میں براجمان کرتی ہے۔ یعنی پہلی ترقی یافتہ، دوسری ترقی پزیر اور تیسری پسماندہ۔
دنیا اسی توازن کے قیام کے ارتقائی عمل سے ہوتی ہوئی ریاست کو چلانے کے ایسے انتظام تلک پہنچی گویا جوائنٹ فیملی سسٹم میں گھر کے تمام افراد مل کر فیصلہ کریں کہ گھر کو کون، کس طرح، کن قواعد وضوابط پر چلائے گا؟ بعینہ ریاست میں اپنی رائے کا یکساں اظہار رکھتے یہ تمام افراد جمہور یعنی عوام ہیں اور یہ نظام سلطانیِ جمہور یعنی جمہوریت ہے۔ آپ پہلے درجے کی ترقی یافتہ دنیا کو دیکھیں تو وہاں آپ کو اکثر کے ہاں یہی جمہوریت کا نظام پنپتا دکھائی دیتا ہے۔
عوام کے ذریعے عوام کی حکمرانی۔ یعنی عوام جسے چاہیں چن لیں جسے چاہیں رد کر دیں۔ اس کا مطلب کیا یہی نہیں کہ جمہوریت میں اسٹیبلشمنٹ عوام ہوتے ہیں۔ پاکستان ایک ایسے ملک کے راج سے آزاد ہوا جو اس وقت ترقی یافتہ دنیا کے سرخیل ممالک میں سے ایک ہے اور ساتھ ہی ساتھ دنیا کی بہترین جمہوریتوں میں سے بھی۔ پاکستان جس مقصد کے لیے بنا تھا اس کو مندرجہ بالا تمہید کی روشنی میں دیکھا جائے تو وہ یہ تھا کہ مسلم عوام پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی حیثیت سے رہنا چاہتے ہیں۔
پاکستان بن گیا۔ جزباتی نعروں پر مبنی مزہبی بیانیے اور ریاستی عملداری کے درمیان خلیج بہت بڑی تھی۔ اس خلیج کو قوم نے ایک ارتقائی مسافت ہی سے طے کرنا تھا۔ لیکن بد بختی کہ آغاز ہی سے اشرافیہ کی چالبازیوں اور سازشوں کے ذریعے یہ سفر معکوس سمت میں ہونے لگا اور پاکستان کی منزل کھوٹی ہونے لگی۔ اشرافیہ یہاں اسٹیبلشمنٹ بن گئی اور عوام اوپر بیان کردہ مثال کے مصداق ایک غیر منصفانہ جوائنٹ فیملی سسٹم کے شرکا کہ جن کا گھر کی حکمرانی سے عملاََ کوئی تعلق نہیں۔ انکا کام صرف اپنا خون پسینے ایندھن بنا کر نظام کو دینا اور اس پر کڑھنا ہوتا ہے۔
عوام کو اسٹیبلشمنٹ بنانے کی سعی مختلف ادوار میں ہوئی۔ محترمہ فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو، شہید محترمہ بے نظیر بھٹو، اقتدار کے بعد میاں محمد نواز شریف صاحب اور اقتدار سے پہلے اور بعد کے عمران خان صاحب (افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اقتدار کے دوران مؤخر الذکر دونوں صاحبان قول و فعل کے اس تضاد کا شکار رہے ہیں جو موجودہ اسٹیبلشمنٹ کو تقویت دیتا اور عوام کے حق حکمرانی کو کمزور کرتا ہے۔
میاں نواز شریف کو عمران خان صاحب کے کاندھے پر بندوق رکھ کر نکالا گیا تو انہوں نے "ووٹ کو عزت دو" کی تحریک شروع کی، طالبعلم کی نگاہ میں یہ خالصتاََ عوام کو اسٹیبلشمںٹ بنانے کی اس ارتقائی مسافت کی بہت بڑی کڑی تھی لیکن افسوس کہ اسکی قیمت ادا کرنے کے لئے قربانی دیتے وقت میاں صاحب نے سلمان شہباز صاحب کے ٹویٹر سے انکے والد شہباز شریف صاحب کی "Game Changer" والی تصویر جاری کروائی۔ اور اسی "گیم" کی آخری کڑی میاں شہباز شریف صاحب کے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو دفن کرتے ہوئے وزیراعظم بننا تھا۔
میرے آبائی حلقے کے مایہ ناز اور پاکستان کے نصاب کے علاوہ بھی کتابیں پڑھنے والے چند سیاستدانوں میں سے ایک جناب خرم مشتاق نے لکھا کہ ایسا میاں نواز شریف صاحب کی مرضی کے خلاف ہوا۔ عمران خان صاحب جو جناب ایاز امیر اور جناب حامد میر کے احساس دلانے پر سامنے بیٹھ کر بجائے شرمندہ ہونے کے قہقہے لگا رہے تھے انکا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کل پنجاب میں کام کر گیا۔
اور شہباز شریف صاحب کو ناصرف ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ دفن کرنے بلکہ عمران حکومت کی معاشی نا اہلی کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھانے کی دوہری سزا ملی اور پاکستان کے مایہ ناز الیکشن تجزیہ کار اور پی ٹی وی الیکشن سیل کے سربراہ جناب احمد اعجاز صاحب کے تجزیے کے عین مطابق پورے پنجاب سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سیاست کا ایک ادنیٰ سا طالب علم اور تیسری دنیا سے اکیلا نہیں اپنی قوم سمیت دوسری اور پہلی دنیا کی طرف جانے کا خواہشمند ہونے کے ناطے میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ مجموعی طور پر جمہور کے لیے یہ اس لیے خوش آئیند ہے کہ یہ جمہوریت کی جیت ہے۔
یہ ووٹ کو عزت ملی ہے۔ یہ اشرافیہ کے اسٹیبلشمنٹ ہونے اور تسلیم کیے جانے کے بیانیے کی شکست اور عوام کے اسٹیبلشمںٹ بننے اور تسلیم کیے جانے کے بیانیے کی جیت ہے۔ لیکن یاد رہے کہ عوام کو اپنے اس حق کو تسلیم کروانے کے لیے ایک ایسے شعور کی ضرورت ہے جسکے ہوتے ہوئے کوئی بھی سیاستدان چاہے کسی بھی جماعت سے ہو اس عوامی حمایت کو اقتدار کی سیڑھی کے طور پر استعمال کرنے کے لیے اپنے جوتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے بوٹوں تلے نہ رکھ سکے۔
بیانیے کی جیت، بیانیے کی ہار
ہر کوئی پڑھے نواشتہءِ دیوار۔