Professor Sher Ali Aur Insani Irtiqa
پروفیسر شیر علی اور انسانی ارتقاء
مسجود و لاشریک خدا نے علم کی بنیاد پر جنابِ آدم کو فرشتوں سے سجدہ کروایا زمین پر بھیجتے ہوئے کہا میری طرف سے ملنے والی ہدایت پر عمل کرنا۔ ہدایت کے لیے "علم" ہی کا راستہ اپنایا۔ ہدایت کا یہ نظام کتاب، قلم اور تدریس کے گرد گھومتا ہے۔ لگ بھگ سات ہزار سال بعد جب اس ہدایت کے نظام یعنی اسلام کی تکمیل کی تو آخری پیغمبر ﷺ کو پہلی ہدایت یہ ملی کہ پڑھیے۔ یہ کائنات کی سب سے عظیم اور مقدس تدریس تھی۔ جب پڑھانے والا رب العالمین اور پڑھنے والے رحمت للعالمین۔
جب پڑھ چکے تو خدا کے آخری پیغمبر نے کیا کہا مجھے "معلم بنا کر بھیجا گیا ہے"۔ اب معلم اگر رحمت للعالمین ہوں اور ہدایت کی کتاب میں خدا کہے "دین میں کوئی جبر نہیں" اور ہدایت کا تصور خدا کے نزدیک اسکی نشانیوں پہ غور کرکے اسکی الہیت کا اقرار ہو تو دینِ خدا کی تعریف روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔۔ مگر۔۔
اس ہدایت کے نام پر بننے والے ملک میں چند خواتین بے چاری ریاست کی طرف سے دی جانے والی بھیک وصول کرنے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دفتر پہنچتی ہیں تو یہ بات خواتین کے گھر سے باہر نہ نکلنے کو اس دینِ ہدایت کی خودساختہ مسلکی تعریف وضع کرکے اسکے عالم کہلانے والوں کو ناگوار گزرتی ہے۔ اور خلیفہِ وقت حضرت عمرؓ کی اپنی کمر پر غریب بیوہ کے گھر غلہ پہنچانے کی زبانی کلامی مثالیں دینے والے ان بے چاری خواتین کو گھروں تک محدود رہنے کا حکم جاری کرتے ہیں۔ برسبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو اپنی اس منافقت کی تسکین کے لیے اپنی خواتین کے لیے تمام امورِ حیات میں لیڈی ورکرز کے طلبگار ہوتے ہیں بندہ پوچھے عورت نے گھر سے نہیں نکلنا تو لیڈی ڈاکٹر، لیڈی پولیس اور لیڈی پروفیشنل بننا کیسے ہے؟
بہرحال اپنے پیٹ اور انکے ذہن کی بھوک کا شکار ان خواتین کے حق میں ایک چھوٹا سا سیمینار منعقد کیا جاتا ہے جہاں خدا کی نشانیوں پر غور کرکے اس کے پروردگار ہونے کا اعتراف کرنے والا ایک بیالوجی کا پروفیسر خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ عورت کا گھر سے باہر نکلنا حرام نہیں ہے اور یہ کہ پردے کا یہ تصور یہاں پہ رائج جغرافیائی تعریف ہے برصغیر سے پہلے جن ترکی، ملائشیا، انڈونیشیا اور افریقہ میں اسلام پہنچا وہاں عورتوں میں یہ والا پردہ آغاز ہی سے رائج نہیں۔
تیسری اہم ترین بات جو پروفیسر نے کہی وہ یہ تھی کہ طبی لحاظ سے بلوغت کا تعلق عقل سے ہے لڑکیوں کا لڑکوں سے پہلے بالغ ہو جانا اس چیز کا فطری استدلال ہے کہ ہمارے ہاں یہ جو عورت کے کم عقل ہونے کی مزہبی تفہیم ہے یہ بھی غلط فہمی پر مبنی ہے۔ پروفیسر نے اپنی گفتگو میں اسلامی شریعت، سیرت النبی ﷺ سے لے کر آئینِ پاکستان کے حوالے بھی دیے۔
بس جی پھر جن کی روزی روٹی ہی ان چیزوں کے گرد گھومتی ہے وہ ایک ہی وقت میں اسرائیل کے جبر کے خلاف مظاہرے اور پروفیسر کے پورے گھرانے کے خلاف اسی جبر کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔ اسکے پورے خاندان کا جینا دو بھر کر دیا جاتا ہے اور پھر "مرتا کیا نہ کرتا" کے مصداق آخر کار وہ ہوا کہ جسکی توقع نہیں تھی یعنی پروفیسر زندہ بچ رہتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نظامِ قانون کا ایک کاغذ پروفیسر کے ہاتھ تھما دیا جاتا ہےاور اسے جان بخشی کے عوض پڑھنے کا حکم جاری ہوتا ہے۔ پروفیسر پڑھتا جاتا ہے۔ کہیں لا اکراہ فی الدین کا حکم شرماتا ہے کہیں ولا تفرقو کا فلسفہ ہچکیاں بھرتا ہے کہیں صنفی امتیاز کا سماج کش جبر کچوکے لگاتا ہے تو کہیں فقہی استبداد انسانیت کو پیروں تلے مسلتا جاتا ہے۔
1۔ سب سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل کردہ تمام اعمال کو۔۔ عقائد و اعمال پڑھو۔۔ (پروفیسر کس بے بسی سے پیچھے کھڑے خود سے کہیں کم علم ملاں کی طرف تاسف بھری نظر ڈال کر کاغذ پر سر جھکا کر پڑھنے لگتا ہے۔ الامان)۔۔ تمام عقائد و اعمال کو مسلکِ دیوبند کے علماءِ کرام کی تفہیم و تشریح کے مطابق سمجھنے کا اقرار کرتا ہوں۔
2۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ عورت کا پردہ سر تا پا ہے۔ انکا گھر سے نکلنا حرام ہے اور یہ کہ عورت مرد سے عقل میں کمتر ہے۔
3۔ میں ان تمام سائینسی علوم سے برات کا اعلان کرتا ہوں جو شریعت کے خلاف ہیں۔
ایک ریاست کے تصور کے لیے یہ جبر نامہ کسی بھی طور گوارہ نہ ہوتا لیکن یہاں تصورِ ریاست کی زبوں حالی کا احوال آپ اس امر سے جان سکتے ہیں یہ سب ریاستِ پاکستان کے آئین و قانون کے مجاز افسر کی زیرِ نگرانی وقوع پزیر ہوتا ہے۔
سائینس ہے کیا؟ ہر عہد کی مزہبی ذہنیت اس سے اتنی خائف کیوں ہے؟ اہلِ علم نے اس افسوسناک ترین سانحے پر معاملے کو گلیلیو سے حضرت عیسیؑ کے مصلوب کیے جانے تک کے آئینے میں دیکھا۔ اس مطالعے اور اپنے طالبعلمانہ مشاہدے سے ایک بات سامنے آئی۔
خدا نے بنیادی علم انسان کی فطرت میں رکھ کر اسے مسخر کرنے کی صلاحیت دے دی اور پوری کائنات میں اپنی نشانیاں بکھیر دیں۔ سائینس انسان کی اس بنیادی علم کی روشنی میں مسخر کرنے کی اس صلاحیت کے راستے پہ ان نشانیوں تک پہنچ جانے کا ارتقائی سفر ہے۔ اور دینِ ہدایت کی تعریف طالبعلم اوپر بیان کر چکا۔
غور فرمائیے گا۔ "افلا یتدبرون" کا حکم کس کے لیے ہے خدا کن سے مخاطب ہے کہ میری نشانیوں پر غور وفکر کرو۔ یقینی طور پر اپنے ماننے والوں سے، کتابِ ہدایت پڑھنے والوں سے۔ لیکن یہ انتہائی اعلی ظرف شہنشاہِ کائنات کا وطیرہ ہے کہ اس راہ کے مسافروں سے ایمان کا ٹکٹ طلب نہیں کرتا بس منزل کے لیے اخلاصِ نیت کا زادِ راہ۔
اس قضیے میں موجود دو فکروں کا تقابلی جائزہ لیجیے۔ پروفیسر خدا کی پیدا کردہ حیاتیات کا عالم ہو کر خدا کی نشانیوں پر تدبر کرتا ہے اور بیان کرتا ہے فطرت کا عورت کو عقل و شعور پہلے عطا کرنا کم عقلی کی دلالت کیسے کر سکتا ہے۔ پھر وہ اسلامی تاریخ کا حوالہ دے کر پردے سے متعلق اظہارِ خیال کرتا ہے۔ پھر وہ سیرت النبی ﷺ، اسلامی تاریخ اور آئینِ پاکستان کی روشنی میں عورتوں کی آزادانہ نقل و حرکت کے بارے اپنا موقف پیش کرتا ہے۔ اور "لا اکراہ فی الدین" اور حقوق العباد کے دین کی روشنی میں مفلس و بے بس عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتا ہے۔ یہ عام اصطلاح میں دنیا دار آدمی ہے۔
اب دوسری فکر پر غور فرمائیے جو رائج اصطلاح میں دین دار ہے۔ جو لا اکراہ فی الدین، حقوق العباد، عدل و انصاف اور آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سب سے پہلے چند عورتوں کے شرعی اور آئینی حق پر محض اپنی تفہیم کی قدغن لگاتی ہے۔ اسکے بعدپروفیسر کے گھرانے پر جینا مشکل بنا دیتی ہے اور پھر اس سے زبردستی اقرار نامہ لیتی ہے۔
اب یہ فیصلہ قارئینِ کرام پر کہ دونوں افکار میں سے دینِ ہدایت کے نزدیک آپ کو کون سی فکر لگتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ دینِ ہدایت کو جغرافیائی، مسلکی، گروہی، ذاتی اور معاشی مفادات کا اسیر بنایا گیا تو اسے قائم رکھنے کے لیے ایک تقدیس میں ملفوف کیا گیا اس تقدیس کے لیے جوشِ خطابت و کتابت کے ذریعے ایک حساسیت پیدا کی گئی۔ جس نے ایک جزباتیت کو جنم دیا اور جزباتیت اختیار ملنے پر جبر میں ڈھل کر رہتی ہے۔ غور فرمائیے تو اس سارے کھیل میں سب سے پہلے عقل کو منہا کیا جاتا ہے۔
جبکہ سائینسی و علمی ذہن خدا کے راستے پر اس علم و عقل کے ساتھ چلتا ہے جو آدمی کی بہ نسبتِ جنابِ آدم میراث ہے۔ جب وہ مزہب کو ان انسانی مفادات کا اسیر دیکھتا ہے تو اسے عقل کے پیمانے پر پرکھتا ہے۔ اسکے ذہن میں سوال پیدا ہوتے ہیں وہ یہ سوال لب پر لاتا ہے تو اس تقدیس کا دشمن قرار دیا جاتا ہے اور جبر کا شکار ہوتا ہے۔
بہرحال پروفیسر شیر علی کو ڈارون کے نظریہِ ارتقاء پر معافی مانگنی پڑی۔ خدا جانے ڈارون کا نظریہِ ارتقاء درست ہے یا نہیں لیکن انسان اور انسانیت کا ارتقاء بحرحال حتمی ہے کہ انسان کو خدا نے علم دیا اور فرشتوں سے اسے سجدہ کروایا لیکن آج انسانی ارتقاء کا عمل یہاں تلک پہنچ گیا کہ خدا نے جسے علم دیا اسے خود ساختہ فرشتوں نے گھیر کر اپنا سجدہ کروا لیا۔ ستم بالائے ستم کہ انسان کو یہ سزا یہی نظریہِ ارتقاء بیان کرنے پر ملی۔