Musafir Khane Mein Jannat
مسافر خانے میں جنت
اتوار کا دن ہو اور بیٹی رانی کے ہاتھ میں ایک فہرست نہ ہو یہ ممکن نہیں۔ سو پہنچے ہم میانوالی خریداری کی غرض سے۔ ریلوے اسٹیشن کی پارکنگ پر گاڑی کھڑی کر کے ہم پیدل بازار جایا کرتے ہیں۔ مگر کل کیا ہوا کہ جسم ڈھانپے ہوئے لباس پر لگی جیب کی وجہ سے اسے گویا گھسیٹ کر بازار کی جانب لے گیا مگر اس جیب کے نیچے دھڑکتا دل وہیں رہ گیا۔ روح وہیں اس بینچ پر بیٹھی رہی اس بڑھیا کے ساتھ۔
آنکھیں تھیں کہ انسانیت کی روح میں گویا چھید ہی کر ڈالیں۔ چہرے کی جھریاں جیسے چہرے پر بدبختی کا زائچہ بناتی ہوں۔ بالوں کی سفیدی زمانے کے منہ پر ملی مادیت کی کالک کا منہ چڑاتی تھی۔ بھوک سے بچ رہنے والے دانتوں کو ایسے بھینچ رکھا تھا جیسے درمیان میں یہ کائنات ہو۔ وقت کی آنچ پر جھلسے ہوئے چہرے پر جو سنجیدگی اور رنجیدگی تھی سامنے کھڑی میری بیٹی فاطمہ کی مسکراہٹ کو ایک ثانیے میں نگل گئی۔ جو ٹھنڈی آہ اس نے بھری زمانے بھر کی سرد مہری کا عرق تھی۔
جب میں نے اپنی گاڑی کھڑی کی تو مسافر خانے میں سامنے بینچ کی جانب دھیرے دھیرے چلتی ہوئی ایک بڑھیا رواں تھی۔ نگاہیں اس پر جم ہی گئیں۔ وہ اتنی آہستہ آہستہ چل رہی تھی گویا اسے ڈر ہو کہ کہیں زمین تھم ہی نہ جائے وقت رک ہی نہ جائے۔ وقت کی جس ریل کا اسے انتظار ہے وہ آئے ہی ناں اور اسے مرنے کے انتظار میں اور جینا پڑے۔ میں جہاں دیکھتا ہوں میری بیٹی وہاں دیکھتی ہے۔ اسکی مسکراہٹ میرا سرمایہ ہے مگر مجھے خوشی ہوتی ہے کہ ایسے لمحوں میں اسکی مسکراہٹ غائب ہو جاتی ہے یہ اس سرمائے پر حاصل ہونے والا منافع ہے۔
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
فاطمہ نے پوچھا، انہیں پیسے دے آؤں؟ اور میرے ہاتھ سے ایک نوٹ پا کر اس بینچ کی جانب بڑھی۔ اماں جی یہ پیسے لے لیں۔ بڑھیا نے جب گردن پھیر لی تو کچھ دور کھڑے تصویر بنانے کا سوچتے گمنام لکھاری کے ہاتھ گویا شل ہو گئے۔ کیسے بتاؤں کہ وہ لمحہ کیا تھا۔ بڑھیا نے پوری کائنات کے اس معاشی نظام کو اپنی استخوانی گردن کی جنبش سے زمین پر دے مارا تھا۔ میں کچھ قریب گیا اور کہا ماں جی پیسے لے لیتیں کچھ کھا لیتیں۔
اوہ خدایا۔ جس کرختگی سے اس نے میری طرف دیکھا وہیں اسی جگہ زمین میں گاڑھ دیا۔ ہاتھ سے چلے جانے کا اشارہ ایسا تھا کہ گویا وہ مسجودِ ملائک خود کو فرشتہ سمجھ کر آنے والے کے دل کی کھوٹ جان کر تخلیہ کا اشارہ کرتی ہو۔ منہ سے کچھ بولی مگر الفاظ ناقابلِ فہم تھے۔ اس مسافر خانے میں گونجنے والی وہ مبہم سی آواز اس وقت حضرتِ انسان کے لیے تخلیق کردہ آسمانی جنت اور زمین پر بنے بڑے بڑے ایوانوں اور محلات پر ایک طنز تھا۔
گمنام لکھاری کی زندگی کی کل میں سے آدھی یادیں مسافر خانوں اور مسافروں سے جڑی ہیں۔ ایک چہل پہل، بھانت بھانت کی بولیوں کی آوازیں، سامان کی آمد و رفت، روٹی پکوڑے چائے کے سٹالز سے صدائیں اور جاتی ہوئی ریل کی کوک۔ یہ میری زندگی ہے۔ ویسے تو زندگی ایک مسافر خانہ ہے۔ اپنے اپنے وقت کی گاڑی کے انتظار میں لوگ یہاں بیٹھے ہیں۔ حیات کے اس پلیٹ فارم پر مگر بہت سے ایسے دیکھے کہ جنکی منزل کی ریل کبھی نہیں آتی۔ یہ مسافر خانہ انکی منزل ہو جاتا ہے۔ ریلوے اسٹیشنوں سے جڑی داستانوں کو کبھی نقش کر پاؤں گا۔
فاطمہ نے بازار میں چلتے ہوئے مجھے کہا کہ آپ ابھی وہیں ہیں؟ میں نے کہا کہاں؟ کہنے لگی مسافر خانے میں۔ میں نے کہا، ہاں بچے کوئی کہانی ہے کوئی داستان ہے اسکے پیسوں سے انکار کرنے میں۔ انکا آپکے اور میری طرف اس قدر کرختگی سے دیکھنا اپنے اندر انسانوں اور انکے رویوں سے نفرت کی کوئی داستان لیے ہوئے ہے۔ کوئی انکی آپ جیسی ہوتی، نواسی کوئی میرے جیسا بیٹا ہو گا جس نے انہیں۔ بس بیٹا خدا انکی مدد کرے۔
بازار میں چلتے بار بار وہ چہرہ، وہ آنکھیں، وہ نفرت، وہ شدت یاد آتی تھی۔ استخوانی ہاتھ سے پنکھی کی ہوا دوزخ سے آتی اور چہرے کو جھلساتی محسوس ہوتی تھی جسے بجھانے آنکھوں میں نمی تیرنے لگتی۔ اماں کے پیچھے کہانی کیا ہے؟
واپسی پر کار پارکنگ والے کو پرچی کے پیسے دیتے ہوئے پوچھا تو درد روح کی گہرائی میں اتر گیا۔ بھیا اسکا ذہنی توازن نہیں ٹھیک۔ یہ یہاں قریب کے ہی رہنے والے میانوالی کے شہر دار لوگ ہیں۔ ٹھیک ٹھاک ہیں لیکن بس اپنی ماں کو یہاں چھوڑ گئے مسافر خانے میں۔ بس کیا کریں شرم آتی ہے ایسے لوگوں پر۔ یہ کہہ کر وہ دوسری گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھی فاطمہ کی طرف میں نے دیکھا تو اسکی آنکھیں حیرت سے کھلیں نمی سے بند ہونے لگیں۔ ڈیڈا ایسے کوئی کیسے کر سکتا ہے اپنی مما کے ساتھ؟
میں سوچنے لگا یہ کیسا معاشرہ ہے ہم کیسے انسان ہیں۔ یہ کیا ریاست ہے؟ کسی نفسیاتی الجھن، کسی خاص بے ترتیب کیفیت، کسی ذہنی بیماری کا علاج کروا کر کسی کو زندگی کی طرف واپس لوٹانے کی بجائے اسے زندگی کے دائرے سے ہی باہر دھکیل دیتے ہیں اور ایسے لوگ سڑکوں، اسٹیشنوں اور لاری اڈوں پر بے یارو مددگار پھرتے رہتے ہیں۔ ذہنی توازن ہمارا خراب ہے یا ان بے چاروں کا؟ جنکو گزرے وقت کی یادیں تو آتی ہونگی۔
گاڑی کو آگے بڑھاتا میں سوچنے لگا اچھا اچھا یہ داستان تھی اماں کی آنکھوں میں۔ تو اس لیے اتنا آہستہ آہستہ چلتی تھی کہ جو پیروں کے نیچے کسی کی جنت تھی ٹوٹے ہوئے جوتوں سے مسافر خانے میں کہیں کھو نہ جائے۔ اسے کھو کر کس سے پوچھے گی، کہاں ڈھونڈے گی، کیا بتائے گی کہ یہاں مسافر خانے میں میرے بچوں کی جنت کھو گئی ہے۔ سب کہیں گے اماں پاگل ہو گئی ذہن توازن بگڑ گیا کبھی ریل کے مسافر خانے میں بھی جنت ہوئی ہے؟
پسِ تحریر! میانوالی کی کوئی انسانی حقوق کی تنظیم خدا ترسی کرتے ہوئے جنت کو ریلوے اسٹیشن کے مسافر خانے سے مردہ حالت میں ملنے سے پہلے دیکھ لے تو خدا اس کو اپنی جنت میں زندہ کرے۔