Mazhabi Jazbat Se Cricket Ka Khel
مذہبی جزبات سے کرکٹ کا کھیل
میں لکھ چکا کہ کرکٹ میری پہلی محبت تھی۔ کل رات پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیموں کے درمیان سات میچوں کی ٹی ٹونٹی سیریز کا فائنل تھا۔ اس میچ کو اگر ایک لائن کے تبصرے میں سمیٹنا ہو تو وہ یہ ہے کہ انگلینڈ کی ٹیم جیتنے کے لیے میدان میں اتری تھی اور بس۔ پاکستان نے ٹاس جیتا اور پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کیا کہ شاید پچھلے میچ کے زخم پر "salt" ابھی تک لگ رہا تھا۔ اسی سالٹ اور ہیلز نے ایک بار پھر جارحانہ آغاز کیا اور دس کی ایوریج سے سکور شروع کیے۔
حسنین نے Hales کو LBW کیا اور اسی اوور میں Salt کو شارٹ فائن لیگ سے بہترین ڈائریکٹ تھرو سے شاداب نے رن آؤٹ کیا۔ اسکے بعد Malan اور Duckett نے پارٹنر شپ کا آغاز کیا خاص بات یہ ہے کہ دونوں نے ایک ہی اوور میں دو وکٹس گرنے کے پریشر کے باوجود ایوریج کو دس سے نیچے نہ گرنے دیا۔ ڈیپ کوررز کے اوپر سے چھکے ہوں یا ڈیپ مڈ وکٹ کے اوپر سے دونوں نے شارٹس "V" کی صورت میں کھیلے۔
افتخار کی گیند پر بابر اعظم نے Malan کا سیدھا کیچ گرا کر پاکستانی ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔ افتخار ہی کے اگلے اوور میں رضوان نے اس وقت بہترین پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے Duckett کو پویلین کی راہ دکھائی جب وہ بہت خطرناک موڈ میں تھا۔ پھر Brooke آیا اور اس نے بھی Malan کے سنگ دس کی ایوریج برقرار رکھی۔ پندرہویں اوور میں ڈیڑھ سو رنز وہ بنا چکے تھے اور پاکستان کو بریک تھرو کی اشد ضرورت تھی جب کپتان نے اپنے مین سٹرائیک باؤلر کا رخ کیا جو واحد کھلاڑی کل خود اعتمادی کے ساتھ میدان میں اترا تھا۔
لیکن بابر اعظم نے ایک بار پھر حارث رؤف کی بہترین Slow Delivery پر Brooke کا آسان ترین کیچ گرا کر کشور کمار جی کا وہ گانا یاد کروا دیا کہ "منجھدار میں نیا ڈولے تو ماجھی پار لگائے، ماجھی جو ناؤ ڈبوئے اسے کون بچائے"۔ اور اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی کہ سکور خادم کے فیس بک اور اپنے سنگ بچپن سے کرکٹ کھیلنے اور سمجھنے والے دماغوں کے ایک واٹس ایپ گروپ میں دیے گئے اندازے کے عین مطابق 210 پر جا پہنچا۔
یہ پہاڑ جیسا ہدف بنوانے میں جہاں بابر اعظم کی ناقص فیلڈنگ کے ساتھ منصوبہ بندی سے عاری کپتانی کا بھی پورا پورا ہاتھ تھا۔ نواز نے پہلا اوور کیا اور اسکے بعد باؤلنگ کے لیے آیا ہی نہیں۔ اور اوسط درجے کے باؤلر وسیم جونئیر کے آخری اوور بچانے کی تُک بنتی تھی بھلا۔ حسنین وہ باؤلر ہے جسکی گیند پھینکتے Wrist locked نہیں ہوتی اور نتیجتاً لائین و لینتھ پر کنٹرول نہیں رکھ پاتا۔ یارکر لینتھ بال کبھی پاکستانی greats وسیم وقار شعیب کا خاصہ ہوتی تھیں۔ کل ایک حارث کے علاوہ حسنین اور وسیم نے ایک بھی نہیں کی۔
خاص بات یہ انگلینڈ کے بلے بازوں میں جو بھی وکٹ پر آیا یوں لگا کہ ایک کشتی ہے جو ایک سمت میں جا رہی ہے جسکے ہاتھ چپو آتا وہ اسے ایک رفتار سے منزل کی سمت رواں رکھتا۔ پاکستانی بیٹنگ کا آغاز پہلے ہی اوور دنیا کی بہترین کور ڈرائیو کے ماسٹر بابر کا انتہائی عام سے انداز میں اسی فیلڈر کو کیچ پکڑانے سے ہوا۔ اور اگلے ہی اوور میں آف سٹمپ پر گری ہوئی گیند کو آن سائیڈ پر کھیلنے گئے رضوان بولڈ ہو گئے۔
رضوان کا انٹرویو سنا تھا جب ان سے سوال ہوا کہ آپ آف کی بال بھی لیگ سائیڈ یعنی آن پر کھیلتے ہیں تو انہوں نے بڑی روحانیت سے بھرپور لہجے میں کہا کہ اللہ پاک اگر مجھ سے آف کی بال بھی لیگ کی جانب کھیلواتا ہے تو اس میں کسی کو کیا مسئلہ ہے میری مرضی (میری شاٹ میری مرضی)۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جزائے خیر دے جو میرا بھلا چاہتے ہیں۔ یقین کریں صحافیوں کے ایمان و وجدان کا وہ لیول نہیں ورنہ اس طرح کے جواب کے ردعمل میں کم از کم تین نعرے تو بنتے ہیں۔
رضوان کو کل کے dismissal سے پتا چل گیا ہو گا کہ ہمیں کیا مسئلہ ہے۔ اسکے بعد شان مسعود، افتخار، خوشدل شاہ، آصف، نواز اور وسیم ان میں سے کوئی بھی کریز پر میچ جیتنے کے لیے آیا ہی نہیں۔ دو وکٹ ہی انگلینڈ کے گرے تھے دو ہی پاکستان کے لیکن فرق ہے محنت و ریاضت سے حاصل ہونے خود اعتمادی کا جسکے فقدان کا نام ہم پاکستانی مسلمانوں نے توکل رکھا ہوا ہے۔
راقم الحروف پراسیس انڈسٹری میں تکنیکی ملازمت کرتا ہے۔ اس حوالے سے یہ سمجھتا ہے کہ اگر Product اچھی نہ ہو تو Process کو دیکھا بھالا جانا چاہیے۔ اگر ہمارا Process اسطرح کے نچلے اور اوسط درجے کے کرکٹرز پیدا کر رہا ہے تو اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ اسے بہتر بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ اگر سینکڑوں کھلاڑیوں میں یہی گیارہ سب سے بہترین ہیں تو یہ بہت تشویش کی بات ہے۔
کل ہیلز، سالٹ، ملان، ڈکٹ اور بروک نے کوئی پاور ہٹنگ نہیں کی بلکہ مکمل کرکٹنگ شاٹس کھیلے جبکہ پاکستانی کھلاڑیوں کو پاور ہٹرز کے طور پر لایا گیا۔ یہ کیا کہ انکے بیٹسمین Run a Ball کے ساتھ ایک باؤنڈری لگا کر دس کی ایوریج جاری رکھیں اور ہم اپنے نام نہاد پاور ہٹرز پوری سیریز میں منہ ہی دیکھتے رہیں۔ پاکستان کو propper بیٹسمین کی ضرورت ہے جو صورتحال کے مطابق کھیل سکیں وکٹ کے دونوں اطراف سٹروک پلے کر سکیں۔ اور باؤلرز جو کہ جسمانی کے ساتھ ذہنی زور آزمائی کر سکیں۔
ہمارا کرکٹنگ مائنڈ سیٹ دفاعی، ہار سے خوفزدہ، ٹیم ورک سے محروم، خود اعتمادی کے فقدان کا شکار ہے ہمیں اسے تبدیل کر کے جارحانہ، پر اعتماد، ٹیم ورک سے مالا مال اور بھرپور بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی عوام کے لیے کرکٹ ایک تفریح ہے ہر کوئی اس تفریح کے انجام پر جیت کی صورت میں خوشی دیکھنا چاہتا ہے ہار جیت کھیل کا حصہ ہے لیکن یہ کیا کہ آپ مقابلہ کر کے ہارنے کی بجائے ہر بڑے اور فیصلہ کن موقع پر پریشر کو برداشت کر کے اچھا کھیل پیش کرنے کی بجائے یک طرفہ مقابلوں کے بعد آ کر کہیں یہ قدرت کے قوانین کے عین مطابق ہے۔
خدا تو اتنا عظیم ہے کہ کرکٹ سمیت ہر میدان میں انسانی عظمت و برتری کو خود پر ایمان و یقین سے نہیں جوڑتا جبکہ محنت و ریاضت سے حاصل ہوتی خود اعتمادی کی کمی کو خدا پر بھروسے کا نام دے کر اپنی کوتاہیاں مذہب کے پیچھے بھی چھپا لیتے ہیں اور خود کو مذہبی بھی کہلوا لیتے ہیں۔ جب آپ گیند اور بیٹ کی بجائے لوگوں کے مذہبی جزبات سے کرکٹ کھیلیں گے تو سوال تو ہو گا جسکا جواب آپ نہیں دے پائیں گے۔
پسِ تحریر۔ ہم بھی کمال کے لوگ ہیں ہمارے حقوق ادا نہ کرنے والے ہر طبقے کے لوگ مذہب کی آڑ لے کر اپنی کوتاہیوں اور ہماری محرومیوں کو خدا کی رضا کہتے ہیں اور ہم انکی بجائے اپنے درمیان سے اٹھتی آوازوں کو کوستے ہیں۔