Maa
ماں
ہوش کی آنکھ جب کھلی تو کیا دیکھا کہ ایک آغوش میری پناہ گاہ ہے۔ وہ آغوش جس کے لمس نے جنت کا مفہوم سمجھایا۔ ایک جسم ہے جو جزبات و احساسات کا گویا ایک الگ نظامِ شمسی ہے۔ یہ احساس زندگی کا سب سے مسحور کن احساس تھا کہ اس ممتا کے نظامِ شمسی کا محور اس کا شمس اس کا سورج میں تھا۔ یہ تمام جزبات اور احساسات اپنے اپنے مداروں میں میرے گرد گھومتے تھے۔
مجھے نیند آتی تو ان خوبصورت اکھیوں کو بھی قرار آتا اور وہ فطرت کی پالنہار گود میرے لیے کائنات کا سب سے آرام دہ بستر بن جاتی۔ میں جاگتا تھا تو اس جسم کو پہلے سے زندگی کے کھلیان میں جُتا ہوا پاتا۔ مجھے بھوک لگتی تو یہ جسم چولہے کے آگے خود کو ایندھن بنا کر جلانے لگتا۔ ان پھیپھڑوں نے اتنی سانسیں نہیں بھری ہوں گی جتنی اس ریلوے کوارٹر کے ایک کواڑ میں اپنے ہی ہاتھوں سے بنے لکڑیوں کے چولہے میں گیلی لکڑیوں کو پھونکیں ماریں۔
صبح آنکھ کھلنے سے رات سرہانے پہ سر رکھنے تک وہ حسین پیر زمین پر کبھی ٹکتے ہی نہ تھے۔ اولاد کے بخت کے راستے پر چلتے ماں کے پیروں کے تلوؤں پر بننے والے آبلوں پر خدا نے اپنی جنت شاید مرہم کے طور پر رکھی۔ مجھے کبھی چوٹ لگتی تو درد اس تنو مند چہرے پر نمودار ہوتا۔ وہ میری خوشیاں یوں ان شاداب ہاتھوں سے بُنتی جیسے سخت جاڑے کی رُت میں اون سے سویٹر بنے جاتے تھے۔
میری مسکراہٹ پہ کھلتے وہ زندگی سے بھرپور رخسار میری آنکھوں کے بھیگنے سے پہلے تر ہوتے۔ کائنات میں احساس کی اس تیز ترین ٹرانسمیشن کا نام ہی ممتا ہے۔ میرے بچپن کا سارا بوجھ ان مضبوط اعصاب نے خود پر اٹھایا تھا جنہیں کبھی تھکتے نہیں دیکھا۔ کیا بتاؤں میرے بیٹے کی سکول یونیفارم واشنگ مشین میں سرف میں دھل کر اور ڈرائیر میں سوکھ کر بھی وہ اجلا پن نہیں دیتی جو ایک تغاری میں بنے ہوئے صابن سے ایک گھسے ہوئے برش کے ساتھ میری سکول کی وردی دیا کرتی تھی۔
زندگی تب ان ہاتھوں سے توانائی کشید کرتی تھی جن پر بخت کی لکیریں نہیں جفا کا زائچہ تھا۔ یوں لگتا تھا کام، کام اور بس کام قائد اعظم نے صرف میرے ماں باپ سے کہا ہو۔ میں اپنے بچوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ اوون کی شعاؤں میں پکے پیزے اور برگر کی خو شبو میں رچے بسے تمہارے نتھنے توے کو ایک طرف کر کے گیلی لکڑیوں کے ساتھ اپنی سانسوں کا ایندھن جلا کر سینکے گئے پُھلکوں کی مہک کیا جانیں؟
مجھے عادل خدا پہ یقین ہے کہ ان گیلی لکڑیوں کے کڑوے دھوئیں سے نکلتے آنسوؤں کو اپنی بارگاہ میں بہنے والے آنسوؤں سے کمتر نہیں جانے گا۔ وہ برقعہ اللہ اللہ۔ گمنام لکھاری کے اندر عشق کا اک روگ اور یادوں کا سنجوگ جتنا اس برقعے نے جگایا شاید ہی کسی اور شے نے جگایا ہو۔ اس برقعے میں ملبوس ماں کو ایک رات کے لیے بھی دور جاتے دیکھ کر رہا نہیں جاتا تھا۔ نہ جانے کیا نفسیاتی عارضہ تھا اس برقعے کے ساتھ جڑا ہوا؟
وہ برقعہ خواب نگر ملکوال کے بازار سے اسٹیشن تک سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں بھی بینائیوں کو صدا دے دیتا تھا۔ خدا امی کو زندگی دے کہ یوں لگتا ہے کہ میدانِ حشر میں بھی ماں اس برقعے میں ہوئی تو میری آنکھیں اس تلک راستہ بنا لیں گی۔ لباس کو عورت کی عصمت سے نہ جوڑنے کی سوچ کی حمایت میں لکھنے پر سوشل میڈیا پر اس ضمن میں گرے ہوئے طعنے دینے والے کیا جانے کہ وہ برقعہ کیا تھا۔
ریلوے کالونی کا کوارٹر نمبر 54 اے۔ یہ آنگن کائنات کا وسیع ترین آنگن تھا۔ اندازہ لگائیں جفاؤں کی ایک نئی تاریخ رقم کرتی ہماری ماں نے یہاں ایک بھینس بھی پال رکھی تھی کہ ہمیں تازہ دودھ ملتا رہے اور امی اپنے اباجی کی یادوں کو تازہ کرتی رہیں۔ یہ بھینس ایک بار گم گئی یا شاید چوری ہو گئی۔ امی روتی جاتیں، کچھ پڑھتی جاتیں اور پوچھتے پچھاتے آگے بڑھتی جاتیں۔
اپنی ماں کی کھوجی کی صلاحیتوں کا اعتراف مجھے اس دن ہوا جب امی مجھے لے کر کھرے ڈھونڈھتی ڈھونڈھتی دریا پر پہنچ گئیں۔ وہ منظر یاد آتا ہے تو آج لکھتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو رہے ہیں کہ خواب نگر کے باسی ہی جانتے ہیں کہ ملکوال سیم نالہ جس مقام پر دریا سے ملتا تھا وہاں پر ایک چھوٹا سا پل بڑی گہرائی میں جا کر موجود تھا، اونچائی پر کھڑے ہو کر سارا دریا بیلے تک نظر آتا تھا۔
امی میرے ساتھ اس جگہ کھڑی تھیں اور بھینسوں کا ریوڑ دور دریا کے وسط میں پہنچ چکا تھا اگر ہم چند منٹ دور ہوتے تو بھینس بیلے میں پہنچ جاتی۔ امی نے زور سے "چنو" کہا اور بھائیو بہنو ناقابلِ یقین طور پر کوئی ایک آدھ کلومیٹر دور ادھر سے اس ریوڑ میں سے ایک بھینس دوڑتے ہوئے نکلی اور ادھر سے میری ماں کی چیخ۔ ہائے ہائے کوئی فلمی منظر تھا کاش کہ میری انگلیوں کی پوروں کے اشاروں پر ناچتا موبائل تب ہوتا لیکن پھر شاید ان یادوں کی وہ اہمیت نہ ہوتی۔
آج میں بیالیس برس کا ہوا۔ یادوں کے سفر میں ایک ایسے سنگِ میل پر جہاں سے آگے کا سفر پیچھے دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ خود کو یاد کرتا کرتا انسان آخر کار ایک یادگار ہو جاتا ہے۔ کل ماں کا عالمی دن تھا میری بیٹی نے دو کارڈز بنائے ایک اپنی ماں کے لیے ایک میری ماں کے لیے۔ اپنی ماں کے لیے بنائے گئے کارڈ پر اس نے خود خراجِ تحسین لکھا میرا کارڈ خالی چھوڑ دیا، کارڈ اپنے سامنے رکھ کر میں لکھنے بیٹھا تو یہ داستان میرے ذہن میں آئی۔ ذہن میں کیا آئی کہ کبھی بھولی ہی نہیں۔
آج جب میں نے حقیقی ہوش کی آنکھ کھولی تو دیکھا کہ اب وہ جسم اپنی تمام توانائیاں کھو چکا۔ وہ رعنائیاں نچھاور کر چکا لیکن کہاں، کیسے، کس پر؟ کوئی بھولے تو بھولے کیسے؟ کون کم بخت فراموش کر پائے؟ ہاں میں اقرار کرتا ہوں ان کالی سیاہ حسین زلفوں نے اپنی سرمگی میرے بالوں میں اتار کر سپیدیءِ سحر کی چادر اوڑھ لی۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ ان خوب صورت اکھیوں میں میری حیات کے چمن میں موتیے کے پھول بکھیرتے موتیا اترا۔
میں دل و جان سے مانتا ہوں کہ اس چہرے پر یہ جھریاں، یہ سلوٹیں دراصل میرے بخت ہی کا وہ زائچہ ہے جسے اس ماں نے اپنے چہرے پر ثبت کر لیا۔ مجھے روح کی حدوں تک معلوم ہے کہ ان ہاتھوں اور پیروں میں موجود زندگی کی رمق میرے جیون کے کھلیان میں کرنوں کی فصل بونے میں سرف ہوئی۔ میں کیسے انکار کر سکتا ہوں کہ اس مقدس بدن کا لہو ایندھن بن کر رگِ جاں کو حرارت دیتے چولہوں سے لے کر اندھیری راہوں میں جلنے والے چراغوں میں جلا ہے۔
جنت کی سہیلی وہ ممتا بھری آغوش اخلاص اور محبت کی ساری حرارتیں مجھ پر لٹا کر ہی سرد ہوئی۔ اور ہاں کیسے بھول سکتا ہوں کہ مجھے شاعر اور لکھاری بھی تو اسی ماں نے بنایا کہ نویں جماعت میں، میں پڑھتا تھا یہ 1995 کی بات ہے کسی بات پر وہ مجھ سے شدید خفا ہوئیں اور بات کرنی چھوڑ دی۔ کھانے کا وقت ہوا تو میری روٹی بھی ویسی ہی گرما گرم دیسی گھی سے چپڑی ہوئی جیسے مجھے انعام کی طرح عطا ہوئے میرے جڑواں جگری یارِغار کی۔
اس پر میں نے سوچا اعلٰی ظرف خدا بھی تو ایسے ہی کرتا ہے جتنا بھی ناراض ہو اپنے اختیار میں موجود رزق تو نہیں روکتا۔ بس پھر اسی مرکزی خیال پر میں نے اپنی زندگی کی پہلی نظم لکھی "ماں اور خدا"۔ لکھ کر ماں کو پڑھائی تو ان کی آنکھوں کے آنسو خفگی کا بند بہا کر لے گئے۔
سوچتا ہوں کاش کہ کوئی ماں کبھی بوڑھی نہ ہو۔ وہ پہلا منظر، وہ سماں، وہ ماں ہمیشہ سب کچھ ویسا ہی رہے۔ سال میں صرف ایک نہیں ہر ایک دن ماں کا دن ہو۔ لیکن سال کے ہر دن بھی ہم اس ماں کا دن منا کر اس ایک دن کی قیمت نہیں چکا سکتے جو ہماری ماں کا ایک دن تھا۔ ہیپی مدرز ڈے۔ Happy Mother's Day ایک نظم اپنی اور آپ کی ماں کے نام۔
میں نے جب آنکھ کھولی تو دیکھا یہاں
ایک آغوش ہے میرا سارا جہاں
اک محبت کا ہے جس پہ ہر پل سماں
اک جواں سال عورت جو ہے میری ماں
جس کا چہرہ وہ جیون سے بھرپور تھا
جس پہ ممتا کے جوبن کا اک نور تھا
اس کی آنکھوں میں ہر دم اجالے تھے تب
بال اس کے چمک دار کالے تھے تب
ہاتھ پاؤں بہت اس کے شاداب تھے
اور مضبوط لوہے کے اعصاب تھے
سارا دن بھاگتی تھی وہ میرے لیے
رات بھر جاگتی تھی وہ میرے لیے
اپنا خون اور پسینہ بہاتی رہی
خود کو ایند ھن بنا کر جلاتی رہی
اپنا جوبن مجھے سونپتی جو رہی
آج میں ہوں جواں اور وہ بوڑھی ہوئی
اس کی آنکھوں میں وہ روشنی اب نہیں
اب وہ تابندگی کھو گئی ہے کہیں
اس کے چہرے پہ ہے ایک جھریوں کا جال
ہیں سفید اب ہوئے اس کے کالے وہ بال
ایک لرزش سی اب اس کے ہاتھوں میں ہے
اک تھکن سی سدا اس کے پیروں میں ہے
اک تھکاوٹ بھرے اس کے اعصاب ہیں
وہ سبھی معرکے اب فقط خواب ہیں
کھو گئیں سب کی سب وہ توانائیاں
اس نے مجھ پر لٹا دیں وہ رعنائیاں
بوڑھی ہو کر جواں اس نے مجھ کو کیا
اپنا جوبن یہاں اس نے مجھ کو دیا
کچھ بھی ہو جائے میں جھول سکتا نہیں
میں وہ اک ایک پل بھول سکتا نہیں
کاش بوڑھی نہ ہو وہ جواں ہی رہے
زندگی بھر یہاں وہ سماں ہی رہے
کوئی دن بھی نہ ہو بس یہاں اس کے بن
سارے عالم میں ہو ہر دن ماں کا دن۔