Khuda Tere Naseeb Ache Kare
خدا نصیب اچھے کرے
"خدا نصیب اچھے کرے" یہ دعا صرف بیٹیوں کے لیے مختص ہے۔ اسکا کیا مطلب ہے؟ کیا بیٹوں کو اچھے نصیب کی ضرورت نہیں؟ یا جو دعائیں بیٹوں کو دی جاتی ہیں ان پر بیٹیوں کا حق نہیں؟
سوال یہ ہے کہ بیٹوں کا مستقبل محنت، لگن، کاوش، جستجو سے جڑا ہے تو بیٹیوں کا محض نصیب سے کیوں؟ غور فرمائیے کیوں؟ کیونکہ بیٹی ایک عورت ہے اور یہاں عورت کا مستقبل مرد طے کرتا ہے کیونکہ مرد یہاں برتر ہے اور عورت کمتر۔ اس لیے دعا اسکے ذاتی انسانی خصائل پر مبنی ہونے کی بجائے "نصیب" کی دی جاتی ہے۔
جنوبی ایشیائی نصیب کے متعلق میرا ماننا یہ ہے کہ ہم نے انسانی فہم و فراست پر مبنی عملی اقدامات کے فقدان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلا کو "نصیب" کے لفظ سے پر کر رکھا ہے۔
مردانہ برتری کے مارے ہوئے سماج نما اس دشت پر غور فرمائیے تو پتا چلتا ہے کہ عورت کو سہمانے، خوفزدہ کرنے اور صنفی احساسِ کمتری کا شکار کرنے کا زندگی بھر کا ایک انتظام موجود ہے۔
سب سے افسوسناک امر دینِ مساوات کی اس جغرافیائی تفہیم کے تحت عورت کو ایک کمتر مخلوق بنا کر پیش کرنا ہے۔ سیاق و سباق سے ہٹ کر اپنی اپنی روائیتی عصبیتوں کے زیرِ اثر کی گئی مزہبی تشریح میں عورت کہیں تو ناقص العقل ہے اور کہیں اسکی گواہی ہی آدھی۔ بھلا ہو غامدی صاحب کا جنہوں نے اسلام کو ان عصبیتوں اور فرقوں کے چنگل سے نکالنے کی گراں قدر سعی کی۔
ایک بچی اپنے آپ کو اس وقت ایک غیر مطلوبہ وجود سمجھنے لگتی ہے جب اسکے کانوں میں خدا کے گھر سے اولادِ نرینہ کی دعائیں آتی ہیں۔ چھوٹی سی ایک بچی کے کانوں میں جب یہ نام نہاد نصیب کی دعا پڑتی ہے تو اسکے معصوم سے ذہن میں ایک بات لاشعوری طور پر گھر کر جاتی ہے کہ اسکا مستقبل نصیب نامی کسی غیر مرئی شے سے جڑا ہے۔
تھوڑی بڑی ہوتی ہے تو مردانہ برتری کے مارے اس سماج نما دشت میں"حیا" کی آڑ میں اسکی صلاحیتوں کے پر کاٹنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اس نام نہاد حیا کے نام پر کی گئی ہمہ وقت کی روک ٹوک اسکی طبیعات کو ایک دفاعی حالت میں لا کھڑا کرتی ہے۔
پھر اگلا مرحلہ اسے یہ باور کروانا ہوتا ہے کہ وہ ایک اور نام نہاد اور کھوکھلی سی خودساختہ شے، غیرت کا کھوکھلا پن بھرنے والا کوئی مادی مواد ہے۔
آخری بات جو اسکی شخصیت کے سمندر کو مکمل طور پر ایک کوزے میں بند کرکے مردانگی کے دسترخوان پر چن دیتی ہے وہ یہ ہوتی ہے کہ اسے ایک ایسے ان دیکھے، انجانے گھرانے میں بیاہ کر جانا ہے جہاں اس نے اپنے عورت پیدا ہونے کے تاوان کی آخری قسط بقیہ عمر سے بھرنی ہے۔
سو ایک بچی کو بچپن ہی میں بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک خود اعتمادی سے محروم کرکے اسے دوسرے درجے پر فائض کر دیا جاتا ہے۔ خود اعتمادی، پیشہ ورانہ تعلیم، شادی میں پسندیدگی، باپ کے ترکے میں حق، سسرال میں مساوی حقوق جیسی تمام محرومیوں سے گزر کر جب وہ ایک ماں بننے لگتی ہے تو اس احساسِ کمتری و بے وقعتی کے تابوت میں اس سماجی ناسور کا آخری کیل خود اپنے ہاتھوں سے تب ٹھونکتی ہے جب وہ ایک مرد کی ایک بیٹے کی دعا مانگتی ہے۔ تاکہ اسے بیٹی پیدا کرکے یہ نہ کہنا پڑے کہ خدا اسکے نصیب اچھے کرے کیونکہ اسکی حیات اس نام نہاد دعا کا کے رد کا سب سے بڑا ثبوت ہوتی ہے۔