Karsaz Hadsa
کارساز حادثہ
او غریبو! چلو ہٹو تمہارا کیا کام ان شاہراہوں پر ان سڑکوں پر۔ اپنی کچی پکی پگڈنڈیوں پر جا کر رینگا کرو، گندی مندی گلیوں میں جا کر اپنی ایڑھیاں رگڑا کرو۔ یہاں اپنی کیڑے مکوڑوں جیسی سائیکلیں، موٹر سائیکلیں اور رینگتے ہوئے پیر لے کر آ جاتے ہو اور بڑی بڑی چمچماتی گاڑیوں کے راستے میں آ کر بلا وجہ مہنگے جوتوں والے نازک پیروں کو بریکوں پر آنے کی تکلیف دیتے ہو۔
کمال ذہنیت ہے یہاں کے امراء کی۔ سمجھتے ہیں مفلسوں کا کام صرف ان شاہراہوں میں اپنے خون پسینے سے بجری، لوہا، ریت اور چارکول خرید کر دینا اور ان میں اپنا آپ جوتنا ہے۔ اسکے بعد یہ شاہراہیں ان امیروں کے باپ کی جاگیر۔ غریب جیتے جی ان سڑکوں میں خون پسینہ شامل کرتے ہیں مگر شاید کچھ کسر رہ جاتی ہے اس لیے شاید سڑکوں میں آنے والے گڑھے اور دراڑیں انکے بدن کچل کر بھری جاتی ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس ملک میں ہر 100000 میں سے 14 افراد ہر سال سڑک حادثوں کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ تعداد مجموعی آبادی کی شرح سے 34000 بنتی ہے۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس پی بی ایس کے مطابق یہ تعداد ہر سال کی تفریق کے ساتھ اوسطاً 15000 ہے۔ الامان الحفیظ۔ اتنے لوگ اس ملک کی سڑکوں پر بے موت مارے جاتے ہیں۔ یہ ہے زندگی کی ارزانی کا عالم۔
ان ہزاروں میں تازہ ترین ایک موٹر سائیکل پر پاپڑ چپس بیچنے والا اور اسکی بیٹی تھے۔ اسی موٹر سائیکل پر جس پہ وہ پاپڑ چپس سپلائی کرتا تھا اپنی اس بیٹی کو یونیورسٹی سے واپس لا رہا تھا جس بیٹی نے باپ کی اس مشقت کو یوں امر کر دیا تھا کہ ایم بی اے کرکے اپنی سپیشلائزیشن کے خواب کی آبیاری اپنی ہمت سے کر رہی تھی۔
یہ اس ملت کے ایک غریب کی بیٹی تھی۔ باپ کے ساتھ مستقبل کے خواب سجائے موٹر سائیکل پر نہ جانے کیا سوچتی جا رہی ہوگی کہ پیچھے سے دولت کے نشے کو مبینہ طور پر آئس کے نشے سے دو آتشہ کرکے ایک امیر زادی آئی اور ان دونوں باپ بیٹی زندہ درگور کر دیا۔ جنکی زندگی باہم ان سڑکوں پر مشقت کا معرکہ تھی انکی موت بھی انہی سڑکوں پر ایک ساتھ ہوئی۔ ان بے چاروں کے علاوہ ایک اور شخص بھی جان سے گیا اور پانچ افراد اور بھی شدید زخمی ہیں۔
کچھ سانحات ذاتی تجربات کے زخم ہرے کر دیتے ہیں۔ راقم الحروف کو کوئی پندرہ برس قبل کی وہ چاند رات نہیں بھولتی جب موٹر وے پر راولپنڈی سے آتے میرے بھائی اور بھابھی کی کار کو سالٹ رینج میں ایک لیٹر ڈیزل بچانے کی غرض سے گاڑی نیوٹرل کرکے آتے ویگن ڈرائیور نے پیچھے سے ہٹ کیا تھا۔ جسطرح تب دیانتدار سمجھی جاتی موٹر وے پولیس نے الٹا اس ڈرائیور کے مالک ٹرانسپورٹر کا ساتھ دیا تھا اور ہمیں ہی صلح صفائی کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔ عید کی غارت گری سے لے کر مالی نقصان اور شدید بے وقعتی کے احساس سے لبریز آخر یہی سوچا تھا کہ اس ملک میں جان بچی سو لاکھوں پائے۔
ایک اور واقعہ اس سے بھی دردناک۔ ایک پرانے دوست نے رابطہ کیا کہ بھلوال کے رہائشی اسکے برادرِ نسبتی اور اسکے ایک دوست کو رانگ سائیڈ سے آتی اے سی کوچ نے دوسری گاڑی سے ریس لگاتے کچل دیا تھا اس پر ویڈیو بنانی تھی۔ اسکا برادر نسبتی چھوٹے چھوٹے تین بچوں کا باپ اور اسکا ساتھی چھے بہنوں کا اکلوتا بھائی اور بوڑھے ماں باپ کی واحد آس تھا۔ دو خاندانوں کو اڈے پر چند ٹکوں کی سواریاں حاصل کرنے کی وحشی سبقت نے زندہ درگور کر دیا تھا اور اسکے بعد بے چارے، مجھ جیسوں سے ویڈیو بنوا کر انصاف کے لیے سوشل میڈیا کا در کھٹکھٹاتے رہے۔ موت وائرل ہوئی موت کی خبر نہیں۔ حاصل وہی بے بسی و بے توقیری۔
فیس بک پر قانونی رہبر جناب طاہر چوہدری صاحب نے لکھا کہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 320 لگتی ہے سڑک حادثے کی صورت جس پر سزا 10 سال ہے مگر یہ قابلِ ضمانت ہے۔ دوسرے دن ملزم اسی گاڑی پہ بیٹھ کے اپنے گھر چلا جاتا ہے اور مقتول و مضروب کے لواحقین انہی سڑکوں پر ایڑیاں گھستے رہتے ہیں انصاف کے لیے۔ دفعہ 322 لگتی ہے جو ناقابلِ ضمانت ہے مگر "دیت" کے ساتھ اس میں بھی بندہ چھوٹ جاتا ہے۔ یہاں ضمانت صرف اس خاندان کی نہیں ہوتی جنکا کفیل چھن جاتا ہے اور اچانک بھوک، لامکانی، احتیاج اور یادیں گھر میں ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔
عجیب نظام ہے۔ کہیں روٹ لگا کر گھنٹوں ان سڑکوں پر تذلیل کی جاتی ہے۔ کہیں بندوقوں کے اشاروں سے ہٹو بچو کی نخوت بھری صدائیں دی جاتی ہیں اور کہیں یوں زندگی کے خوابوں اور ہمت کی داستانوں سمیت کچل کر لاشوں کو نوٹوں میں تول کر انہی گاڑیوں میں آگے نکل جاتے ہیں۔
آپ اندازہ کیجیے کہ کارساز حادثہ کی ملزمہ نتاشا جو کہ میٹروپاور کے دانش بیگ کی بیوی ہے اسے کتنا یقین تھا اپنی دولت اور ریاستی قانون پر کہ عمران عارف اور انکی بیٹی آمنہ عارف کو کچل کر بھاگنے کی کوشش میں باقی پانچ افراد پر چڑھ دوڑی۔
آپ اس سے بھی یہاں انسانی حیات کی وقعت و قیمت کا اندازہ لگائیے کہ تین افراد کو قتل کرکے پانچ کو شدید زخمی کرکے ملزمہ نتاشا کو ذہنی مریض قرار دلوانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آپ اندازہ لگائیے کہ ایک ذہنی مریضہ کو اجازت ہے کہ سڑکوں پر قتلِ عام کرتی پھرے اور پھر ایک سرٹیفیکیٹ دے کر چلتی بنے۔ او بھئی ذہنی مریض وہ نہیں ہم ہیں، ہم کروڑوں لوگ جو روزانہ ان سڑکوں پر تمہیں اپنی زندگیاں خاموشی سے کھیلنے کے لیے دیتے ہیں اور جن سے اس متعلق قانون سازی کرنے اور قوانین پر عمل کروانے کا مطالبہ کرنا ہے انکے لیے انہی سڑکوں پر لگے روٹوں میں کھڑے ہوتے ہیں۔