1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas Rashid
  4. Jazak Allah Ghamdi Sahab

Jazak Allah Ghamdi Sahab

جزاک اللہ غامدی صاحب

خدا نے جنابِ آدم کو زمین پر بھیجتے ہوئے کہا "نیچے اتر جاؤ اور میری طرف سے ہدایت آنے کا انتظار کرو"۔ غور فرمائیے گا۔ غلطی ایک ہی تھی "حکم عدولی"۔ ابلیس نے بھی حکمِ خدا کو نہیں مانا جنابِ آدم نے بھی۔ مگر نتائج مختلف۔ ایک مردود ٹھہرا دوسرا زمین پر پہلا پیغمبر۔ مگر کیسے؟ وہ ایسے کہ ابلیس غلطی پر اکڑ گیا اور جنابِ آدم نے "ربنا ظلمنا" کے اعترافِ جرم کے ساتھ "من الخسرین" سے بچنے کے لیے خدا سے "وغفرلنا ورحمنا"کی درخواست کی۔ اس واقعے سے انسانی حیات کبر و عجز کے دو متضاد فلسفوں سے روشناس ہوتی ہے۔

ایک پل یہیں رکیے گا۔ آدم کو تو ابلیس نے بہکایا، ابلیس کو کس نے بہکایا تھا؟ جی ہاں۔۔ آپ جانتے ہیں ابلیس کو اس تکبر نے بہکایا تھا، جو اسے اپنی صفات پر تھا، اپنی عبادات پر تھا اور اپنی ذات پر تھا۔ یہ تکبر ہی ابلیسیت ہے۔

پھر خدا نے انسانیت کے لیے "علم" کو اس ہدایت کا ذریعہ بنایا۔ غور فرمائیے تو یہ پوری کائنات اسی نظمِ علم کے گرد گھوم رہی ہے۔ خدا نے جنابِ آدم سے محمد رسول اللہ ﷺ تک لگ بھگ سات ہزار سال میں اسی علم کے ذریعے اس ہدایت کو تکمیل تک پہنچایا۔

خدا نے آدم سے محمد رسول اللہ ﷺ تک ہر عہد میں کسی ایک شخص کو اپنے نبی یا رسول کے طور پر چنا۔ انہیں اپنا پیغام دیا۔ وہ پیغام انہوں نے لوگوں تک پہنچایا۔ چار کتابیں آسمان سے نازل کیں۔ یہاں تک کہ خاتم النبین ﷺ پر قرآنِ مجید کو نازل کرکے اسکی حفاظت کا ذمہ خود لے کر ابدی شریعت بنا دیا۔ اسے اسلام کہتے ہیں۔ سلامتی کا دین۔

ازل سے ابد تک کی اس تخلیقِ کائنات کی ساری روداد کو اختصار سے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ "خدا نے انسان کو پیدا کیا، اب خالق و مخلوق کے درمیان تعلق کو "علم" پر استوار کیا۔ انسانیت کے بنیادی اصول اسکی فطرت میں ودیعت کرکے ایک ہدایت نامے کی صورت سلامتی کا دین اتارا۔ اب اس ہدایت نامے کی روشنی میں انسان کو اپنی فطرت میں ودیعت کردہ علم کے نتیجے میں اپنے اعمال کا ایک دن اسکے سامنے جواب دینا ہے۔ کہانی ختم۔

خود غور فرمائیے کہ جنابِ آدم کو اپنا علم دے کر ایک علامتی سجدے سے لے کر محمد رسول اللہ ﷺ کے "انا بعثت معلما (ترجمہ) مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے" تک یہ علم ہی ہے جو کہ اس سارے نظام کا محور ہے اور خدا ہی ازلی معلم و مدرس ہے۔

اب اس ساری فلاسفی کے تناظر میں اس سے اگلا سفر نامہ لکھتے پڑھتے ہیں۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس قرآن اور اپنی سنت کے "اسوہ حسنہ" ہونے کی جو حاکمیت حاصل تھی۔ اس سے اسلامی تشخص کے قیام میں کوئی ابہام نہیں تھا۔ انکے جانے کے بعد انسانوں پر ایک بہت بڑا امتحان اس حاکمیت کی عدم موجودگی میں دین بنیادی کے بنیادی فلسفے سے جڑے رہ کر اس تشخص کو قائم رکھنا تھا۔ جو بدقسمتی سے حوادثِ زمانہ کی نذر ہوا۔ اگر انسانیت کہیں رک کر حساب کتاب لکھنے بیٹھے تو اس سے بڑا زیاں کوئی نہ پائے گی۔ بد بختی کہیں اگر پوری اوج پر ملتی ہے تو مسیلمہ کزاب کے گرد جمع چالیس ہزار گردنوں کے طوق کے طور پر۔ اس پر تحقیق کرکے ایک الگ مضمون لکھنا چاہتا ہوں۔

خدا کہتا ہے "ہم نے قرآن کو واضح عربی میں نازل کیا"۔ غور فرمائیے کہ عربی میں نازل شدہ قرآن اور سنت کے عینی شاہدین عربوں میں اختلاف و انتشار جنگِ یمامہ سے، جنگِ سفین و جمل اور شہادتِ عثمانِ غنی سے سانحہِ کربلا تک کیوں محیط ہے۔

طالبعلم لکھ چکا کہ رسالت ماب ﷺ کی اس پیغمبرانہ حاکمیت کی عدم موجودگی میں عاجزی کے ساتھ علم کے راستے سے جڑے رہنے سے جو طالبعلمانہ خو درکار تھی وہاں غیر علمی رویہ در آیا۔ اس رویے میں علم پیچھے رہنے لگا اپنی اپنی ذاتیں حاوی ہونے لگیں اور نتیجتاً اسلام جیسے دین میں ملوکیت و بادشاہت کا ظہور ہوا۔ اب ملوکیت علم، استدلال، تحقیق، شعور اور آگہی کی بجائے صرف مفاد کے زیرِ اثر طاقت کے اصول پر کار فرما ہوتی ہے۔ سو افردی سطح پر غیر علمی رویہ ہو یا ریاستی و خلافتی سطح پر ملوکیت دونوں اسلامی تشخص کے معکوس سفر کا باعث بنے اور ہم جان چکے کہ اپنی ذات کا اسیر ہونا آخر خدا کے مقابل لا کھڑا کرتا ہے۔

زبان کسی بھی جگہ انسانی حیات کا بنیادی محور ہوتی ہے، کیونکہ یہ علم کا ذریعہ ہوتی ہے اور ہم جان چکے کہ علم پر خالق و مخلوق کا تعلق استوار ہے۔ مزید برآں مخلوق سے مخلوق کا ربط بھی اسی سے عبارت ہے۔ جب "عربیِ مبین" والوں کے ہاں معاملات اس نہج پر تھے تو اردو، فارسی، ہندی، سنسکرت وغیرہ والوں پر کیا بیتنی تھی۔ قرآن کی تفاسیر احادیث و روایات کی روشنی لکھی جانے لگیں۔

اسلام اپنے دامن میں اس طرح کی کئی تاریخی ستم ظریفیاں لیے پورے عالم میں پھیلنے لگا۔ جب یہ راقم الحروف کے خطے میں داخل ہوا تو یہاں ایک ایسا تمدن قائم تھا، جس میں انسانوں کے درمیان عدم مساوات گویا تہزیب کے درجے پر فائض تھی۔ اس کے رسوخ کا عالم یہ تھا کہ یہاں رائج مذہب میں بھی یہ تاثر عمومی مشاہدے کی بات تھی۔

ہم جان چکے کہ ایک غیر علمی رویہ تو پہلے سے ہی بدقسمتی سے مذہبی اندازِ فکر کا حصہ بن چکا تھا۔ اس پر رہتی کسر یہاں کے جغرافیائی حالات کے زیرِ اثر انسانی نفسیات نے پوری کر دی۔ اس نفسیات میں مذہبیت کی تسکین ظاہر پرستی سے ہوتی ہے۔ یہاں پوجنے کے لیے آپکو کچھ نہ کچھ مرئی درکار ہے۔ کوئی پہنچا ہوا ہمیں خدا تک پہنچا دے بس۔ سو ہر "پہنچا ہوا" وہاں پہنچ گیا جہاں اپنی ذات کی خو انسان کو پہنچاتی ہے۔ ایسے میں جناب آدم سے محمد رسول اللہ تک ہدایت کا دین ایک ظاہری نمود نمائش کا بیوپار بن گیا۔ مسلکی عصبیتوں کے زیرِ اثر ایک معاشی نظام۔ اب انکے معاشی نظام پہ حملہ اسلام پر حملہ ہے اور انکی ذات پہ حملہ گویا خدا پر حملہ (معاذاللہ)۔ وگرنہ کس کی جرات تھی کہ "لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ" کی قرآنی مہر کے بعد اپنے نام کے ساتھ پیرِ طریقت لکھواتا روضہ رسول ﷺ کے ہوتے اپنا دربار بنواتا، خدا کے گھر کے مقابل اپنا در لا کھڑا کرتا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دین کا ہر طالبعلم "انا بعثت معلما" کی سند والے رحمت للعالمین کو استاد مانتے ہوئے خود کو طالبعلم کہتا اور طالبعلم زندگی بھر سیکھتا رہتا ہے۔ ہم جان چکے خدا اور انسان کے درمیان تعلق علم پر استوار ہے سو "طلب" دراصل ایک جستجو کا فلسفہ ہے۔ یہ خدا کے حصول کا سفر ہے۔ جسکی منزل کا تعین خدا ہی کرے گا اور ظاہر ہے وہ روزِ جزا ہی کو ہوگا۔ اس سے پہلے کا ہر دعویٰ دراصل اس دعویٰ کی میراث ہے۔ جو اس کائنات کے آغاز کا باعث بنا تھا۔ جو اس دعویٰ کی وجہ سے پہلے خود بھٹکا پھر آدم کو بھٹکایا۔ دعویٰ کبر ہے۔

وہ جن آئمہ کرام کی تفاہیم و تفاسیر کی بنیاد پر آج یہاں سلامتی کے دین کی ضد تفرقہ بازی رائج ہے، کہیں پڑھا تھا کہ ایک دوسرے کی رائے کا اس درجہ احترام کرتے تھے کہ ان میں سے ایک صاحب کے کرتے پر خون لگا ہوا تھا تو دوسرے امام صاحب کے ہاں پہنچے اور نماز کا وقت ہوا۔ میزبان مہمان کو امامت کے لیے کھڑا کرکے خود مقتدی بن گئے۔ لوگوں نے کہا آپ تو کہتے تھے کہ کرتے پر خون ہو تو نماز نہیں ہوتی اور امام صاحب کہتے ہیں، ہو جاتی ہے تو کہا ہو سکتا ہے وہ ٹھیک کہتے ہوں۔

ابلیست خدا کے راستے میں اپنی ذات کو لے کر آنا ہے آدمیت اسے ظلم و خسارہ قرار دے کر جھکنا اور مغفرت کی التجا کرنا ہے۔ طالبعلم اپنی ذات کو اختلاف یا تنقید سے کوئی بالاتر شے نہیں سمجھتا، خود کو معاذاللہ خدا بنا کر پیش نہیں کرتا۔ اسکا مطلب ایسا کرنا اس علم کا تضاد ہے، جس پر انسان اور خدا کا تعلق قائم ہے۔

آج کے دور میں ایک ایسے طالبعلم کا مشاہدہ کار ہوں، جنہوں نے ایک ایسے رویے سے رشک میں مبتلا کر دیا جسکے بارے میں تاریخِ اسلامی تو میری بساط سے باہر ہے مگر تاریخِ پاکستانی کے بارے میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ کاش اگر اس رویے پر "دینِ علم" سے متعلق تمام لوگ عمل کریں تو پاکستان آنے والے وقت میں مسلمانوں کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال بن سکتا ہے۔

اسلام کو وقار اور تشخص نہ تلوار سے حاصل ہوا تھا نہ مسلمانوں کا کھویا ہوا وقار اور تشخص اس سے حاصل ہوگا۔ بلکہ اس مضمون میں ہم پرکھ چکے کہ اسلام کی شناخت "علم" ہے اور مسلمانوں کا تشخص "طالب علم" ہونا ہے۔

غامدی صاحب خود کو طالبعلم کہتے ہیں۔ دو مسلمانوں کے درمیان "فیض" کے رشتے کو "زیادہ سے زیادہ استاد اور شاگرد" کے ساتھ تعبیر کرکے ذات کی تشہیر و ترویج کی نفی کرتے ہیں۔ آج انہوں نے خود پر ہونے والی تمام تنقیدات کو بذاتِ خود جمع کرکے اسے ایک کتاب کی شکل دے کر ثابت کر دیا ہے کہ خود کو طالبعلم کہنا آسان ہے عملی اظہار یقینا مشکل ہے۔

تفرقہ بازی، مذہبی منافرت اور شدت پسندی معاشی عصبیت کے تحت اپنی ذات کو علم پر ترجیح دینے کا نتیجہ ہوتی ہے یاد رہے کہ کائنات میں پہلا فرقہ فرشتوں اور جنوں کی جماعت میں سے بنا تھا۔ اپنی ذات کی بنیاد پر، کبر کی بنیاد پر۔ اس فرقے کا نام ابلیسیت تھا۔ سو غامدی صاحب نے اس عجز و حلم سے فرقہ بازی یعنی ابلیسیت کی تنسیخ کی ہے۔ یاد رہے آدم کو سجدہ اسی علم کو سجدہ تھا۔ خدا اس آدمی کی علمیت و عبادت قبول کرے۔

Check Also

Neela Thotha

By Amer Farooq