Ishq
عشق
یہ شمس آباد ہے۔ یہاں نو گلیاں ہیں۔ دائروں کی صورت میں۔ تخلیق کار نے آرٹ کی سائنسی انتہا کر دی یہاں۔ یہ دائرے دراصل ایک روشنی اور حرارت کے دیوتا کے گرد قائم مدار ہیں۔ جسے سورج کہتے ہیں سورج یعنی شمس، اسی کے نام پر یہ سارا نظام ہے جسے نظامِ شمسی کہتے ہیں۔
سنا ہے پہلے یہ تمام ایک گولے کی صورت میں یکجا تھے تخلیق کار نے پھر اس گولے میں جو توانائی بھر رکھی تھی اسے پھاڑا ایک زور دار دھماکہ ہوا، پوری کی پوری کائنات لرز کر رہ گئی یہ دھماکہ مگر اس ترتیب سے ہوا اس نظم سے معرضِ وجود میں آیا کہ آج کے ایٹمی دھماکوں اور میزائل ٹیکنالوجی کے شاہکار بھی ششدر۔ توانائی، روشنی، کشش، حرکت اور مقصدیت کا ایک شاہکار تال میل۔ یہی تال میل تو زندگی ہے اور اس زندگی کا ہی خواب دیکھا ان دائروں میں بستی ایک حسینہ نے، جس کے حسن کی مثالیں پورے شمس آباد میں دی جاتیں تھیں۔
اس کا نام کشور ہے، کشورِ حسین شاد باد۔ کشور یعنی زمین۔ زمین کے تصور میں زندگی کا خواب پلنے لگا۔ وہ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے لگی۔ اسے اپنی خاک میں حیات کی رمق محسوس ہوتی تھی۔ زندگی کی چمک کا احساس ہوتا تھا۔ ایک نشے کی طرح جو اسے مسحور کیے رکھتا تھا۔ اس کے لیے یہ تصور خوابناک تھا کہ اس کی کوک سے زندگی جنم لے اور اس کی آغوش میں پھلے پھولے۔ وہ اس ساری کائنات میں اپنے دامن میں زندگی سمیٹتا واحد جہاں بننا چاہتی تھی۔ وہ ماں بننا چاہتی تھی۔
اس زندگی کو پالتا واحد جہاں بنے
چاہت تھی یہ زمین کی جیون کی ماں بنے۔
ان مداروں میں بستی اپنی ہم جولیوں اور اپنے دوستوں سے جب اس نے کہا تو کہیں برف پوش سرد مہری تھی تو کہیں حسد بھری آگ۔ کوئی اس پر ہنس دیا تو کسی نے اسے دیوانے کا خواب کہا۔ مگر زمین اپنی دھن کی یوں پکی تھی کہ شام و سحر اس کے کانوں میں زندگی کی آوازوں کے سازندے بجتے تھے۔ چشمِ تصور سے وہ اپنے وسیع و عریض دامن میں زندگی کو پنپتے دیکھتی تو جھومنے لگتی، ناچنے لگتی۔ یہ رقصِ عشق تھا۔ وہ دیوتا یعنی سورج سے محبت کرنے لگی۔ اسے لگتا کہ اس دیوتا کی روشن کرنیں جب وہ اپنے پورے وجود میں سما لے گی تو اس کی خاک کندن بنے گی اور اسی کندن سے زندگی تشکیل پائے گی۔ اس کی محبت اپنی تکمیل پائے گی۔
اس خاک سے حیات جو تشکیل پائے گی
اک خواب کی تعبیر یوں تکمیل پائے گی۔
اور یوں زمین لگی اپنے مدار میں گردش کرنے۔ محبوب کا طواف کرتے دیوانگی میں غرق عشق میں محوِ رقصاں۔ اس سے نتھرتی کرنوں کو اپنے پورے وجود میں سمونا چاہتی تو پلٹتی، لہکتی، بل کھاتی اور اٹھلاتی تھی۔
شمس آباد میں ایک ماہتاب نامی دیوانہ بھی تھا۔ یہ چاند کے نام سے مشہور ہے۔ زمین کے عشق میں گرفتار اسے دور سے تکتا رہتا۔ اندر ہی اندر سسکتا رہتا۔ یک طرفہ محبت بھی ایک عجب اذیت پسندی ہے۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔ حسرت کی ایک بڑھیا چاند کے سینے پر بیٹھی دکھ کا چرخہ کاتتی رہتی۔ عشق دکھ کے لیے خود کو تیار کرنے کی ریاضت کا نام ہی تو ہے۔
یہ دل کا لگایا روگ ہے جی کیا آپ سے اب اظہار کریں
وہ عشق کو کیا جانیں صاحب جو عقل کا کاروبار کریں۔
چاند جانتا تھا کہ وہ کبھی زمین کا اس طرح محبوب نہیں بن سکتا کیونکہ وہ سمجھتی تھی کہ وہ اسے زندگی نہیں دے سکتا۔ اس حسینہ کے رگ و پے میں دیوانگی کی طرح رچی بسی ممتا کو تسکین نہیں دے سکتا۔ اسے روشنی چاہیے جو چاند کے پاس نہیں، اسے زندگی چاہیے جس سے چاند آشنا نہیں۔ مگر اس چاند کے سر پر بھی عشق سوار تھا اور وہ بھی اس کائنات میں اپنی محبت کو امر کرنا چاہتا تھا۔ اسے روشنی کی تلاش تھی اور روشنی کا ہر متلاشی اندھیروں کے کتنے وار سہتا ہے یہ وہی جانتا ہے۔ سرِ راہ جلتے چراغوں کی تو ہوائیں بھی مخالف ہو جاتی ہیں۔ مگر چراغ کہتا ہے کہ
جلا کر خود کو یوں محبوب کو تابندگی دینا
محبت ہے اسے یوں مر کے اپنی زندگی دینا۔
نہ جانے کتنی صدیاں زمین سورج کے گرد گھومتی رہی اپنے عشق میں جھومتی رہی۔ یہ جہدِ مسلسل، یہ کاوشِ پیہم اس وقت اپنی منزلِ مقصود پر پہنچی جب تخلیق کار کے در پر یہ ریاضت قبولیت کی مراد پا گئی۔ خدا کا ایک فرشتہ آیا اور اس نے زمین سے اپنی خاک دینے کو کہا کہ خالق نے تیری خاک سے زندگی کو پیدا کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ سننا تھا کہ مارے خوشی کے بے طرح رونے لگی کوئی خوشی کے آنسو پھوٹے کہ اس کی سطح پر سمندر ہوئے۔ اپنی خاک خدا کے قاصد کو دے کر لرزنے لگی۔ تھر تھر کانپتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھ کر کہنے لگی۔ میں تیرے قربان او میرے پیارے خدا۔ تو نے لاج رکھ لی میرے عشق کی۔ تیری عاشق مزاجی پر میں فدا۔
منزل تلک وفا کا سفر آج ہو گیا
صد شکر کہ یہ عشق امر آج ہو گیا۔
پھر اس کے بعد وہ پل آ گیا جب انسان کو یہاں اتارا گیا۔ اپنی مٹی سے بنے اس شاہکار کو دیکھ کر زمین کو خود پر یقین ہی نہیں آیا۔ وہ ماں بن گئی تھی آج اس کی ممتا شمس سے بڑھ کر روشن تھی۔ آج اس کی مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب اسے پتا چلا کہ خدا نے جنت سے آدم کو بھیجا کہ جاؤ اور زمین کو وہ جنت بناؤ جہاں سے آئے ہو اگر واپس اس جنت میں آنا چاہتے ہو جہاں سے روانہ ہو۔
وفا کا اثبات ذات کی نفی ہے۔ جفا کی ضرب پر انا کو تقسیم کر دینا محبت ہے۔ درسگاہِ انسانیت میں یہ عشق کی ریاضی ہے صاحب۔ خدا نے زمین پر زندگی کو پیدا کیا زندگی وقت سے عبارت ہے۔ یہ وقت اس زمین ہی کی گردش سے مربوط کر دیا گیا۔ خدا نے انسانی حیات میں وقت کے تغیر کے لیے زمین کو بل کھانے کا حکم دیا تو اپنے محبوب دیوتا سورج سے اس نے رخ پھیر لیا یوں دن اور رات کی ایک گردش معرضِ وجود میں آئی۔
زمین رات کے عالم میں اپنی تیرگی پر آزردہ ہوئی تو عشق و محبت کی ایک اور تکمیل کا وقت آن پہنچا۔ یہ چاند کے اخلاص پر عطا ہونے کا لمحہ تھا۔ چاند کی محبت امر ہوئی۔ زمین کی جدائی میں بادلوں میں چھپ کے روتے اور شاعری کرتے چاند کو کیا خبر تھی کہ اس کا عشق اسے آلِ زمیں میں حسن کی تمثیل بنا دے گا اور شاعری کا استعارہ۔ ایک وقت میں چاند پر نگاہِ التفات نہ کرنے والی زمین سے اب نظریں اس کی تاریخی گردشوں کے لیے چاند کی طرف دیکھنے لگیں۔
عشق عالی ظرفوں کا کام ہے۔ کم ظرف اور خود غرض اپنی ذات ہی کے حصار سے نہیں نکلتے عشق کیا کریں گے۔ چاند عشق میں اس فراز تلک آ پہنچا کہ جہاں سورج نے اسے اپنی کرنوں کا خراج پیش کیا۔ اور چاند نے وہ کرنیں چاندنی بنا کر زمین کو تفویض کر دیں کیونکہ محبت ہجر و وصل کی قید سے آزاد وفاداری کا جزبہ ہے۔ اب چاند دور سے زمین کو مسکراتے دیکھتا ہے اور اس کی مسکراہٹ سے اپنی تکمیل کرتا ہے۔
سورج، زمین، چاند، عشق اور محبت کی ایک شاہکار تکون ہے
اور عشق و محبت کے سوا بھلا جہان میں کیا ہے کون ہے؟