Char Sadiyon Ke Safar Ki Dastan
چار صدیوں کے سفر کی داستان
پچھلے دنوں راقم الحروف اپنی فیکٹری میں ایک اطالوی انجینئیر کے ساتھ مصروفِ عمل تھا جسکی کمپنی دنیا بھر میں سیمنٹ انڈسٹری میں پیکنگ پلانٹ پر اٹالین ٹیکنالوجی کے لیے معروف ہے۔ کسی ایک مشین کے ذریعے پوری دنیا میں جانے جانا اعلی ترین معیار پر مستقل قیام کے بغیر ممکن نہیں۔
آئی وِن نامی یہ انجینئر جب ہمارے پلانٹ پر پہنچا تو مجھے میرے باس نے اسکے ساتھ کوآرڈینیٹ کرنے کے لیے اسکے پاس بھیجا۔ کمپنی اسے بڑا زبردست پروٹوکول دے رہی تھی۔ ایک ڈرائیور ایک پولیس سیکیورٹی اہلکار ہمہ وقت اسکے ساتھ تھے۔ اسکا سپیشل کھانا دن کے وقت پلانٹ پر آتا۔ ہمیں تاکید تھی کہ اسے کسی بھی قسم کا کوئی مسئلہ درپیش نہ آئے۔
مسٹر آئی ون کی میری آواز پر وہ چونک گیا، ٹھٹھک کر بولا نو مسٹر جسٹ آئی وِن مائی فرینڈ (مسٹر کی ضرورت نہیں آئی ون کافی ہے میرے دوست)۔ اسکا یہی ایک جملہ کافی تھا اسکے ساتھ دوستانہ تعلق کے لیے اور یوں کام شروع ہوگیا۔ کیبلز، کنڑرولرز، انسٹرومنٹس اور چاؤ چاؤ چاؤ (یہ آئی ون کا تکیہ کلام تھا۔ یہ مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے، اوکے، ٹھیک ہوگیا، گڈ بائی، ٹیک کئیر وغیرہ)۔
اتفاق کی بات ہے کہ جس دن وہ یہاں آیا پاکستان میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو اس سارے مضمون کی بنیاد ہے یہ واقعہ میں آپ کو آخر پہ بتاؤں گا۔
آئی ون کا تعلق اٹلی سے ہے۔ اٹلی کا تعلق گلیلیو سے ہے گلیلیو کا تعلق اس واقعے سے اور اس واقعے کا تعلق آپ سے اور مجھ سے ہے یعنی پاکستان سے ہے۔ سو آئی ون اور میرے علاوہ پاکستان اور اٹلی کا ایک اور بھی تعلق ہے وہ ہے گلیلیو اور پروفیسر شیر علی کا۔
گلیلیو کون تھا۔ وہ جس نے اپنی آنکھیں اس علم کو خراج میں دے دیں جس کی اوج پر آج جیمز ویب ہے۔ جی ہاں اندھا ہو کر مرنے والے گلیلیو کی بنائی گئی پہلی دوربین اور اس دوربین پر ڈالی گئی پہلی نظر نے فلک پر کہکشاؤں میں وہ پگڈنڈیاں بنا دیں اجرامِ فلکی کی سائینس Astronomy جس پر چلتے چلتے یہاں تلک پہنچی کہ اپنی جیب میں پڑی ہوئی مشین کی سکرین پر ایک انگلی کی لمس سے آپ یہ جان سکتے ہیں فلاں فلاں دن کو فلاں بجے خدا کا آسمان کیسا ہوگا بادلوں کی ردا اوڑھے یا دھوپ کا آنچل لیے۔ انسانیت گلیلیو کی آنکھوں کی مقروض ہے وہ آنکھیں جن سے جیمز ویب خدا کو دیکھ رہی ہے۔ تخلیق کو خالق کے تناظر میں دیکھنا ہی ایمان نہیں؟ اوئے ابلیسا سجدہ اس فلسفے کو تھا پاگلا۔
مگر عظیم گلیلیو کی شاہکار آنکھ کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ شروع ہوتی ہے آئی ون پر پہنچنے تک۔ آئی وِن کے ساتھ کام کرتے ایک پاکستانی کے احساسِ زیاں تک۔
1564 میں پیسا اٹلی میں پیدا ہونے والا گلیلیو ابتدائی تعلیم کے بعد جس پیسا یونیورسٹی میں مالی مشکلات کے باعث پڑھ نہ سکا وہاں ایک دن پڑھانے پہنچا، رکیے گا اسے عظمت کہتے ہیں۔ "اقراء" کو محدود کرنے والے اقراء کا فلسفہ نہیں جانتے۔ رب العالمین سے رحمت للعالمین تک کا راز نہیں پا سکتے۔ فرقے ہی پا سکتے ہیں۔ جو عالمین کے فلسفے کی ضد ہے۔ حرف اور ظرف کی بات ہے ساری۔
گلیلیو پڑھاتے ہوئے اور پڑھنے لگا۔ 1620 میں وہ ایک ایسی تابناک دوربین بنانے میں کامیاب ہوگیا جہاں سے ایک نئی دنیا کا آغاز ہوگیا۔۔
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والے کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
تب تک زمین کی مرکزیت اور اسکے گرد شمس و قمر کی گردش کا نظریہ ایک مذہبی تقدیس میں ملفوف تھا۔ اس تقدیس کو کلیسا کا تحفظ حاصل تھا۔ اہلِ کلیسا کے قائم کردہ توہمات پر مبنی مذہبی نظریات کے بتوں کے کھڑے رہنے کے لیے زمین کا ساکن رہنا ضروری تھا وگرنہ ان انسانوں کے پیروں میں آ گرتے۔ جو اب تک انکے قدموں پہ سر رکھے ہوئے تھے جنکی پیشانیوں پر ان قدموں کی خاک سے نشان تھے۔ یہ نشان وہ مہریں تھیں جو بکتی تھیں۔
گلیلیو نے جب انسانیت کی محسن بوڑھی آنکھ اپنی خوردبین پر رکھی تو کانپ گیا۔ اور پھر جو اس نے کہا اس سے زمین کانپ گئی۔ مذہب کے بیوپاریوں کے مکر وفریب کی زنجیروں میں جکڑی دھرتی ماں بڑھ کر اپنے سپوت کا بوسہ لینا چاہتی تھی فخر تھا جو اسکی خاک کا۔ مگر صدیوں کی زنجیریں اتنی آسانی سے کب ٹوٹتی ہیں۔
کوپر نیکس نامی سائینسدان کے نظریے کو پہلی بار گلیلیو نے عملی تجربے سے ثابت کیا اور وہ نظریہ مستحکم کیا جو آج کے جدید نظامِ شمسی سے متعلق تمام علوم کی بنیاد ہے کہ دراصل زمین ساکن نہیں متحرک ہے اور تمام سیارے سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔
اور پھر کیا ہوا۔ اہلِ کلیسا نے اسے خدا کی حدود میں مداخلت قرار دیا۔ مذہبی تصورات میں بدعت و دخل اندازی سے تعبیر کیا۔ لوگوں کو خدا کے راستے سے گمراہ کرنے کی سازش کا نام دیا۔ گلیلیو کو جاں بخشی کے عوض اپنے نظریات سے دستبردار ہونا پڑا اور اسے کلیساء کے زیرِ اثر عدالت نے سرعام معافی مانگنے کا حکم دیا۔۔
جو دیکھتا ہے آنکھ سے وہ کہتا ہے گستاخ
میں دیکھتا ہوں کیسے زندہ رہتا ہے گستاخ
اور بوڑھا گلیلیو تھمایا گیا معافی نامہ پڑھنے لگا۔ اس حکم نامے پر گرتے آنسوؤں میں کہیں اسکی آنکھیں بھی بہہ گئیں مگر ان بوندوں میں کیا تاثیر تھی کیا جزب تھا کہ زنجیریں ٹوٹ گئیں۔ اہلِ کلیسا و مذہب دیکھتے رہ گئے اور زمین حرکت کرنے لگی، قیامت تک کرتی رہے گی۔ یہ حرکت یہ رقص شاید ان نابینا بوڑھے کو خراج ہو۔
چار سو سال بیت گئے، چار صدیاں۔ زمین اپنے کرہ پر پورا چکر چوبیس گھنٹے میں اور سورج کے گرد اپنے مدار میں پورا چکر تین سو پینسٹھ دن میں لگاتی ہے۔ گھومتے گھومتے جس دن یہ آئی ون کو پاکستان لائی پاکستان کے شہر بنوں میں ایک بیالوجی کے پروفیسر شیر علی کو چند ملاؤں نے گھیر رکھا تھا۔ پروفیسر نے ایک گستاخی کی تھی جس سے وہ جان بخشی کے عوض دستبرداری کا معافی نامہ پڑھ رہا تھا۔
بنوں کی غریب بیوہ بے بس عورتیں، ایک عورت ہی کے نام بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پیسے لینے ایک جگہ جمع ہوئیں تو انکی بھوک سے اٹلی کے اہلِ کلیسا کی زمین کی طرح ساکت رہنے والی یہاں کے ملاؤں کی غیرت گلیلیو کے نظریے والی زمین کی طرح حرکت میں آئی اور عورتوں کے گھر سے نکلنے کے خلاف فتویٰ آ گیا۔
انسانی حقوق کی تنظیم نے ایک تقریب منعقد کی۔ سب سے پہلے تو شرمناک ترین بات یہ ہے کہ "حقوق العباد" کے دین میں ملاؤں کی غیرانسانی تفہیمات کے خلاف عام لوگوں کی تنظیموں کو آواز اٹھانی پڑتی جنہیں پھر وہی ملاں موم بتی مافیا اور مغربی ایجنڈے۔ والی این جی آوز کہتے ہیں۔
"پاکستانی گلیلیو" نے اس تقریب میں جا کر ان خواتین کے لیے آواز بلند کی۔ انکے گھروں سے نکلنے کو پاکستانی آئین سے لے کر اسلامی شریعت تک کے عین مطابق قرار دیا۔ مرد وزن کی اس تفریق کو غیر فطری اور غیر اسلامی کہا۔ پردے کی اپنی خود ساختہ تفہیم و تعریف کا بار تمام عورتوں کو اٹھوانے کو وہ جبر قرار دیا جو دین میں نہیں ہے۔
جیسے سورج کے گرد نظامِ شمسی ہے اسی طرح ان عقائد کے گرد نظامِ ملائیت ہے سو پروفیسر شیر علی کے گرد زندگی کا گھیرا تنگ کیا جانے لگا اور شدید معاشی و سماجی مشکلات اٹھانے کے بعد آخر تان وہیں ٹوٹی جہاں چار صدیوں پہلے گلیلیو کی ٹوٹی تھی۔۔
اے میرے نا خدا ازنِ تلافی مانگتا ہوں
میں جینے کی اجازت بس اضافی مانگتا ہوں
بس آئیندہ یہ گستاخی نہ ہوگی
میں یاں سچ بولنے کی عام معافی مانگتا ہوں
گلیلیو کا اٹلی آج بھی دنیا کا سب سے زیادہ عملی مذہب پرست مسیحیوں کا ملک ہے پچاسی فیصد لوگ خود کو عملی طور پر کیتھولک مسیحی کہتے ہیں۔ روم میں دنیا کے سب سے بڑے اور قدیم چرچ ہیں۔ جو کہ تعمیرات کے فن پارے ہیں۔
میں آئی وِن کو بتانا چاہتا تھا کہ اس نے آج جہاز سے نہیں ٹائم مشین سے سفر کیا اور چار صدیوں پیچھے چلا گیا۔ اٹلی میں جو سترہویں صدی میں ہو رہا تھا وہ پاکستان میں اکیسویں صدی میں ہو رہا ہے۔ میں اسے بتانا چاہتا تھا کہ وہ مجھ سے چار صدیوں پرانے انسان کی طرح پیش آئے۔ بہرحال جو میں اسے بتانا چاہتا تھا وہ اسے سیکیورٹی کی گاڑی نے سیلیوٹ کرکے اور ہماری کمپنی نے ڈالرز فی گھنٹہ ادا کرکے بتا دیا۔ آئی ون اس دیس واپس چلا گیا جہاں آج گلیلیو کو وہ تقدیس حاصل ہے جو کل اہلِ کلیسا کو تھی۔ اس حساب سے پاکستان میں۔۔ چھوڑیے صاحب
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے چار صدیوں کے سر ہونے تک
پسِ تحریر! اگر یہ مضمون لکھنے پر کسی نے مجھ سے معافی کا مطا لبہ کرنا ہے تو پیشگی معافی جناب کہ نہ گلیلیو ہوں نہ پروفیسر شیر علی ایک عام صنعتی مزدور ہوں۔