Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas Rashid
  4. Agar Establishment Neutral Hai To

Agar Establishment Neutral Hai To

اگر اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے تو

پاکستان بنا تو یہاں مقتدرہ نے سب سے پہلے جس چیز کو یقینی بنایا وہ یہ کہ پاکستان کبھی جمہوری اور آئینی راستے پر گامزن نہ ہونے پائے۔ اس کے لیے ہر حربہ استعمال کیا گیا اور طاقت اور دھونس کے ذریعے ایک جمہوری ریاست کو ایک طالع آزمائی کا اکھاڑہ بنا دیا گیا۔ جہاں کبھی آئین اور قانون کی حکمرانی قائم نہ ہو پائی بلکہ حاکم کی انا، ضد، پسند نا پسند اور مطلق العنانیت ہی کروڑوں کی قوم کے لیے آئین و قانون کی حیثیت رکھتے رہے۔ قوم کی بے بس ماں فاطمہ جناح کو جنرل ایوب کی بندوق کا سامنا ہو، یحیی خان کا ملک کے دو ٹکڑے کرنا ہو، "مردِ مومن مردِ حق " کا بارودی عہد ہو یا مشرف کا ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ملبے تلے دبا ہوا دور۔

پاکستان پر اس کی 75 سالہ عمر میں نصف سے زائد آمریت چھائی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری روایات نہ پنپ سکیں اور ملک اپنی منزل کے راستے پر بھی گامزن نہ ہو سکا۔ اگر اپنی ہوش کی آنکھ کھولنے کے بعد کا منظر نامہ پیشِ خدمت کروں تو جنرل ضیا الحق کے بارودی عہد کے خاتمے کے بعد 1990کے بعد جسے "90 کی دہائی کی سیاست" سے اکثر منسوب کیا جاتا ہے۔ ملک کی دونوں بڑی جماعتیں فکری لحاظ سے چھوٹی ہی تھیں۔ سو اقتدار سے اقدار کے خاتمے کا سلسلہ جاری رہا۔

ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے اور جڑیں کاٹتے دراصل جمہوریت کی رگِ جاں پر وار کرتے رہے اور نتیجہ 1999 میں مشرفی عہد کی صورت میں نکلا۔ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کو نیب کی بانک میں کس کر بیچ میں سے مشرف صاحب کو دس دفعہ وردی میں منتخب کرانے والی ق لیگ نکالی گئی۔ یہ دوہرا مارشل لاء اپنے دامن میں آمرانہ قباحتیں سمیٹیں 2010 میں اختتام پزیرہوا۔ اس دوران ان جماعتوں نے جلا وطنی میں کچھ سیکھا اور میری سیاسی طالب علمی میں چارٹر آف ڈیمو کریسی Charter of Democracyپر دستخط دونوں کا بڑا معرکہ تھا۔

مگر اس کے بعد 2007 میں میاں صاحب کی 21 جماعتی آل پارٹیز کانفرنس میں بی بی شہید کی مشرف سے مزاکرات کے نتیجے میں اس میں عدم شرکت اس بات کی غمازی کرتی تھی کہ مشرف کے بعد اقتدار کے حصول کے لیے دونوں بڑی جماعتیں ایک دوسرے پر اعتماد کے اسی فقدان کا شکار ہیں اور امریکہ کی خطے میں موجودگی اقتدار کا محور ہے۔ اس وقت فضل الرحمان صاحب کا امین فہیم مرحوم کے ساتھ مل کر مشرف کے دوسری بار باوردی منتخب ہونے کی صورت اسمبلیوں سے استعفے کی شق پر لیت و لعل سے کام لینا اور وقت آنے پر اس کا عملی اظہار بہت کچھ واضح کر گیا۔

میرے روحانی استاد اور پسندیدہ شاعر جناب فراز کو خدا بخشے، نے اس کانفرنس میں اپنی مشہورِ زمانہ "محاصرہ" نظم پڑھی اور اس کانفرنس کے اختتام پر ایک سوال کے جواب میں عمران خان کی کارکردگی کو بطورِ ایک جمہوریت پسند سیاستدان سراہا۔ فراز اور کرکٹ کے عشق میں پہلے سے گرفتار آدمی کے دل پر عمران خان نے پہلی سیاسی دستک تب ہی دی۔ ہماری پیاری اور عظیم لیڈر بی بی شہید ہو گئیں اور2008 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی اور حکومت دونوں زرداری صاحب کی جھولی میں آ گرے۔ عمران خان صاحب نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔

وفاق میں پی پی پی اور پنجاب نون لیگ کی حکومت آ گئی اور ایک وقت میں پنجاب میں گورنر راج تک لگا دیا گیا۔ اور پھر اکتوبر 2011 میں مینارِ پاکستان پر عمران خان صاحب نے کوئی 20 سالہ سیاسی تاریخ کا دھارا تبدیل کرتا جلسہ کیا۔ جس کا نعرہ تھا "میاں صاحب جانڑ دیو ساڈی واری آنڑ دیو"۔ خان صاحب نے 2013 الیکشن سویپ کرنے کی شرط کے ساتھ 33 سیٹیں جیتیں اور بم دھماکوں سے لرزتا اور ہر قسم کے بحرانوں میں گھرا خون آشام پاکستان 70 ہزار نئی قبروں کو سینے پر زخموں کی طرح لیے میاں صاحب کی زیرِ قیادت آ گیا۔

خان صاحب نے احتجاج و دھرنا سیاست کا آغاز کر دیا، راقم الحروف جیسے لوگوں کے جزباتیت کے زینوں سے جڑی خوابوں کی سیڑھیوں پر پاؤں دھر کر وہی لوگ کنٹینر پر چڑھ گئے جن کے خلاف خان صاحب نے یہ جماعت بنائی تھی۔ پانامہ اسکینڈل آیا تو عمران خان صاحب کی جاں بہ لب احتجاجی سیاست میں گویا نئی روح پھونک دی گئی۔ زرداری صاحب نے بھی حصہ بقدر جثہ کے متقاضی ہوتے ہوئے میاں صاحب پر ایک ایسا الزام لگایا جس نے اس فکری ارتقاء پر کاری ضرب لگائی، جس کا دعوہ میرے دونوں اساتذہ کرتے ہیں زرداری صاحب نے میاں صاحب پر پاکستانی پنجاب، بھارت کو دینے کا الزام لگایا۔

صاف ظاہر ہے یہ عمران خان صاحب کے میاں صاحب پر محض کرپشن کے الزامات سے سبقت لے جانے کی سعی تھی۔ اس وقت زرداری صاحب نے بھی مذہب کارڈ کھیلنے کی انتہا کر دی جب کہا کہ اگر اب میاں کو معاف کر دیا خدا ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ میاں صاحب کی نااہلی کے بعد ان کی احتجاجی سیاست کا آغاز ہوا اور کپتان نے 2018 کے انتخابات میں دوسرا سجدہ پاکپتن شریف میں کیا، پہلا کہاں کیا سب کو پتا ہے؟ وہیں جہاں پر اب "نیوٹرل" ہونے کی بازگشت ہے۔

خان صاحب نے حکومت کا آغاز ایک ایسے خطاب سے کیا جس کا لب لباب ان کا ایک ایسا جملہ تھا جو میرے جیسے نہ جانے کتنوں کی روح میں اتر گیا۔ "پاکستان میں ایسا گورننس کا نظام لائیں گے جو اس سے پہلے کبھی آیا ہی نہیں "۔ آپ یقین کریں مجھے فخر ہوا اس بات پر کہ پاکستان میں پہلی بار ایک ریفارمر کو حکمران بنانے میں میرا بھی چھوٹا سا کردار ہے۔ خان صاحب کے اس جملے کو عملی شکل میں بدلنے کا پہلا امتحان اعظم سواتی صاحب والی گائے تھی۔ جنہیں انہوں نے مقدس گائے کا درجہ دیتے ہوئے میرے جیسے لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ انہوں نے پورا قرآن سیاسی جلسوں میں پڑھنے کے لیے یاد کر رکھا ہے سوائے ایک آیت کے کہ"اے ایمان والو وہ بات کہتے کیوں ہو جس پر عمل نہیں کرتے "۔

سانحہ ساہیوال کی رات میں اپنی ماں کے ساتھ سوئی ہوئی بیٹی کے بستر پر دیکھتا تو مجھے وہ بچی یاد آ جاتی جس کی ماں کو اس کے سامنے گولیوں سے بھون دیا گیا اور اس کے فیڈر پر اس کی ماں کا خون لگا ہوا تھا۔ پاکستان میں دو لوگوں نے اس بچی کو اپنی بیٹی کہا ایک میں ایک عمران خان۔ خان صاحب نے کہا "ایک باپ ہونے کی حیثیت سے اس کیس کو دیکھوں گا " نا چیز نے لکھا "میری بیٹی کے ساتھ انصاف یا عقیدت کا پتا صاف"۔ افسوس کہ خان صاحب اور ان کی حکومت قاتلوں کے ساتھ کھڑی ہو گئی میں مقتولوں کے۔

اس کے بعد آٹا اسکینڈل، چینی اسکینڈل، دوا اسکینڈل، پیٹرول اسکینڈل، راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل، ہر ہفتے بڑھتی ہوشربا مہنگائی، بری طرزِ حکومت، انتقامی سیاست، وزیروں کا عجیب سرکس۔ اس سب کے ساڑھے تین سال خان صاحب قول و فعل کے تضاد کی خلیج کو روز وسعت دیتے رہے۔ دوسری طرف اپوزیشن بھی اس ضمن میں ان سے کم نااہل ثابت نہ ہوئی۔ میاں صاحب عمران خان صاحب کو ڈھیل دینے کے نتیجے میں ڈیل کر کے لندن روانہ ہوئے اور ملک میں موجود اپوزیشن گو مگو کی کیفیت میں جان بوجھ کر رہی۔ اور یہاں تک کہ "اسٹیبلشمبٹ نیوٹرل ہو گئی " کے معانی خیز بیانیے کے ساتھ سندھ ہاؤس بھر گیا۔

عمران خان صاحب نے 27 ستمبر کو ڈی چوک میں عوام کا سمندر لانے کا اعلان کیا تو اپوزیشن نے 23 مارچ کو لانگ مارچ کا۔ حکومتی اتحادیوں نے بھاؤ تاؤ شروع کیے تو حکومت کے اندر لوگوں نے وزارتوں کی بو سونگھنی شروع کردی۔ ریاست و سیاستِ پاکستان میں فکری قحط کا یہ عالم ہے کہ حکومت منحرف ارکانِ پارلیمان کے ووٹ دینے پر ان کے خلاف سپریم کورٹ جا رہی ہے تو اپوزیشن نے اسے جمہوری حق قرار دے کر او آئی سی کی کانفرنس کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ ہر دن بدلتی صورتحال میں قومی سیاسی منظر نامے کی گراوٹ میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں زیادہ تضادات کے پل صراط سے کون گزر رہا ہے؟

خان صاحب ہمیشہ کی طرح مذہب کارڈ کھیلتے ہوئے خود کو "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کی آیت کا موضوع بنا رہے ہیں۔ چاہے ان کی حکومت کے ساڑھے تین سال کی مندرجہ بالا کار گزاری کو چھوڑیں خالی رمیش کمار کی کینسر کی جعلی دوائی (بقول شہباز گل) اس دعوہ کا منہ چڑاتی ہو۔ دوسری طرف اپوزیشن۔ اللہ اللہ جاوید لطیف صاحب نے کاشف عباسی کے پروگرام میں حکومت کے حصول کے لیے ہارس ٹریڈنگ کو چھوٹی برائی کہہ کر اس کا اعتراف کر لیا۔

فضل الرحمان صاحب کے عمران خان صاحب کو یہودی ایجنٹ کہنے کے تضاد کی ہوا تو اقوامِ متحدہ کے اسلامو فوبیا پر نئی قانون سازی سے نکل گئی جس میں عمران خان صاحب کا مثبت کردار ایک تاریخی حقیقت ہے، جس کو جھٹلانا محض سیاسی عصبیت اور مولانا فضل الرحمان صاحب کا یہ کہنا کہ "ان"کو بھی تو کوئی عقلمند غلام چاہیے۔ خدا کی پناہ۔ سیاسی تاریخ کے آئینے میں اس تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ طالب علم اپنا عوامی نقطہ ہائے نظر واضح کر سکے۔ اس سارے منظر نامے میں ہم عوام وہ ہیں جن کے بھوک سے نچڑے ہوئے نحیف کاندھے پر رکھ کر ہر بندوق چلائی جا رہی ہے۔

آپ اندازہ لگائیں کہ اس تمام اشرافیہ کو ہمارے بے شعور ہونے کا کتنا یقین ہے؟ کہ یہ لاکھوں افراد کو ایک دوسرے سے متحارب کروانا چاہتے ہیں جس کا حاصل خالصتا ان کا اقتدار ہے۔ اور عوام کے حصے میں خدانخواستہ لاشیں اور انتشار۔ اس لیے طالب علم کا موقف یہ ہے کہ کاش عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لی جائے (جس کا امکان اب تو صفر ہے)۔ کیونکہ عدم اعتماد تحریک کے کامیاب ہونے سے عوام کے حصے میں ایک نیا انتشار آئے گا۔ خان صاحب کو مذہب کارڈ کے ساتھ مظلومیت کارڈ کھیلنے کا ایک اور موقع مل جائے گا اور ملک نئی دھرنا سیاست اور انارکی کی طرف جائے گا۔

مہنگائی میں پستی عوام کے لیے یہ مزید آزار جھیلنے کا باعث ہو گا۔ نہ تو عمران خان صاحب حکومت سے نکل کر "خطر ناک" ہوں اور نہ ہی فضل الرحمان صاحب کوئی طبلِ جنگ بجائیں۔ بجائے پیچھے جانے کے آگے دیکھا جائے۔ عدم اعتماد کے ناکام ہونے کا عوامی نقطہءنظر سے فائدہ ہے اور کامیاب ہونے کی صورت نقصان۔ حکومت اور اپوزیشن سر جوڑ کر بیٹھیں۔ خان صاحب نے اپنی شست و نشست کی انا کی بھینٹ کافی چڑھا لیا عوام کو اور اپوزیشن نے بھی جہاں ساڑھے تین سال حکومت سے باہر گزار لیے وہاں ڈیڑھ سال اور سہی۔

آنے والے الیکشن کو ہارنے اور جیتنے والے دونوں کے لیے قابلِ قبول بنانے کے لیے اور ملک میں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے عمران خان صاحب اسی طرح شہباز شریف صاحب سے ملیں جیسے اقتدار بچانے کے لیے سندھ ہاؤس کے منحرف اراکین کو تمام تر برا بھلا کہنے کے باوجود اور شہباز گل صاحب کے انہیں "بروکر" کہنے کے باوجود ایک باپ بن کر معاف کرنے اور benefit of the doubtدینے کے لیے تیار ہیں۔ کرکٹ کے قوانین کے مطابق شک کا فائدہ بیٹسمین کو ہوتا ہے اور یہاں تو عوام کے نام پر اشرافیہ اور مقتدرہ باری لیتی رہی ہے۔

یہ بحران واقعی عوام کے لیے تاریخ میں پہلی بار باری آنے کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ امپائر تو نیوٹرل ہے۔ اگر ہے۔ اگر کامران خان صاحب اور عامر لیاقت حسین صاحب کی کہی گئی باتیں محض انکا ذاتی موقف ہیں اور "کسی" کا کوئی پیغام نہیں۔ اور نیوٹرل ہونے کا وہ مطلب نہیں جو اعتزاز احسن صاحب کہہ رہے ہیں۔ آنے والے دن ملک و قوم کے لیے شدید خطرناک ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں۔

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra