Transgender Amendment Bill
ٹرانسجینڈر امینمینٹ بل
اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام اور اسلامی اقدار رتی برابر بھی نہیں۔ بقول ڈاکٹر اسرار احمد "پاکستان دنیا کی واحد منافقت ریاست ہے یہاں کے رہنے والے کہتے کچھ اور بولتے کچھ ہیں"۔ یہاں کے رہنے والے 75 سال سے سنتے اور بدقسمتی سے مانتے آ رہے ہیں کہ ہم ایک اسلامی ریاست میں رہتے ہیں۔ ہم نے الیکشن کمپین کے دوران عمران خان سے مدینہ کی ریاست، JUI سے اسلامی نظام اور جماعت اسلامی سے "جماعت اسلامی واحد حل سنا ہے"۔
لیکن اللہ کے فضل سے ان تینوں جماعتوں نے ہمیشہ کی طرح عوام سے اسلام کے نام پر ووٹ بٹورنے اور بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر سر تسلیم خم کیا ہ۔ چاہے 2019 میں تحریک لبیک کا فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ (کس کی ایما پہ ہو رہا تھا)، جمیعت علماء کا ختم نبوت کے نام پر کارکنوں کو پاور پولیٹیکس کے لیے استعمال کرنا ہو اور پی ٹی آئی کا مدینہ کی ریاست کا خواب ہو۔ خیر عمران کا ریاست مدینہ امریکہ، UK اور یورپ سے ہوتا ہوا پاکستان آتا ہے۔
یہ بچپن سے یہی سنتا اور پڑھتا رہا ہوں کہ ہمارا ہمسایہ اور اسلامی برادر ملک افغانستان ہے۔ تاریخ گواہ رہے گی کہ اسلام کا قلعہ گرداننے والا ملک پاکستان کے دو بڑے ہوائی اڈوں شمسی ایئر بیس اور بڈھ بیر سے 57 ہزار دفعہ امریکی سفاک کے ڈرون اٹھ کر اپنی اسلامی بھائیو پر بیس سال تک آگ اور خون کی ہولی کھیلتے رہے۔ پاکستان کے سفاک لیڈر اور کرتا دھرتا صرف تماشہ دیکھتے رہے ہیں۔
واٹسن انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئر (watson institute of international and public affairs) رپورٹ کے مطابق 2001 سے لے کر 2021 تک war on terror کے دوران 2، 43000 افغانی مارے گئے۔ ان معصوموں کے خون کے آدھے حصہ دار پاکستان کے فوجی اور سیاسی قیادت بھی ہے۔
آگے ملاحظہ کیجئے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پچھلے دنوں (transgender amendment bill) ٹرانسجینڈر امینٹمینٹ بل ایک بمقابلہ تین بقول جناب اسپیکر پرویز اشرف پاس ہو گیا اور تین حضرات وہ ہیں جنہوں نے بل کی مخالفت میں ووٹ نہیں بلکہ ذرا ایمان کا ثبوت دے کر یہ فرمایا کہ اس بل کو ریویو کمیٹی میں بھیج دیا جائے۔ اس ایوان میں جمعیت علماۓ اسلام کے 15 اسلام کے ٹھیکیدار موجود ہیں۔
اب اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سیاستدانوں نے این جی اوز سے کافی رقم بٹوری ہے کبھی پولیو کے نام پر تو کبھی ایسے غیر اسلامی بل پاس کروا کر ان کو خوش کرتے ہیں۔ جمیعت کے امیر کے بھائی لطف الرحمان اور شیریں مزاری پی ٹی آئی کی بیٹی سینکڑوں ایسے سیاستدان جو ماضی قریب اب ان کے رشتہ داروں اور اپنی اولاد، این جی اوز کی پرکشش تنخواہ کے عوض اپنے اور عوام کی ضمیر بیچنے پر تلے ہوئے ہیں۔
بقول عدیم ہاشمی
یوں دکانوں پہ ضمیروں کی فراوانی نہ تھی
لوگ بکتے تھے مگر اتنی بھی ارزانی نہ تھی
تھے جنگل تو کچھ کچھ شہر بھی آباد
آج جیسے ویرانے ہیں ایسے تو ویرانی نہ تھی۔
ٹرانسجینڈر بل کے مطابق کسی شہری کو اگر وہ مرد ہے اور اسے عورت جیسی فلینگز آ رہی ہوں، ان کی چال چلن عورتوں جیسی ہوں، ان کی آواز مدحم ہوں لیکن قدرتی طور پہ وہ بالکل صحیح مرد ہے اور بچے پیدا کرنے کی استعطاعت بھی رکھتا ہو۔ یہ شخص نادرا جا کر بغیر میڈیکل کے اپنے آپ کو عورت اور اسی طرح عورت اپنے اپ کو مرد ڈیکلئر کروا سکتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ پاکستان میں لاگو ہو گیا تو ایسی غلاظت اور گندگی پیدا ہو گی کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ تو یہ ایک سادہ سا بل ہی نظر آتا ہے لیکن ان میں تمام چور دروازے موجود ہیں۔
پاکستان میں ناریل قسم کی اشرافیہ پاکستانی معاشرے میں گند اور غلاظت چاہتی ہے کیونکہ ان تمام کا عمر بھر کا حصہ تو مفروروں کے شہر لندن میں یا منی لانڈروں کے شہر دبئی میں گزر جاتا ہے یہ یہاں تو صرف دیہاڑی لگانے آتے ہیں۔ اس بل کی مخالفت میں خواجہ سراؤں کے سربراہ المس بوبی اور اوریا مقبول جان صاحب وفاقی شرعی عدالت میں پیش ہوئے اور کافی گرما گرم بحث ہوئی ہے اللہ کرے اگلی سماعت میں غیر اسلامی قرار دے کر خارج کر دیں۔ این جی اوز کی پیداوار جو غلاظت اور گندگی پاکستان میں پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں اللہ ان کو ہر قدم، ہر سانس میں ناکام اور نا مراد کر دیں آمین۔