Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Usman Marwat
  4. Pakistan: A Hard Country

Pakistan: A Hard Country

Pakistan: A Hard Country

ایک ہندوستانی مسلمان لڑکی کا رومال جب حجاج بن یوسف تک پہنچا، اس کی پکار پے 908ء میں 17 سالہ کمسن امیوی جرنیل محمد بن قاسم نے پورے سندھ کو روند ڈالا۔ اسی دن پاکستان کی بنیادوں میں پہلی اینٹ لگ چکی تھی۔ 210 سال تک برصغیر میں پہلے امیوں نے اور بعد میں عباسیوں نے براہ راست حکومت کی، اس دوران ہندوستان کے گھر گھر تک اسلام پہنچایا۔

جب عرب آپس کی خانہ جنگیوں میں الجھ پڑے تو افغانیوں نے کروٹ لی اور ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے عربوں کے بعد سب سے پہلا حملہ سلطانوں کے سلطان سلطان محمود غزنوی نے 1001ء کیا میں 28 نومبر 1001 میں پشاور کے مقام پر ہندو افواج کے راجہ جے پالے اور افغانی مسلمان افواج کے سلطان محمود غزنوی کا ٹاکرا ہوا، جس میں جے پالا مارا گیا اور یوں محمود غزنوی نے درہ خیبر کی راہ افغانیوں کے لئے ہموار کر دی۔

اور یو غزنوی سلطنت نے 210 سال تک ہندوستان پر حکومت کی غزنوی سلطنت کے بعد غزنی سے شہاب الدین غوری اٹھا غوری سلطنت نے 1139 سے لے کر 1202 تک یعنی 65 سال تک حکومت کی غوری نے کل ساتھ ہملے کیے 1175 میں ملتان فتح کیا اور گیارہ سو اکانوے 1191 میں پرتھوی راج کو تارین کے مقام پر شکست دی اور پورے پنجاب کو روند ڈالا۔

اسی طرح ہندوستان پر کبھی مسلمان کبھی ہندو راجاؤں نے حکومت کی پانی پت کی تین جنگوں نے ہندوستان کی کایا پلٹ دی، پہلا حملہ ظہیرالدین بابر(تیمور لنگ کا پڑپوتا) نے 1526ء میں کیا اور پانی پت کے میدان میں مسلمان حکمران ابراہیم لودھی اور بابر کا ٹھاکرا ہوا لودھی ہار گیا اور یوں بابر دہلی کا تخت نشین ہوا، دوسری جنگ 1556ء میں، اسی مقام پر اکبر اور سرمست ہم چندرہ کے درمیان دشت و خون کی لڑای ھوئی۔

جس میں اکبر جیت گیا اور دوبارہ دہلی کے تخت پر برجمان ہوا۔ جب ہندوستان کے مسلمان قابل رحم ہو گئے ہندوستان میں اپنے ہی مسلمان حکمرانوں کی طرف سے اسلام پر کئی حملے ہوئے، اس دوران اللہ کے نیک ولی شاہ ولی اللہ نے افغانستان کے سلطان احمد شاہ ابدالی کو بذریعہ خط آگاہ کیا اور یوں سترہ سو اکسٹھ میں احمد شاہ ابدالی اپنا بوریا بستر گول کر کابل سے روانہ ہوا۔

اور پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کے جرنیل سدیش راؤ باؤ اور احمد شاہ ابدالی کے درمیان ٹاکرا ہوا، جس میں دونوں اطراف سے بہت جانی نقصان ہوا اور یوں، اس خون کی ہولی کھیل کر ابدالی نے مرہٹوں کو شکست دی اور ہندوستان کو روندتا ہوا دلی تک جا پہنچا۔ لیکن جب تاریخ کے اوراق پر قلم اور برصغیر کے درتی پر لہرا تی تلواریں چل رہی تھی۔ اس دوران آدھی دنیا پر حکومت کرنے والے تاج برطانیہ۔

جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اس نے 31 دسمبر 1600ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے ایک تجارتی کمپنی بنائی، جو بظاہر تجارتی کمپنی تھی۔ لیکن وہ سازشوں کے تحت سونے کی چڑیا یعنی برصغیر کو اپنے دام میں پھنسانا چاہتے تھے اور یوں انہوں نے 1717 میں مغل بادشاہ فاروق سے بنگال میں تجارت کرنے کی شاہی اجازت نامہ حاصل کیا اور ٹھیک 30 سال بعد یعنی سنہ 1717ء میں انگریزوں نے بنگال پر حملہ کیا۔

بنگال فوج کے سربراہ اور سراج الدولہ کے وزیر با تدبیر میر جعفر کی سازش کے ذریعے بنگال فتح کیا اور بنگال میں فورٹ ولیم fort Williams ایسٹ انڈیا کمپنی کا ہیڈ کوارٹر بن گیا۔ لیکن جب تک برصغیر میں میسور کا ٹائیگر ٹیپوسلطان زندہ تھا۔ اس وقت سونے کی چڑیا یعنی برصغیر کو قابو کرنا مشکل تھا۔ جو انگریزوں نے سلطان کے سپہ سالار میرصادق کو حکومت کا جھانسہ دے کر اپنے ساتھ ملایا۔

اور 1799ء میں ریاست میسور فتح کر کے پورے برصغیر پر فتح کی آخری کیل ٹھونک دی۔ 1799 سے 1947 تک یعنی 150سال برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان پر براہ راست حکومت کی، ان ایک سو پچاس سالوں میں ہندوستان میں جو ترقیاتی کام یعنی ریلوے لائنز، انفسٹرکچر، صحت، اسپتال اور تعلیمی نظام ان معدنیات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، جو انگریز حکومت یہاں سے لوٹ کر لے گئے تھے۔

جب انگریز کی حکمرانی زور و شور پہ تھی سر سید احمد خان دو قومی نظریہ کی بنیاد ڈال چکے تھے۔ اسی دو قومی نظرئیے کی بدولت 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ ڈھاکہ میں قائم ہوئی۔ 708ء سے 1906 تک مقابلے میں مسلمانوں کی آبادی ہندوں کے مقابلے چار بمقابلہ ایک بڑھ چکے تھے۔ 1957 کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں کی ہندوں کی طرف جھکاؤ اور مسلمانوں سے ناروا سلوک اور بے انصافی برصغیر کے مسلمان برداشت کر رہے تھے۔

کیونکہ انگریز 1857 کی جنگ آزادی کا سارا ملبہ اور نزلہ مسلمانوں پر ڈال رہے تھے 1913 میں شاعر مشرق علامہ اقبال کی کوششوں کی بدولت برصغیر کی چوٹی کے قانون دان محمد علی جناح 1913 میں شمولیت اختیار کر چکے تھے، اور یوں 1930 میں الہ آباد کے مقام پر علامہ اقبال کی صدارت میں ایک الگ وطن کا مطالبہ مسلمانان برصغیر کے سامنے پیش کیا۔

اور عزم ظاہر کیا کہ مسلمانوں کے لیے ایک ایسے خطے کی ضرورت ہے۔ جس میں مسلمانان ہند اللہ کا قانون اور نبی کے طریقوں پر چوبیس گھنٹوں کی زندگی گزار کر سکے۔ کچھ خاص دھڑوں کے علمائے کرام اور کانگریسی مسلمان راہنماؤں نے الگ وطن کا مطالبہ مسترد کر دیا اور قائداعظم محمد علی جناح کے ذاتی اور خاندانی زندگی کو نشانہ بنایا گیا اور یہاں تک کہ کفر کے فتوے لگا دیے گئے۔

اور انگریز کا ایجنٹ قرار دے کر یہ کہا گیا کہ برصغیر میں مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور اس بٹوارے کے بعد مسلمان ہند کمزور ہو جائیں گے۔ لیکن اس دور کے صفاےکرام، چھوٹی کے علمائے کرام جیسے شبیر احمد عثمانی اور اشرف علی تھانوی اور پیران عظام نے آزادی کی تحریک میں بھرپور قائداعظم کا ساتھ دے کر بلاآخر 14 اگست 1947 کو ایک آزاد مملکت خداداد پاکستان 60لاکھ شہیدوں کی قربانی دے کر حاصل کیا۔

اور وقت نے ان کفر کے فتوے بانٹنے والے علماء کرام اور کانگریسی مسلمان لیڈروں کو غلط ثابت کر دیا کہ ہندوستان میں، آج بھی 35 کروڑ سے زیادہ مسلمان جانوروں سے بدتر اور گیٹوز میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ لیکن ہم نے لاتعداد شہیدوں کی قربانی دے کر ایک الگ اور آزاد ریاست میں سانس لے رہے ہیں۔ مسلمانوں کی برصغیر میں آمد سے ایک نئے اور الگ، وطن تک کی مختصر تاریخ۔

لیکن 14اگست 1947 سے لے کر 23نومبر 2022 تک پاکستان کے شہری اس تذبذب کا شکار ہے کہ 75 سال ہونے کے بعد کیا ہم بحیثیت قوم، ہمارے قابل عزت جج صاحبان اپنے فیصلوں، ادارے اپنی پالیسیوں اور عوام اپنے حقوق لینے اور ملنے میں آزاد ہے۔

جانیے اگلے کالم میں (جاری ہے)

Check Also

Riyasat Ke Daimi Idaron Ko Shayad Ab Kuch Naya Karna Pare

By Nusrat Javed