1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Usman Marwat
  4. Islam Ke 3 Umar (3)

Islam Ke 3 Umar (3)

اسلام کے تین عمر (3)

افغانستان جسے قدیم خراسان بھی کہا جاتا تھا پر کئی وقت کی سپر پاور نے زور آزمائی کی لیکن ناکام اور نامراد لوٹ گئے۔ جیسے یونان کا سکندر اعظم ہو، برطانیہ کی رائل فورس ہو، یو ایس ایس آر USSR کے روسی ریچھ ہوں اور امریکہ بشمول 30 نیٹو ممالک ہوں سب کے غرور خاک میں ملا دیے۔

تاریخ گواہ ہے کہ افغانوں نے کبھی بھی عالمی طاقتوں ہوا استعمار کو جسمانی اور ذہنی طور پر کبھی قبول نہیں کیا۔ افغانوں نے کبھی غزنویوں، ابدالیوں اور شیر شاہ سوری کی شکل میں کئی برسوں تک ہندوستان پر حکومت کی۔ افغانستان پر کئی بیرونی اور ان سے کئی گنا طاقتور حملہ آور آئے، زور آزمائی کی اور نیست و نابود ہو گئے۔

آج میں ایک ایسے شخص کی کہانی بتاؤں گا جنہوں نے افغانستان کے کئی برسوں مسلط کی گئی سیکولر اور بے دین معاشرے کو اسلام کے احکامات اور سردار جہاں ص کی طور طریقوں میں رنگا رنگ دیا۔ 15 فروری 1989 کو جب آخری روسی فوجی نے دریائے آمو کو پار کیا تو افغانستان کو آپس کی خانہ جنگی میں سلگتا ہوا چھوڑ گئے افغان جہاد کے دوران مجاہدین جن گروپ کی سرپرستی میں لڑ رہے تھے آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔

قتل، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، سمگلنگ اور کئی خوفناک جرائم نے افغانستان کو گھیرے میں لے لیا۔ لوگ بتاتے تھے ہر دو یا تین کلومیٹر کے بعد مختلف گروپوں کے چیک پوسٹوں پہ بھتہ دینا پڑتا تھا افغانوں کا جینا حرام ہو چکا تھا۔ لوگوں کی بے روزگاری بھوک، ننگ، پیاس سے زندگی اجیرن بن چکی تھی اوپر سے ان بدمعاشوں نے عوام کا جینا حرام کیا تھا۔

ایک دن قندھار کے ایک چھوٹے سے مدرسے میں 49 لوگوں بشمول شاگردوں اور استادوں نے ایک میٹنگ کی اس میٹنگ میں یہ عہد کیا گیا کہ قندھار کو ان ظالموں، اغوا کاروں اور بھتہ خوروں سے نجات دلانا ہے اس تحریک کے سربراہ مدرسے کے مہتمم کو بنایا گیا اس کا نام عمر ثالث ملا محمد عمرؒ تھا۔ ملا محمد عمرؒ 1950 کو قندہار کے نور نامی گاؤں میں پیدا ہوئے وہ پختونوں کے خلجی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے عمر اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا آپ کے والد بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے۔

ملا محمد عمر نے اسلامی تعلیم حاصل کی۔ کچھ عرصہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک نوشہرہ صوبہ سرحد میں بھی رہے ہیں۔ ملا محمد عمر نے 10 سال افغان جہاد لڑی اسی دوران ان کی دائیں آنکھ کسی لڑائی کے دوران ضائع ہوگئی۔ ملا عمر کی سربراہی میں 49 لوگوں نے سب سے پہلے قندھار کے ظالم کمانڈر داروخان چیک پوسٹ پر حملے کا منصوبہ بنایا۔

حملے کے دوران دارو خان اور ان کے تمام ساتھی مارے گئے اس پوسٹ کو فتح کرنے کے بعد پورے قندہار میں ان کی دھاک بیٹھ گئی اس کے بعد ان سرفروشوں نے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی شہر سپین بولدک سے شروع کرتے ہوئے پورے قندہار کو چند ہفتوں کی خونریز لڑائی کے بعد فتح کیا۔ نوجوان جوک در جوک ان کے ساتھ شامل ہو رہے تھے اس دوران کابل میں انجینئر گلبدین حکمت یار حزب اسلامی کی حکومت تھی لڑائی قندھار سے لے کر افغانستان میں پھیل گئی۔

یہ مٹھی بھر سرفروش ایک منظم تحریک کی شکل میں شہر کے شہر فتح کرتے ہوئے کابل کا محاصرہ کیا۔ حکمت یار نے موقع کی نزاکت پا کر حکومت سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا اور اپنی فوجوں کو کابل سے نکلنے کا حکم دے دیا۔ مٹھی بھر سرفروشوں نے ایک گولی چلائے بغیر افغانستان کے دارالحکومت کابل کو فتح کیا۔ ان مردحروں اور سرفروشوں نے اپنی تحریک کو تحریک طالبان افغانستان اور اپنی حکومت کو امارات اسلامی افغانستان کا نام دیا۔

اب پورا افغانستان طالبان کے کنٹرول میں تھا سوائے پنج شیر وادی۔ یہ وادی چاروں طرف پہاڑوں کے حصار میں گری ہوئی ہے۔ اس میں تاجک، ہزارہ، پشیٔ، نورستانی غلزئی پختون آباد ہیں۔ وادی میں اکثریت سنیوں اور باقی شیعہ ہے۔ وادی ایران کی سرحد سے منسلک ہے ہر قسم کی مالی، اخلاقی، سفارتی اور جانی امداد مل رہی تھی۔ پنج شیر کے مشکل محل وقوع کی وجہ سے طالبان کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

اب پورے افغانستان سوائے پنج شیر پانچ فیصد وادی کے اماراتی اسلامی شریعتی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ یہ سب دو سال کے قلیل عرصے میں ہوا۔ حکومت قائم ہوتے ہی امیر ملا محمد عمر نے پورے افغانستان میں اعلان کیا جس کے پاس بھی اسلحہ ہے حکومت کے پاس جمع کرائے۔ اہل کار کسی شہر میں جاتے لوگ خود گھروں سے نکل کر اسلحہ جمع کرواتے۔ پورا افغانستان اسلحے سے پاک ہو چکا تھا۔

1994 سے 2001 تک اسلامی نظام کے تحت افغانستان میں ہر طرف امن اور خوشحالی تھی عوام جھولی اٹھا کے دعائیں دیتے تھے۔ انصاف کا یہ حال تھا کہ روڈ پے کوئی چیز گری ہوئی ہوتی لوگ اردگرد پھتر رکھ لیتے لیکن ہاتھ لگانے کی جرات نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن 2001 میں امریکہ نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جھوٹے منصوبے کی آڑ میں امریکا نے افغانستان پر حملہ کی ٹھان لی۔ پوری دنیا بشمول پاکستان کو پتا تھا اسامہ صرف بہانہ ہے اصل میں اسلامی نظام نشانہ تھا۔

اور پھر یوں ہوا امریکہ پوری دنیا کی فوج لے کر دندناتا ہوا افغانستان پر حملہ آور ہوا۔ لا الہ اللہ پہ بننے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان نے بھی بھرپور افغانوں کے قتل عام میں حصہ لیا۔ یہاں سے 57 ہزار دفعہ ڈرون اڑ کے بچوں، عورتوں اور نوجوانوں پر قیامت ڈھائی۔ افغان دنیا کی واحد سپر پاور سے زور آزمائی کا فیصلہ کر چکے تھے۔

"بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق"۔

لیکن امریکی حملے کے بعد 2003 میں عمر ثالث نے ایک وفد جلال الدین حقانیؒ (حقانی نیٹ ورک کے بانی) کی سربراہی میں پاکستان بھیجا۔ مشرف اس وقت امریکہ کی گود میں ایک نوزایدہ بچے کی طرح کھیل رہا تھا۔ اس کا واحد مقصد صرف حکومت پر اثر انداز ہو کر اپنے فیصلے پر نظرثانی کے لیے بھیجے گئے اس وفد نے سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ سے بھی ملاقات کی۔ جنرل اسلم بیگ نے بعد میں ایک انٹرویو کے ذریعے اس ملاقات کی مکمل تفصیل بتائی۔

"جب یہ وفد میرے پاس آیا تو میں نے کہا دیکھو تمہاری ایک نسل روسیوں سے لڑتی ہوئی تباہ ہوگئی ہے دوسری نسل آپس کی خانہ جنگیوں میں اور تم تیسری جنگ کی تیاری کر رہے ہو "انہوں نے کہا" کہ ہم پرانے مجاہدوں (فروشوں) سے مل کر آئے اور ہم اس بار دوبارہ جنگ لڑیں گے "جنرل اسلم بیگ نے کہا ملا عمر کو میرا ایک پیغام دینا" ایک یہ بھی راستہ ہے کہ آپ امریکا کی بات مان لیں اور اپنے ملک میں جمہوریت لائیں کیونکہ اکثریت تو ویسے آپ کی ہے اور حکومت میں آ جائیں تو مستقل فیصلہ آپ خود کریں گے۔ "

دو ماہ بعد مرد حر عمر ثالث ملا عمر کا جواب سنا ہے اور غور کیجیے گا۔ "پہلی بات یہ ہے ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم متحد ہو کر لڑیں گے اور ہم جیتیں گے اللہ کا قرآن میں حکم ہے اور وعدہ ہے "خواہ تمہارا دشمن کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اگر تم ثابت قدم ہو کر لڑے تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے گا"۔

"دوسری بات یہ ہے کہ ہماری قومی غیرت، ہماری روایات، اصول اور قدر اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ جو دشمن ہمارے ملک میں بیٹھا ہوا ہے اور اس کے ہوتے ہوئے ہم اس کے منصوبے پر کام کریں گے کبھی نہیں کریں گے جب تک اس کا ایک ایک بندہ ہم یہاں سے نکال نہ دے اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گیں"۔

تیسری بات ہم پاکستانیوں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے انہوں نے کہا "ہمیں دکھ ہے کہ آج وہ پاکستان کبھی ہمارے ساتھ مل کر ہی روسی ریچھ کو دبوچ رہا تھا آج ہمارے دشمن سے مل کر ہمارے خلاف جنگ لڑ رہا ہے کہ اس کے باوجود ہم پاکستان کو اپنا دشمن نہیں سمجھتے وہ ہمارا دوست ہے اور رہے گا کیونکہ اس کی اور ہماری سلامتی کے تقاضے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ہم الگ ہو کر ایک دوسرے سے کسی قابل نہیں رہیں گے۔ "

یہ ایک مومن مرد مجاہد ملا عمر کی فراست ہے جس کی وجہ سے امریکہ کو اس کے تیس نیٹو ممالک سمیت افغانستان میں ذلت آمیز شکست ہوئی۔ اور یہی ملا عمر کی قیادت کا معجزہ ہے کہ امریکہ کے اس قدر ساتھ دینے کے باوجود پاکستان اور طالبان کے درمیان اسلامی اخوت کا رشتہ آج بھی برقرار ہے اور انشاءاللہ رہے گا۔

27 مئی 1 202 کو پاکستان کا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سینیٹ میں گرجتا ہے" کہ ہم کسی قیمت میں امریکہ کو اڈے نہیں دیں گے "یہ سب 11 ستمبر 2001 کے بعد کبھی اس طرح بولے ہیں یہ سب امریکہ کے بارے میں بولتے ہوئے اپنے لہجوں کی منظوری بھی واشنگٹن سے لیتے تھے۔ یہ سب ان مردان حر کی قربانیوں اور جہاد کی بدولت کے امین طالبان کی مسلسل جدوجہد جنگ اور جہاد کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے لیڈروں کو بھی ایسی زبان عطا ہوئی ہے۔

Check Also

Talaba O Talibat Ki Security Aur Amli Iqdamat

By Amirjan Haqqani