1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Usman Marwat
  4. Islam Ke 3 Umar (1)

Islam Ke 3 Umar (1)

اسلام کے تین عمر (1)

616 عیسوی کی تپتی دوپہر اور جھرجھری پیدا کرنے والی گرم لو ایک شخص مکہ کی گلیوں میں بد مست ہاتھی کی طرح ہاتھ میں ننگی تلوار لہراتے دار ارقم کی طرف بڑھ رہے تھے۔ وہ گھر سے اس پکے ارادے سے نکلے تھے کہ ایک شخص جس کا نام محمد عربی ﷺ ہے اپنے آپ کو اللہ کا آخری نبی سمجھ کر ہمارے لاتعداد خدائوں اور خاص طور پر لات اور منات کا منکر ہے۔ اس چراغ کو بجھانا چاہیے تاکہ روز روز کا قصّہ تمام ہو جائے۔ اس شخص کا نام عمر بن خطاب تھا۔

راستے میں اسے سے نعیم بن عبداللہ (جو چپکے سے اسلام قبول کرچکے تھے) ملے ارادے پوچھیں عمر بولے"محمد ﷺ کو نعوذباللہ قتل کرنے جا رہا ہوں " نعیم بن عبداللہ نے جواب دیا عمر اپنی گھر کی خبر تو لو آپ کی بہن فاطمیہ بنت خطاب اور آپ کے بہنوئی اسلام قبول کر چکے ہیں عمر یہ سنتے ہی آگ بگولہ ہوگئے اور سیدھا اپنی بہن کے گھر پہنچے۔ دروازہ کھٹکھٹایا اندر قرآن تلاوت ہو رہی تھی۔

دروازہ کھولتی ہیں عمر اپنی بہن اور بہنوئی پر ٹوٹ پڑے اتنا مارا کہ خون نکل آیا خطاب کی بیٹی کہاں جھکنے والی تھی عمر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگی" اگر تم ہمیں جان سے بھی مار ڈالوں پھر بھی اسلام نھیں چھوڑیں گے" فاطمہ بنت خطاب کی اس بات کا عمر پر اثر ہوا پوچھنے لگے وہ مجھے بھی سنا دو تو میرے آنے سے پہلے تم لوگ پڑھ رہے تھے فاطمہ بنت خطاب کہنے لگی۔

تم ناپاک ہو تو پہلے وضو کر اور وضو کرنے کے بعد فاطمہ نے سورہ طہ کی پہلی آیتیں سنائیں آئی جو عمر کہ دل میں تیر کی طرح پیوست ہو گئی عمر اتنا روئے اتنا روئے کہ داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی پاگلوں کی طرح دار ارقم کی طرف بھاگنے لگے دروازہ کھٹکٹایا ایک صحابی نے جب دیکھا کہ عمر ہے اور ہاتھ میں ننگی تلوار الٹے پاؤں بھاگے نبی سے کہا "عمر آئے ہیں ہیں " حضرت امیر حمزہ نئے اسلام میں داخل ہوچکے تھے کہنے لگے "کہ اگر نیک ارادے سے آئے ہو تو آ جاؤ ورنہ یہاں سے زندہ واپس نہیں جاؤ گے" عمر نے نبی سے کہا میں اسلام قبول کرنے آیا ہوں عمر نے کلمہ شہادت بلند کیا دارارقم اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھا۔ نبی ﷺ نے اللہ سے دعا مانگی تھی "اے اللہ تو نے ایک شیر حمزہ دیا ہے ایک شیر اور بھی دے دے یا عمر بن خطاب دے دیں عمر بن ہشام" نبی کی دعا عمر بن خطاب کے حق میں قبول ہوگئی۔

جب عمر اسلام لائے تو مسلمانوں میں جوش اور ولولہ پیدا ہو گیا۔ عمر اسلام لائے تو ایک ایک کافر کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے کہتے تم کمزوروں کو مارتے تھے میں تمہیں بتانے آیا ہوں میں محمد عربی ﷺ کا نوکر بن کے آیا ہوں۔ بلکہ آپ نے مکہ میں اعلان کیا کسی نے اپنی بیوی کو بیوہ کرنا ہو بچوں کو یتیم کروانہ ہو اور اپنے ماں باپ کے کمر کو جھکانا ہو وہ عمر کے مقابلے میں آجائیں۔

مکہ میں زنیرہ نامی خاتون تھیں راوی لکھتا ہے کہ اس کے ہڈیوں میں گودا نہیں عشق رسول تھا اس کا ظالم آقا اسے مارتا تھا مارتے مارتےتھک جاتا آگے سے عمر آرہے ہیں یہ عمر کے اسلام لانے کی پہلی کہانی ہے عمر تم تو جوان آدمی ہوں ذرا کوڑا پکڑو عمر مارتے مارتے تھک جاتے بیٹھ کے پانی پیتے اور کہتے مجھے تجھ پہ ترس نہیں آیا عمر زنیرہ کے گلے میں رسی ڈالتے ان کی آنکھیں باہر نکل آتی آج عمر مکہ کی گلیوں میں عجیب دل بیتاب ہے آگے سے زنیرہ نے موڑ کاٹا ایک کونے میں کھڑی کڑی ہو کے رونے لگی تم تو عمر اس وقت بڑے جوش غضب میں ہوتے تھے مارتے ہوئے تھکتے نہیں تھے" کہاں میں نے دیکھا نہیں تھا آج میں محمد عربی ﷺ کو دیکھ کے آیا ہوں"۔

عمر کا اسلام لانا مسلمانوں کے لئے عزت کا سبب تھا اس کے ہجرت مسلمانوں کے لیے نصرت اور ان کی خلافت مسلمانوں کے لیے رحمت تھی۔ اسلام کا یہ درویش صفت اور جاہ و جلال والا باد شاہ 6 نومبر 583 عیسوی کو مکہ میں پیدا ہوئے جوانی میں پہلوانی کی اور گھڑ سواری اور نیزہ بازی کی مکہ کے جانے پہچانے پہلوان تھے۔

سردار دو جہاں کو قتل کے ارادے سے نکلا ہوں عمر ایک دن وادی تہامہ سے گزر رہے تھے کہ بلک بلک کر رونے لگے صحابہ نے وجہ پوچھی تو فرمانے لگے "ایک وقت تھا جو میرے باپ خطاب نے اب اسی وادی میں مجھے پانچ اونٹ دیے اور کہا کہ عمر اس کو قطار میں کھڑا کر دوں میں جب پہلے دو کھڑا کرتا تیسرا باہر نکل جاتا جب پہلے تین سیدھے کرتا پانچواں نکل جاتا ہے غرض سے پانچ اونٹ سیدھے قطار میں کھڑے نہیں ہو سکے میرے باپ خطاب نے مجھے بہت مارا اور کہنے لگا کہ اے عمر عرب کا بیٹا ہو کے تم سے پانچ اونٹ قطار میں کھڑے نہیں ہوتے زندگی میں آگے کیا تیر مار وگے "عمر فرمانے لگے" ایک وقت وہ بھی تھا اور ایک وقت آج بھی ہے 23 لاکھ مربع میل پر حکومت کرنے والا عمر اگر چاہے تو تمام چرند پرند اور حتی کہ انسانوں کو بھی ایک قطار میں کھڑا کر دے گا یہ محمد عربی ﷺ کے جوڑی کا صدقہ نہیں تو اور کیا ہے"۔

یہ کوئی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے حکمران کی کہانی نہیں حضرت عمر دن کو مسجد نبوی کے چٹائی پر بیٹھ کے لوگوں کے مسائل سنتا اور شام کی تاریکی میں بھیس بدل کر عوام کی خبر لیتا۔

حضرت عمر نے 10 سال 6 ماہ اور 4 دن حکومت کی اس کے دور میں اسلامی سرحدوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ ان کی خلافت 2251030 مربع میل پر پھیلی تھی۔ حضرت عمر کے دور میں ہی یروشلم فتح ہوا ساسانی سلطنت کا خاتمہ ہوا اور بازنطینی سلطنت کی تقریبات تہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگیں آ گیا۔ آپ کے دور میں یرموک، قادسیہ، عراق، شام، مصر، بلوچستان مکران، فارس، آرمینیا، مشرقی اناطولیہ اور سجستان فتح ہو کر اسلامی مملکت میں شامل ہوگئے۔

ایک دفعہ رومی سلطنت کا سفیر مدینے آیا پوچھنے لگا تمہارے بادشاہ کا محل کدھر ہے مسلمانوں نے کہا ہمارے بادشاہ کا کوئی محل نہیں ہوتا وہ ہماری طرح مٹی کے گھر میں رہتا ہے جو مسجد نبوی میں ہوگا یا بیت المال کے اونٹوں کی دیکھ بھال کرتا ہوگا مسجد نبوی پہنچے وہاں نہیں تھے پوچھنے پر دریافت ہوا کہ بیت المال کے اونٹ چرا رہے ہیں۔

رومی سفیر نے جب دیکھا کہ 23 لاکھ مربع میل پہ حکومت کرنے والا والا جس نے قیصر و کسریٰ کے ایوانوں میں ہلچل مچائی ہوئی ہے وہ ایک پتھر کا سرہانہ بنا کے سو رہا ہے رومی سفیر نے بے اختیار کہا " اے عمر تم نے انصاف کیا ہے تمہیں پتھر کے سرہانے پر بھی نیند آتی ہے ہمارے حکمرانوں نے ظلم کیا ہے انہیں نرم و ملائم بستروں پر ایسی نیند میسر نہیں"۔

جب زمین پر عدل کیا ہو تو دریا بھی حکم مانتے ہیں نیل کا دریا سوکھ گیا ایک خط ڈالنے سے دریا ایسے چلا ایسے چلا کہ چودہ صدیاں گزر گئیں آج تک نہیں رکا۔ آگ بھی حکم مانتی ہیں ایک دن لاوا پٹا اگ مدینے کی طرف آ رہی تھی لوگ دوڑتے ہوئے امیرالمومنین کے پاس آئے عمر نے اپنا کرتا نکال کر دیا لوگ کرتا آگ کی طرف لے کر جاتے آگ پیچھے دھکیل جاتی۔

زمین بھی حکم مانتی ہے زلزلہ آتا ہے ہے ہے عمر گھوڑا زمین پے مارتا ہے کہتا ہے عمر نے تیرے پہ عدل نہیں کیا زمین رک جاتی ہے۔

اسلام کا یہ جاہ و جلال کا پیکر کر عمر فاروقؓ یکم محرم الحرام 24 ھ بمطابق 644ء کو نماز فجر کی امامت کے دوران فیروز لولو نامی مجوسی کے زہر آلود خنجر کے پے در پے وار سے شہید ہوگئے۔

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے نوجوان کو اپنے خلفائے راشدین کی زندگی کے بارے میں کچھ علم نہیں کسی نے خوب کہا "نوجوان اور گھوڑے کبھی جنگوں کی شان ہوا کرتے تھے آج دونوں شادیوں میں ناچتے نظر آتے ہیں " میں اپنے حکمرانوں سے درخواست کرتاہوں کہ انگریز کے کالے قوانین کو کوڑا کرکٹ میں ڈال کر اپنے خلفائے راشدین کے طرز حکمرانی کو اپنا کر دنیا اور آخرت میں اپنا مقام پیدا کرے۔

اگر برطانیہ میں عمر لا(omer Laws)چل سکتا ہے تو لا الہ الا اللہ حاکم بننے والا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کیوں نہیں۔

ذرا سوچئے! (جاری ہے)۔

Check Also

Imf Aur Pakistan, Naya Magar Shanasa Manzar

By Khalid Mehmood Rasool