1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Usman Marwat
  4. Buddhu Ka Awa

Buddhu Ka Awa

بدھو کا آوا

گجرات میں پیدا ہونے والا اکہتر سال کا یہ بوڑھا اپنے اندر ایک دنیا رکھتا ہے وہ بلا کا کالمسٹ ان کے قلم میں چاشنی ہے بڑے بڑے ادیب ان کے سامنے ہیچ سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے قلم سے ہمیشہ تلواروں کی جھنکار سنائی دیتی ہے۔ نوجوانوں کے خون میں جوش اور ولولہ پیدا کرتا ہے۔ نوجوانوں کو ان کی گفتگو اور لکھائی سے ان کو اس عظیم قول کو اپنے اندر سمونے میں مدد دیتی ہیں۔ کسی سیانے نے کہا تھا "نوجوان اور گھوڑے کبھی جنگوں کی شان ہوا کرتے تھے آج دونوں شادیوں میں ناچتے نظر آتے ہیں"۔

یہ ایک شخصیت نہیں بلکہ اس دور کی ایک چلتی پھرتی یونیورسٹی ہے اور اس یونیورسٹی کے چاردیواری کے تقدس کو کل رات 12 بجے بارہ 12 نامعلوم افراد نے پامال کیا ان کے گھر کے دروازے اور کیمرے توڑے گئے ان کو دھکے دے کر نامعلوم افراد نے نامعلوم جگہ پر منتقل کر دیا۔ یاد رہے یہ شخص 21 گریڈ میں ریٹائرڈ ہوا جو مختلف عہدوں سے ہوتا ہوا سیکرٹر ہیلتھ پنچاب اور ڈائریکٹر جنرل آرکیالوجی رہا اس شخصیت کا نام اوریہ مقبول جان ہے۔

بنیادی طور پر وہ بہترین سول سرونٹ تھا اور ہائی کورٹ کا وکیل بھی ہے۔ ایک دور میں پی ٹی وی کے لئے بہترین ڈرامے لکھے۔ وہ افسانہ نگار تھا پھر 2006 میں کالم لکھنا شروع کیا اور 2017 میں ریٹائرمنٹ کے بعد صحافت سے جڑ گئے آج کل وہ ایک یوٹیوب چینل حرف راز اور بیانوے نیوز چینل سے رازونیاز کا گرم گرم سیاسی پروگرام کرتے ہیں یہ تھی اس کی مختصر سوانح عمری۔

غالباً میں نے ان کے کالم میٹرک سے پڑھنا شروع کیے ان کے کالم اتنے تاریخی ہوتے ہیں اگر کوئی نیا بندہ جس کو کوئی تاریخی مطالعہ نہ ہو پڑھنا مشکل ہوتا ہے مجھ جیسے بہت سے نالائقوں کو قلم اٹھانے پر مجبور کیا۔ انہوں نے تمام کالمز کو 9 جلدوں میں یکجا کیا میں حلفاً کہہ سکتا ہوں اگر کوئی بندہ جس کو کوئی سیاسی، سماجی اور تاریخی شعور نہیں اگر حرف راز کی نو جلد پڑھ لے ان کے اسلامی بیک گراؤنڈ، سیاسی، سماجی اور تاریخی شعور میں آج اور کل آسمان اور زمین کا فرق نظر آئے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کو کیوں اٹھایا گیا ہے؟

پہلے بھی یہ لوگ لکھتے رہے ہیں، بولتے رہے، اور آئینہ دکھاتے رہے ہیں لیکن پہلے تو اسٹیبلشمنٹ اتنی سراسیما نہیں ہوتی تھی ان کے بولنے، لکھنے اور بتانے سے، لیکن یہاں پر بات اور ہے عمران خان ایک ایسی شخصیت ہے جنہوں نے پاکستان کے ہر شعبے میں لکیر کھینچ دی ہے، لکیر کہ ایک جس کا پرچم عمران نے تھاما ہوا ہے اور اس کے پیچھے 75 سال کی مہنگائی، بیروز گاری، تشدد، ذہنی غلامی کے مارے ہوئے کروڑوں عوام، کچھ گنے چنے صحافی، مذہبی رہنماء اور وکلاء کی بڑی تعداد، ڈاکٹر اور وہ مڈل کلاس طبقہ جو تعلیم یافتہ اور سیاسی طور پر میں چور ہے وہ کھڑا ہے۔

دوسری طرف پاکستانی کی پوری اسٹیبلشمنٹ، پاکستان کے 80 فیصد سے زائد نیوز چینلز، اخبارات، بزنس ٹائیکونز جو لیکشن میں بڑے بڑے فنڈز دیتے ہیں، تمام مذہبی پارٹیاں، پاکستان علماء کونسل۔ اس گروپ کی سربراہی اسٹیبلشمنٹ کر رہی ہے جس کے لیے سب کچھ کرنا جائز ہے۔ چاہے شریف اور زرداری نیب کے بارہ سو ارب کے کیس معاف کروائیں۔ 50 روپے کے اسٹام پہ ساڑھے چار سال سے علاج کے نام پر لندن میں بیٹھا ہوا بھگوڑا نواز شریف ہو اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔

ماڈل ٹاؤن میں دن دہاڑے آٹھ قتل کیے ہوں اب وزیر داخلہ بن سکتا ہے، ان کو ان تمام باتوں سے کوئی غرض نہیں بس ان سے کوئی یہ نہ پوچھیں کہ آرمی کا اربوں روپے کا حساب نہ مانگے۔ دوسرے گروپ کا علم جس کو چار گولیاں لگنے کے باوجود 145 مختلف دہشت گردی کے کیسیز کرانے کے باوجود تھامے رکھا ہے ان کی سب سے بڑی طاقت 65 فیصد نوجوان ہے جو اپنا حق ہر طریقے سے چھیننا جانتے ہیں۔

مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ ملک کا واحد بہترین ادارہ کچھ ذہنی طور پر بیمار اور حاسدوں کے ہاتھ میں ہے۔ اس ملک کیلیے ففتھ جنریشن وار لڑنے والے نوجوانوں کے ہاتھ ان کے گریبانوں سے دور نہیں، راہ چلتے آرمی کی گاڑیوں کو محبت سے سلوٹ مارنے والے نوجوان اب اتنا کہ ان کے گھر اور املاک کو جلا کے رقص کرتے ہیں۔ ایک سال پہلے عوام ان سے محبت کرتی تھی لیکن کیا وجہ ہے کہ لڑائی اب ان کے گھروں تک پہنچ چکی ہے۔

اس سادہ سے سوال کا جواب گاؤں کے چوک میں تھڑے پہ بیٹھا ہوا سادہ لوح شخص بھی خوب جانتا ہے۔ اگر میں پچھلے صرف دو واقعات کا ذکر کروں تو ہمارے لئے ان سے سبق سیکھنا کافی حد تک آسان ہو جائے گا۔ پہلا واقعہ انقلاب فرانس کا ہے جب حالات اس حد تک پہنچ گئے کہ عوام بھوک سے تڑپ رہی تھی تو شہزادی فلپ لوئیس 3 سے کسی نے التجا کی کہ عوام کیلیے کچھ کرے۔ شہزادی نے تکبرانہ لہجے میں جواب دیا "اگر روٹی نہیں مل رہی تو کیک کیوں نہیں کھاتے؟"

کسی اور موقع پر فرانس کے آرمی چیف روحان سے دخل اندازی کرنے کے لیے التجا کی جواب میں فرانس کا آرمی چیف روحان کہتا ہے "کیا ملک میں گھاس ختم ہوگیا ہے لوگ گھاس کیوں نہیں کھاتے"۔ بس ان باتوں کی دیر تھی عوام غصے سے آگ بگولا ہوگئے محل پر چڑھ گئے روحان اور شہزادی کو پکڑ کر لے آئے۔ شہزادی کو برہنہ کیا گیا ان کے خوبصورت نرم اور ملائم بال کاٹ دئیے گئے اور روحان کے منہ میں زبردستی گھاس ٹھونسا گیا، دونوں کے سر ایک بڑے پتھر پر رکھے گئے اور ایک دیوہیکل شخص نے دونوں کے سر ایک ہی وار سے اڑا دیے۔ اس کے بعد حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ رات چلتے ہوئے سفید پوشوں کے ہاتھ اور کالر چیک کیے جاتے اگر کالر میل سے صاف اور ہتھیلی نرم ہوتی تو سمجھا جاتا یہ کوئی امیر زادہ ہے کہ ان کا سر کھڑے کھڑے اڑا دیا جاتا۔

دوسرا واقعہ رنجیت سنگھ کی سلطنت کا ہے جب 12 جون 1941 کو رنج کیا تو انہوں نے لیکن ان کے وفات کے فوراََ بعد انہوں نے انگریزوں اور مسلمانوں سے سلطنت اور ان کی سرحدوں کی حفاظت کے بجائے تخت پر کس کو بٹھانا ہے اور کس کو اتارنا ہے کس کو غدار بنانا اور کس کو محب وطن یہ کام شروع کر دیا۔

ان کے بیٹے نے تخت پر قبضہ کر لیا تو رنجیت سنگھ کا بھائی سیدھا آرمی ہیڈ کوارٹر یعنی جی ایچ کیو لاہور سے 3 کلومیٹر باہر شالیمار باغ کے قریب جسے "بدھو کا آوا" کہتے تھے پہنچا اور کہا اگر مجھے مہاراجہ بنا دیا جائے تو میں آرمی کی مراعات میں اضافہ کر دوں گا اور تنخواہوں کو دوگنا کر دوں گا۔ رنجیت سنگھ کے بیٹے کی وفات کے بعد دو گروپوں میں لڑائی چھیڑ دی ایک کا نام ڈوگرے اور دوسرے کا نام سندھنانوالے تھا۔

سندھنانوالے کا سردار دیوان سنگھ سیدھا بدھو کے آوے پہنچا خفیہ اطلاع دی کہ کڑک سنگھ پنجاب کو انگریزوں کے ہاتھوں فروخت کرنا چاہتا ہے پورے پنجاب میں پروپیگنڈا مہم شروع کر دی گئی اور تین ماہ کے بعد کڑک سنگھ کو اقتدار سے غدار کہ کر باہر پھینک دیا گیا اس کے بعد اس کے بیٹے نونہال سنگھ کو فوج نے اقتدار میں بٹھا لیا یوں فوج نے دو اختیارات اپنے قبضے میں رکھیں ایک مہاراجہ اور دوسرا وزیر کی تقرری اور دوسرا یہ کہ فیصلہ کرنا کہ غدار کون ہے اور محب وطن لیکن ایک سال بعد نونہال سنگھ ایک حادثے میں مارا گیا تو سدھنانا والوں نے کھڑک سنگھ کی بیوہ چاند کور کو اقتدار پر بٹھا لیا۔

چاند کو دو ہی ماہ ہوئے تھے کہ فوج نے رنجیت سنگھ کے بیٹے شیر سنگھ کی حمایت کر دی اور ستر ہزار فوج لاہور کے شہر پر یوں ٹوٹ پڑی کہ کشت و خون کا بازار گرم ہوگیا چاند کور اپنے شہریوں کی جان بچاتے ہوئے خود اقتدار سے الگ ہوگئی اور شیر سنگھ کو اقتدار پر بٹھا لیا گیا۔ شیر نے تین سال حکومت کی، تنخواہ نو سے بارہ روپے اور گھڑ سوار کی تنخواہ 30 روپے ماہوار کر دی گئی۔ اب سارے فیصلے بدھو کے آوے میں ہونے لگے کسی کو غدار کا لقب دینا ہو کسی کو محب وطن بنانا ہو یک بعد دیگرے دونوں گروپوں نے آپس میں سرداروں اور یہاں تک کہ مہاراجہ کو قتل کر دیا۔

حالات خراب ہوگئے فوج نے ایک بار پھر لاہور پہ دعویٰ بول دیا۔ سینکڑوں لوگوں کو مارا گیا اور اب رنجیت سنگھ کے چھ سالہ بیٹے کو اقتدار پر بٹھایا اور ایک دن ہیرا سنگھ کے مشیر سے ایک جرنیل ناراض ہوگیا ہیرا کو اقتدار سے الگ کرنا چاہا وہ بھاگ نکلا، فوج نے تعاقب کرکے مار دیا۔ اب بدھو کے آوے کے مطالبات بڑھ چکے تھے توشہ خانہ کے سونے کے برتن بھی سکوں میں ڈھل چکے تھے فوج میں تقسیم ہو چکے تھے لیکن پھر بھی ان کے مطالبات بڑھ رہے تھے۔

اب رانی جنداں اس برائے نام سلطنت کی سربراہ تھی وہ بہت چالاک خاتون تھیں انہوں نے سوچا کہ فوج کے بلیک میلنگ سے نجات کا واحد راستہ خالصہ فوج کو انگریز فوج سے لڑا دیا جائے۔ انگریز بھی سرحدوں تک پہنچ چکی تھی رانی نے عام فوجیوں میں انگریزوں سے لڑنے کی خفیہ مہم شروع کر دی لیکن عام فوجیوں کو انگریزوں کی اصل طاقت کا اندازہ نہیں تھا۔ ان کے جرنیل خوب جانتے تھے اب بدھو کے آوے میں بیٹھے جرنیلوں کیلیے کوئی راستہ نہیں تھا سوائے لڑنے کے۔

کیونکہ عام فوجی مارنے اور مرنے پر تلے ہوئے تھے نام نہاد طاقتور خالصہ فوج کو اپنے طاقت پہ بہت ناز تھا دوسری طرف اسی فیصد انگریز آرمی میں پانچ فٹ بونے قد کے مدراسی اور بہاریوں پر مشتمل تھی دونوں فوجوں کا آپس میں ٹاکرا ہوا پہلی لڑائی میں سکھوں کے بیس ہزار فوجیوں کو کاٹ ڈالا۔ کچھ عرصے بعد پوری سلطنت کو تہس نہس کر دیا اب بس سکھو کے پاس ماضی کے حکمرانوں کا صرف ایک جملہ باقی ہے "راج کرے گا خالصہ"۔

افسوس سے کہہ رہا ہوں آج پاکستان "بدھو کے آوے" اور فرانس کے بے حس حکمرانوں کے بیچ میں گرا ہوا ہے 9 مئی 2023 کے واقعہ کے بعد مجھے ڈر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی اس کی بات کی غلطی اس کی آخری غلطی ثابت ہوگی پھر فرانس کی طرح عوام سڑکوں پہ عوام کالروں کی سفیدی اور ہتھیلیوں کی نرمی پہ گردنیں اڑائی جائیں گی اور وہ دن پاکستان کے لیے صبح کی نوید ثابت ہوگا۔ اوریا اور عمران ریاض خان کی رہائی کیلئے دعا گو ہوں۔

یااللہ دونوں کو خیر و عافیت سے اپنے گھر، خاندان اور بچوں کے لیے لایے۔

اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔

Check Also

Khawaja Saraon Par Tashadud Ke Barhte Waqiat

By Munir Ahmed Khokhar