Banda e Sehrai Ya Mard e Kohistani (1)
بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی(1)
آدھی دنیا پر حکومت کرنے والے تاج برطانیہ جس کے سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا جب برصغیر کے پڑوس میں واقع سرزمین افغانستان پر ترنگا لہرانے کی خواہش ظاہر کی تو اپریل 1842 میں بیس ہزار فوج بشمول پیادہ، آرٹلری، باری توپ خانہ سمیت افغانستان پر حملہ آور ہوئے تو افغانوں نے بیس ہزار فوج گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالی۔ یاد رہے اسی دوران تاج برطانیہ پورے برصغیر (سونے کی چڑیا) کو صرف دس ہزار فوج سے کنٹرول کر رہی تھی۔
صرف ایک انگریز طبیب اور دوسرا ایک ہندو پنڈت لال کشمیری کو زندہ چھوڑا اور ایک مراسلہ تھما کر یہ کہا اگر دوبارہ اس سرزمین کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو پھر پورے ہندوستان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔ یوں 1893 میں سر ڈیورانڈ کی کوششوں سے سو سال کیلئے ڈیورنڈ لائن سیز فائر معاہدہ طے پایا۔ تاریخ گواہ ہے 150 سال تک ہندوستان پر حکومت کرنے والی تاج برطانیہ نے افغانستان کی طرف دوبارہ جرات نہیں کی۔
افغانوں پر قیامت اس وقت ٹوٹ پڑی جب 24 دسمبر 1979 کو یو ایس ایس آر (USSR) نہتے افغانستان پر چڑ دوڑا۔ اس وقت آدھی دنیا ایک طرف اور آدھی دنیا دوسری طرف تھی یعنی افغانستان کی عوام جو مسلح جدوجہد کے حق میں تھے، پاکستان نے امریکہ اور سعودی عرب کی مدد سے بھرپور ساتھ دیا کیونکہ اس وقت پاکستان ایٹم بم بنانے کے آخری مراحل سے گزر رہا تھا اور پوری دنیا اس کی کھلی اور دبے لفظوں میں مذمت اور مخالفت کر رہی تھی۔
پاکستان دنیا کے تھانیدار یعنی امریکہ کی سپورٹ حاصل کرنا چاہتا تھا دوسری طرف امریکہ اپنی دیرینہ حریف سے دو دو ہاتھ ہونا چاہتا تھا کیونکہ اس سے اچھا موقع نہیں ہو سکتا تھا۔ امریکہ نے ہر قسم کے اخراجات کا ذمہ اٹھا لیا اور پاکستان نے اپنی عسکری قابلیت اور مہارت میدان میں آزمانے کا ارادہ کیا۔ اس طرح امریکہ پاکستان اور تقریباََ آدھے درجن کے عسکری جنگجو تنظیموں نے روسی ریچھ کو ایسے دبوچ لیا کہ 1989 کو آخری فوجی جو ایک جنرل تھا دریا امو پار کرتے ہوئے پیچھے دیکھا اور تاریخی الفاظ بولے "ہم آئندہ ایسی غلطی نہیں کریں گے"۔
اس کے ٹھیک دو سال بعد یو ایس ایس آر مزید تیرہ ریاستوں میں بغیر گولی چلے تقسیم ہوگئی، روس کے جانے کے بعد افغانستان میں ٹھیک 6 سال تک باہمی خونریزی اور بدامنی ہوئی اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
قندھار کے ایک چھوٹے سے مدرسے جس میں ٹوٹل استادوں اور شاگردوں سمیت تعداد 49 تھی۔ مدرسے کے مہتمم کی سربراہی میں ایک اجلاس ہوا جس میں عہد کیا گیا کہ کندھار میں ان گروپس کے خلاف مسلح جدوجہد کرنی ہے جنہوں نے بھتہ خوری، جبری تشدد، لڑکیوں کو بزور بازو گھروں سے اٹھانا اور ٹارگٹ کلنگ جیسے واقعات سے عوام کا جینا محال کیا ہوا ہے اگلے ہی دن ان سرفروشوں نے مدرسے کے مہتمم کی سربراہی میں قندہار کے سب سے بڑے بھتہ خوری اور رشوت ستانی کے اڈے یعنی دارو خان چیک پوسٹ پر حملہ کر کے فتح کر لیں۔ ان 49 سرفروشوں کا سپہ سالار عمر ثالث محمد عمرؒ تھا۔
ہملے میں دارو خان اور اس کے ساتھی مارے گئے اور دارو خان چیک پوسٹ فتح کرنے کے بعد پورے قندھار میں طالبان یعنی (مدرسے کے طالب علم)کی دھاک بیٹھ گئی اور کچھ ہی عرصے میں پورا قندہار فتح کرلیں اور انیس سو چھیانوے 1۹۹۶میں ایک گولی چلاےبغیر کابل کا کنٹرول حاصل کرلیا۔ کنٹرول حاصل کرتے ہی طالبان کے امیر ملا محمد عمر نے اعلان نامہ جاری کیا کہ پورے افغانستان کو غیر مسلح کیا جائے امیرالمومنین کا فرمان جاری ہوتی ہیں لوگ جوق در جوق گھروں سے ہتھیار ہاتھوں میں لیے طالبان کے حوالے کیے جاتے تھے اور یوں ایک سال کے اندر اندر ان سر فروشوں نے پورے افغانستان کو امن کا گہوارہ بنا دیا۔
اس کے بعد امریکہ کا اپنے منصوبے کے تحت 9/11 کا عملہ کیا اور افغانستان سے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کی دھمکی دی جس لہجے میں انہوں نے دھمکی دی تھی اسی لہجے میں ان کو کرارا جواب مل گیا جس پر امریکی تلملا گئے اور اکتوبر 2001 میں اپنے پورے منصوبے کے تحت افغانستان پر حملہ آور ہوئے۔
(جاری ہے)