Balochistan Ka Darakhshan Sitara
بلوچستان کا درخشاں ستارہ
نواب محراب خان کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ کس کو کیا پتا تھا کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے علیحدگی پسند تحریکوں کی وجہ بنے گا۔ بگٹی قبیلے کا چشم و چراغ نواب اکبر بگٹی 12 جولائی 1927 کو ضلع بارخان میں پیدا ہوئے لاہور کے ایچی سن کالج میں تعلیم حاصل کی اور اعلی تعلیم کے لیے آکسفورڈ چلے گے۔ 1946 میں واپسی کے بعد اپنے قبیلے کے انیسویں سردار بنے۔
اکبر بگٹی پاکستان کے واحد سیاستدان تھے جنہوں نے پاکستان سول سروسز اکیڈمی میں امتحان دیے بغیر پیشہ ورانہ تربیت حاصل کی 1951 میں نواب اکبر بگٹی نے باقاعدہ عملی سیاست کا آغاز کیا کیا اور بلوچستان کے گورنر جنرل کے مشیر کے طور پر مقرر ہوئے۔ اگلے ہی سال اپنی قابلیت اور اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی وجہ سے 1955 میں وزیر مملکت کے طور پر وفاقی کابینہ میں شامل رہے۔
1960 میں بلوچستان کے چھوٹے قومیتوں کے حقوق کے لیے بننے والی پارٹی نیشنل عوامی پارٹی (NAP) میں شامل ہوگئے۔ ایوب کے دور میں کچھ عرصہ اپنے سر دارانہ مزاج اور شعلہ صفت تقریروں کی وجہ سے جیل میں بھی رہے۔ جب عطا اللہ مینگل بلوچستان کے وزیر اعلی بنے تو نواب صاحب کے نیپ سے اختلافات ہو گئے اور جب بھٹو نے 1977 میں نیب کی حکومت کو برخاست کیا تو نواب اکبر بگٹی کو بلوچستان کا گورنر مقرر کیا گیا۔
10 ماہ گورنر رہنے کے بعد بھٹو سے اختلافات کی بنا پر گورنری سے مستعفی ہوگئے۔ 1988 میں نواب اکبر بگٹی پہلی دفعہ صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہوئے فروری 1989 سے اگست 1990 تک صوبے کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ 1989 میں نواب اکبر بگٹی کے اپنی نئی جماعت جمہوری وطن پارٹی کی بنیاد ڈال چکے تھے۔ 1993 کے عام انتخابات میں اکبر بگٹی نے اپنی جماعت سے رکن منتخب ہوئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے؟ کہ 1951 سے 2002 تک 52 سال بلوچستان کی عوام کے دلوں پر راج کرنے والا یہ خود دار اور غیرت بن انسان کیسے غدار ہوا۔ گورنر جنرل کے مشیر، وفاقی وزیر مملکت، دو دفعہ ممبر اسمبلی، اور بلوچستان پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلی رہنے والا یے سیاستدان کیسے غدار ہوا آئیے تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی بھی افغانستان سے پاکستان کی طرف جارحیت ہوئی ہے، تو افواج پاکستان کے ساتھ ساتھ سرحد کے غیور پٹھان اور بلوچستان کے خودار بلوچوں نے بھی ساتھ ساتھ سینوں پر گولیاں کھائیں ہے۔ پچاس ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں افغانستان کے ساتھ 2750 کلومیٹر طویل سرحد بغیر کسی فوجی دستوں کے پرامن ہوتا تھا۔
کبھی کبھار اغوا برائے توان کے کیس ہوتے وہ مقامی قبائلی سردار اٹھ کے افغانستان چلے جاتے اور وہاں سے بغیر کسی تاوان کے بندے کو چھڑا کر لے آتے صدیوں سے بلوچستان کے غیر سرزمین پر پختون اور بلوچستان امن اور بھائی چارے سے رہتے تھے۔ لیکن پاکستان کے ایک فوجی آمر نے اپنے بے ایمانی انا اور تکبر کی وجہ سے بلوچستان کا امن داؤ پر لگا دیا۔
کہانی 2 جنوری 2005 کی رات سوئی کے ایک گیس پلانٹ میں ریپ سے شروع ہوتی ہے۔ ڈاکٹر شازیہ خالد پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ(PPL) میں بطور ڈاکٹر خدمات سر انجام دی تھیں وہ بگٹی قبیلے سے تعلق رکھتی تھی 2 جنوری کی رات پاکستان آرمی کے حماد نامی کیپٹن نے زبردستی ریپ کیا بگٹی قبیلے کو جب ظلم کا پتہ چلا پورا قبیلہ سراپا احتجاج بن گیا۔
بگٹی قبیلے کا صرف ایک ہی مطالبہ تھا کہ کیپٹن کو قبیلے کے حوالے کردو چاہے ہم اسے اپنے قبائلی روایات کے مطابق سزا دیتے ہیں یا معاف کرتے ہیں۔ لیکن مشرف اس کو سزا اپنے آرمی رولز کے تحت دینا چاہتا تھا۔ اس ادارے کے سربراہوں نے ہمیشہ اپنے غلط فیصلوں کی وجہ سے پاکستان کی امن اور سالمیت کو داؤ پر لگایا ہے۔ مشرف کی انا اور ضد کی وجہ سے پورا کا پورا بگٹی قبیلہ حکومت وقت کے خلاف کھڑا ہوا۔
انہوں نے مسلح کارروائیوں کے ذریعے آرمی کے آفیسرز کی ٹارگٹ کلنگ کی شکل میں بدلہ لینے کی کوشش کی۔ اس نے ایک اور غلطی یہ کی کہ مری اور بگٹی قبیلے کے درمیان پرانی کشاکش کئی دہائیوں سے چل رہی تھیں۔ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے مشرف نے اس مقولے پر عمل کرکے مری قبیلے کو ہر قسم کی اخلاقی اور مالی معاونت دے کر بگٹی قبیلے کے خلاف مسلح کروا کے کمزور کرنا شروع کیا۔
مشرف کے اس اقدام نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس اقدام سے بگٹی قبیلہ آپ بگولہ ہو گیا اور بات یہاں تک پہنچی کہ بگٹی قبیلے نے حکومت وقت کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا اور ساتھ ساتھ آزاد بلوچستان کا نعرہ بلند کیا۔ بغاوت کے بعد مشرف نے بڑے بڑے قبائلی رہنماؤں کا اور سیاستدانوں اور اہل نظروں کو بگٹی کے بعد صلح کے لئے بھیجا، لیکن بگٹی کے بقول بات سردار کے ہاتھ سے نکل کر قبیلے کے جنگجو نوجوانوں کے پاس جا چکی ہے۔
بگٹی صلح کے لئے آئے ہوئے وفود سے ایک بات دہراتا " کہ اگر آپ کی بیٹی سے کوئی زبردستی ریپ کرے تو آپ کریں گے آپ کا ردعمل کیا ہوتا" بگٹی کے سوال پر سب کے سب خاموشی اختیار کر لیتے۔ ایچیسن اور آکسفورڈ کا پڑھا ہوا 78 سالہ شہزادے کو کیا پڑی تھی کوھلو کے گرم اور اندھیرے غاروں میں زندگی کے آخری لمحات گزارے لیکن انہوں نے اپنی ذات پر پر صدیوں پرانی قبائلی روایات کو ترجیح دیں۔
26 اگست 2006 کو ایک غار میں میں مزاحمت کے دوران میزائل مار کر بلوچستان کے 79 سالہ بوڑھے غیور اور خوددار سردار کے باب کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا۔ بگٹی تو اپنی غیرت اور خود داری کے ساتھ ساتھ اس دنیا سے چلا گیا، لیکن بلوچستان ایسے آگ میں آج بھی جل رہا ہے۔ جو بجھنے کا نام نہیں لے رہا۔ اس کے ذمہ دار کون؟ 18 سال بیتنے کے بعد بھی بگٹی آج بھی بلوچوں اور سرحد کے پختونوں کے دلوں میں آباد ہے۔
انیس1989 میں جب روس کا بوریا بستر افغانستان سے گول کر دیا گیا اور چھ سال کے باہمی خانہ جنگی کے بعد 1996 میں افغانستان میں عمر ثالث ملا عمر کی حکومت قائم ہوئی تو پانچ سال تک افغانستان امن کا گہوارہ بنا رہا، جب امریکہ نے ستمبر 2001 میں افغانستان پر حملہ کیا اور اعلان کیا کیا" کہ یا ہمارے ساتھ دو اگر ساتھ نہیں دیتے تو ہمارے خلاف تصور کئے جاؤ گے۔
امریکا بہادر کے اس اعلان کے بعد پاکستان کا سب سے بہادر گردانے والا نام نہاد فوجی جرنیل مشرف نے امریکہ کے ساتھ مل کر خون کی ہولی کھیلی۔ پاکستان کے بڈھ بیر اور شمسی ائیر بیس سے 57 ہزار دفعہ امریکی ڈرونز نے کیسے افغانستان کے نہتے عوام پر بم برسائے۔ ان سے تو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ اسلام کے ٹھیکداروں اور یہودی ایجنٹوں کے فتوے دینے والوں کو پوچھنا چاہیے تھا۔
کیا افغانی مسلمان نہیں ہے کیا وہ ہمارے بھائی نہیں ھے۔ جب یہ افغانی اور سرحد کے پختون پاکستان کے سرپرستی میں سر کاپروں (سرخ کافروں) سے لڑ رہے تھے تو مجاہدین کہلاتے تھے، آج امریکہ کے خلاف لڑ رہے ہیں تو دہشت گرد کہلاتے ہیں واہ کیا منافقت ہے۔ سوال یہاں پیدا ہوتا ہے؟ کہ غدار بگٹی تھا یا مشرف؟ بگٹی تو اپنے قبیلے کے بیٹی کی ناموس کی بات کر رہا تھا۔
لیکن مشرف نے قوم کی ایک غیور بیٹی عافیہ صدیقی کو کیسے امریکینوں کے حوالے کیا اور آج بھی ان کے قید میں ہے۔ قوم کی بیٹیوں کی ناموس کی بات کرنے والا غدار اور دوسری طرف قوم کی بیٹیوں کو ڈالروں کے عوض بیچنے والا قوم کا ہیرو واہ کیا بات ہے۔ میں یہ بات حلف اٹھا کے کہتا ہوں کہ سرحد کے پختونوں اور بلوچستان کے بلوچوں کو غدار ہے نہیں غدار بنایا گیا ہے۔
وہ پختون جنہوں نے آزادی کے بعد ہندوستان سے آزاد کشمیر اپنے خون کی قیمت دے کر حاصل کیا تھا۔ آج وہ غدار کیسے بن گئے۔ میں افسوس سے کہتا ہوں کہ ریاست پاکستان نے ہمیشہ منافقت کا کردار ادا کیا ہے۔ ہماری جمہوریت گن گانے والے جمہوریت زدہ علماء کرام نے ہمیشہ اسلام کی بات تو کی ہے۔ لیکن اسلام کے نفاذ کی کبھی نہیں۔ گلہ تو اپنوں سے ہوتا ہے۔
میں اپنے جمہوریت زندہ علماء کرام سے سوال پوچھتا ہوں کہ آیا اسلام صرف تقریروں سے آتا ہے، خدا کے لئے جتنی جدوجہد ان علمائے کرام نے پاکستان میں جمہوریت کے لیے کی ہے۔ اگر صرف اس کی 3 تہائی حصہ جدوجہد شریعت کے نفاذ کے لیے کرے تو دیکھتے ہیں پاکستان کیسے ٹھیک نہیں ہوتا۔ پاکستان کو چہروں کی نہیں ایک مضبوط نظام کی ضرورت ہے، جہاں کوئی نظام سے اوپر نہیں اور وہ نظام صرف اور صرف اسلامی شریعتی نظام ہے۔
پاکستان کے کرتا دھرتاؤں سے اپیل ہے کہ خدا کے لئے آئے ہوش کے ناخن لو تمہاری بنیادوں میں ان غیور عوام کا خون اور پسینہ ہے۔
وطن سے الفت ہے جرم اپنا یہ جرم تھا زندگی بھر کریں گے۔
ہے کس کے گردن پہ خونِ ناحق یہ فیصلہ لوگ ہی کریں گے
وطن پرستوں کو کہہ رہا ہوں وطن کا دشمن ڈرو خدا سے
آج جو خطا ہم سے ہوئی ہے یہ خطا سبھی کل کریں گے۔
لیے جب پھرتے ہیں تمغے فن رہے ہیں جو ہم خیال رہزن
ہماری آزادیوں کے دشمن ہمارے کیا رہبری کریں گے۔
ستمگروں کے ستم کے آگے سر جھکا ہے نہ جھکے گا
شاعر صادق یہ ہم ہیں نازاں جو کہہ رہے ہیں وہی کریں گے۔