Pakistan, Afghanistan Aur Mustaqbil
پاکستان افغانستان اور مستقبل
طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان کے حالت بہت نازک ہیں افغانستان کے ماضی کے حکمرانوں نے باہر کی امداد پر یقین رکھنے کے بعد جو باہر سے امداد آئی ملک کی مدد کے نام پر اس کو بھی نہیں بخشا آپ نے ملکی صنعت معیشت اور اقتصادی ترقی پر توجہ دینے کے بجائے بیرونی آقاؤں کی جھولیوں میں بیٹھ کر کھیلتے رہے ملکی اپنے دفاع سے مضبوط بنتی ہیں ہیں یہ لوگ دفاع کے نام پر اپنے گھر کی دیواریں مضبوط کرتے رہے انہی حالات کو دیکھتے ہوئے طالبان نے ایک مرتبہ پھر اپنے ملک پر نعرہ تکبیر لگا کر حکومت قائم کرنے کی کوشش کریں جو پچھلے تیس سالوں کی محنت ان کی رنگ لائی اور طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا تھا قابل کا کنٹرول سنبھالنا ہی تھا کہ لبرل ملکوں کو یہ ایک آنکھ نہ بھایا اور ملکی امداد کے نام پر افغانستان کی فنڈنگ ختم کردی افغانستان میں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے عوام کے پاس معاشی قوت خرید نہیں ہے اور افغانستان میں زرعی پیداوار کی بھی کمی کا سامنا ہے اسی اثنا میں حکومت پاکستان کی جانب سے افغانستان کے لیے 5 ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا گیا جن میں آٹا اور مختلف چیزیں شامل ہیں اور یہ افغانستان اور پاکستان میں نئی مثالی تعلقات کی نشانی کا ایک محور ہے اگر یہی تعلقات پچھلے پانچ دس سال کے اشرف غنی کے حکومت میں پاکستان افغانستان کے درمیان رہتے تو آج ادھر یہ نوبت نہ آتی۔
پوری دنیا اس وقت افغانستان اور اس کے قریبی ممالک کے تعلقات اور افغانستان کی صورتحال پر بھرپور نظر رکھے ہوئے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عالمی اقوام اس افغان حکومت کو تسلیم کریں گے یا نہیں؟ لیکن اب یہ مالی امداد جاری رہے گی یا نہیں اس بارے میں غیر یقینی پائی جاتی ہے۔ جرمنی کے وزیر خارجہ ہیک ماس نے گذشتہ ہفتے زیڈ ڈی ایف، نامی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا کہ اگر طالبان افغانستان پر قبضہ کرتے ہیں اور شرعی نظام نافذ کرتے ہیں تو ہم ان کو ایک پائی بھی نہیں دیں گے۔
جرمنی کے علاوہ امداد دینے والے دوسرے ممالک بھی افغانستان میں جاری سیاسی بحران پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور اس کے بعد ہی امداد سے متعلق فیصلہ کریں گےافغانستان کی معیشت کی جس نازک حالت کی ورلڈ بینک بات کر رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے سے پہلے افغانستان کی حکومت کل جی ڈی پی کا 29 فیصد صرف سکیورٹی پر خرچ کرتی تھی۔ اگر افغانستان کا موازنہ کم آمدنی والے دیگر ممالک سے کیا جائے تو بیشتر دیگر ممالک اپنی جی ڈی پی کا صرف تین فیصد تک ہی سکیورٹی پر خرچ کرتے ہیں۔
ورلڈ بینک کے مطابق افغانستان کا پرائیوٹ سیکٹر بہت مختصر ہے۔ زیادہ تر روزگار کم پیداوار والی کاشتکاری سے منسلک ہے۔ 60 فیصد گھروں کو کھیتی باڑی سے کچھ آمدنی ہو جاتی ہےافغانستان میں ایک بڑی معیشت ایسی ہے جو قانونی دائرے سے باہر ہے۔ اس میں غیر قانونی طریقے سے کی گئی کان کنی، افیوم کی پیداوار اور سمگلنگ سے متعلق کاروبار ہیں طالبان کے لیے منشیات کی تجارت آمدنی کا ایک اہم ذریعہ رہی ہے۔
حرف آخر یہ کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں جو ٹھنڈک پیدا ہوئی ہے یہ جاری رہنی چاہیے تاکہ خطے کا ماحول بہتر رہے اور دہشتگردوں کو قدم جمانے کا موقع نہ ملے دشمن ممالک کی بھرپور کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گردی اور بدامنی کا موقع ملے تاکہ پاکستان کا دنیا میں امیج برا ہوں ایسی اسلامی پاکستان میں سیکورٹی مسائل کے اوپر پر کام کیا جارہا ہے اللہ ہمارے سکیورٹی ادارے اور ایجنسیز کی مدد کرے۔