Insdad e Smuggling
انسداد سمگلنگ
پچھلے دنوں ایکسپریس ٹریبیون میں سمگلنگ کے حوالے سے ایک کالم چھپا جس میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان میں 2014 سے پہلے سمگلنگ جی ڈی پی کا 3.9 فیصد حصہ تھی۔ تجربہ کاروں نے حکومت سنبھالی تو ان تجربہ کاروں کی حکومت میں یہی سمگلنگ جو کہ جی ڈی پی کا 3.9 فیصد تھی سے بڑھ کر 11.25 فیصد ہوگئی۔ یعنی ن لیگ کے دور میں پاکستان میں 3300 ارب روپے کی صرف سمگلنگ ہوئی۔
اگر اس کا صرف 10 فیصد بھی ٹیکس ڈیوٹی کی مد میں لیا جائے تو پاکستان کو 330 ارب روپے ریونیو کی مد میں حاصل ہوتا۔ لیکن چونکہ تجربہ کاروں کی حکومت تھی لہذا تجربہ کاروں نے 330 ارب کا چونا پاکستانی معیشت کو لگایا وہ بھی اس معیشت کو جو کہ پہلے ڈالر کے ایپری شی ایٹڈ ریٹ کی وجہ سے مصنوعی طور پر کھڑی تھی۔
مثلا ٹریبیون لکھتا ہے کہ اس سمگلنگ میں ڈیزل، ٹائرز، سگریٹ، چائے، شیمپو، کنڈیشنر، فیس واش وغیرہ آئیٹمز، موبائل فونز اور آٹو پارٹس شامل تھی۔ یہاں تک پڑھ کر آپ کے دماغ میں فورا ہی یہ آئے گا کہ سمگلنگ کے پیچھے کون ہے؟
90 فیصد لوگوں کا ایک ہی جواب ہوگا۔ یقینا وہ بھی کوئی اتنے شریف نہیں ہوں گے لیکن میں صرف ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ آخر کیا وجہ ہوئی کہ سمگلنگ میں 2013 سے لیکر 2018 میں یک دم اتنا اضافہ ہوا؟ جبکہ پیپلز پارٹی کے دور میں سمگلنگ صرف 3 فیصد کے آس پاس تھی؟ یقینا اس سے آپکو سمجھنے کے لیئے کوئی آیئن سٹایئن ہونا ضروری نہیں کہ اس میں کون کون ملوث ہوگا۔
بلوچستان کا تقریبا 1400 کلومیٹر کا بارڈر افغانستان کے ساتھ لگتا، کے پی کا تقریبا 1150 کلومیٹر افغانستان کے ساتھ لگتا ہے۔ اسی طرح ایران کا بارڈر بلوچستان کے ساتھ تقریبا 650 کلومیٹر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بلوچستان سب سے سافٹ ٹارگٹ ایریا تھا جہاں سے سمگلنگ کی ایک بہت بڑی کھیپ بارڈر سے ادھر ادھر ہوتی تھی۔
اتنے لمبے بارڈر کی مانیٹرنگ یقینا ایک مشکل ہے لہذا 2017 میں سمگلنگ اور سیکورٹی مسائل کی وجہ ان بارڈرز کے گرد باڑ لگانے کا فیصلہ ہوا اگر تو آپکے مطابق لمبر ون یہ سب کرواتی ہے تو پھر اس وقت اس باڑ کے لگنے پر سب سے زیادہ نقصان لمبر ون کو ہونا چاہیئے اور وہ یہ باڑ کبھی نہیں لگنے دیتی۔ لیکن وہ مشکل حالات کے باوجود باڑ لگانے میں دن رات مصروف ہے اور افغانستان کے بارڈر کا تقریبا 75 فیصد کام مکمل ہوچکا۔ اور ایران کے بارڈر کے ساتھ بھی باڑ لگانے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے۔
ایسے میں سب سے زیادہ ٹپ کون رہے ہیں؟ روز بارڈر پر ہنگامے کون کررہا ہے؟ روز روز بارڈرز پر پتھراؤ کون کررہا ؟ اس میں سمجھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ اس کے بعد ایک اعتراض آتا ہے کہ بارڈر پر کسٹم فورس کیوں نہیں لگائی جاتی۔ لمبر ون کسٹم فورس کو بارڈر ایریا پر تعینات نہیں ہونے دیتی۔ یہ سوال اس دن مجھ سے کسی نے پوچھا تھا تو ان صاحب کو میں اس کا تفصیلی جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔
بھائی بات کچھ اس طرح ہے پہلی بات بلوچستان کا بارڈر کتنا بڑا ہے یہ آپ نے صرف کتابوں میں پڑھا ہے یا ادھر ادھر سے سنا ہے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور پھر ہم سمگلرز کو بھی دیکھا ہے وہ اپنے ساتھ کس قدر ٹرینڈ قسم لوگ اور جدید قسم کا اسلحہ اور اشیاء رکھتے ہیں کہ پہلی بات کسٹم فورس والے آفیسرز اپنا تبادلہ بلوچستان میں ہونے نہیں دیتے۔ سفارشیں کرواکے ادھر سے بھاگ جاتے ہیں یا پھر اگر غریب کا بچہ پھنس ہی جائے تو وہ کمروں سے باہر نہیں نکلتے۔
ان کی ٹریننگ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ جنوبی بلوچستان کا ایریا جس میں پسنی، گوادر، اوڑمارہ کا ایریا شامل ہے یہ سمگلروں کی جنت تھا۔ اور اس ایریا میں کسٹم آفیسر کا جانا ان کے لییے خطرناک ہوتا تھا یہ آپکی سوچ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جہاں کسٹم آفیسرز کی ٹریننگ اس قابل نہیں تھی اور دوسرا 1400 کلومیٹر افغانستان بارڈر اور ایران کے ساتھ 650 کلومیٹر بارڈر پر صرف 1000 کسٹم آفسر تعینات ہیں ہیں۔ جہاں باڑ بھی کوئی نہیں۔
ایسے میں بارڈر سیکورٹی فورسز کے علاوہ آپ کے پاس کوئی آپشن نہیں بچتی۔ پھر جس طرح کا ہمارا عدالتی سسٹم ہے ان کے نمائندے ہر جگہ بیٹھے ہیں یہ کچھ عرصے بعد باہر آجاتے ہیں اور بیچارا کسٹم آفیسر رگڑا جاتا ہے اس لیے کسٹم آفیسر ایسے طاقتور لوگوں کو ہاتھ نہیں ڈالتے۔
اس حکومت نے سمگلنگ کی روک تھام کے لیئے سب سے پہلے قوانین تبدیل کیئے جس میں پہلے صرف جس کا سمگلنگ کا مال ہوتا تھا صرف اس پر مقدمہ درج ہوتا۔ لیکن اس قانون میں یہ تبدیلی کی گئی کہ جس نے سمگلنگ کرنے میں مدد دی اس پر بھی یہی قانون لاگو ہوگا۔ مثلا کسٹم آفیسر بھی اگر اس میں ملوث ہوا اس پر بھی یہ قانون لگاہوگا۔ اس کے علاوہ ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق ہی بلوچستان میں کسٹم آفیسرز کی تعداد میں 3 گنا اضافہ کیا جارہا ہے یعنی اس تعداد کو 1000 سے بڑھا کر 3000 کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ عمران خان نے ایک کابینہ کی میٹنگ میں کہا تھا کہ مجھے پتہ ہے کہ بلوچستان کی سیٹ پر کس کس نے 50 کروڑ ماہانہ ریٹ فکس کیا ہوا تھا جس کے بدلے سمگلنگ کی اجازت ہوتی تھی۔
پچھلے سال یعنی مالی سال 2019- 2020 میں مالی سال 2018-2019 کے مقابلے میں تقریبا 43 فیصد بہتری دیکھنے میں آئی۔ جس میں موبائل فون کی سمگلنگ تقریبا زیرو ہوگئی۔ اسی طرح آہستہ آہستہ باقی چیزوں کی سمگلنگ کی روک تھام کے لیئے طرف شکنجہ ٹایئٹ کیا جارہا ہے۔ حیرت کی بات ہے جمہوریت والے سمگلنگ کا الزام لمبر ون پر لگاتے ہیں لیکن لمبر ون کے دور میں سمگلنگ کم اور انہی جاموروں کے چمپیئن کے دور میں یہ سمگلنگ جی ڈی پی کی 11 فیصد سے تجاوز کرگئی۔
جیسے 80 فیصد بجٹ فوج کھاجاتی ہے، اور پنجابی سارا پیسہ کھاگئے کے بعد پیش خدمت ہے کہ ساری سمگلنگ بھی فوج ہی کرواتی ہے یہ سارے ڈرامے ہماری ہی قوم کی قسمت میں کیوں لکھے ہیں؟