Haqiqi Azadi Hasil Hai?
حقیقی آزادی حاصل ہے؟
برصغیر میں دو قومی نظریہ کی جنگ چھڑ جانے کے بعد عرصہ دراز لڑائی رہی اور اس کے بعد انگریزوں کے چنگل سے دو قومیں آزاد ہوئیں اور دو ملک بنے بھارت اور پاکستان۔ برصغیر کے مسلمانوں نے علامہ اقبال کے خواب کو تعبیر دیتے ہوئے سندھ پنجاب سرحد کو اور بلوچستان کو ملا کر ایک نیا ملک حاصل کیا جس کا نام پاکستان رکھا گیا۔ یوں تو ہم 14 اگست 1947 کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو گئے ہیں لیکن آج 74 سال بعد بھی ذہن میں یہی سوال گھومتا ہے اور ہیجان پیدا کرتا ہے کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں یا نہیں؟
علماء کرام، ادیب، دانشوروں کے نزدیک اور قران پاک کی تعلیمات کی روشنی میں بھی کسی بھی ریاست کے آزاد ہونے کے لیے چار اصول طے پائے گئے ہیں مذہبی آزادی، معاشی ترقی، انصاف کا نظام اور امن و امان کا قیام ہونا۔ ان عوامل سے ہی اندازہ لگانا ممکن ہے کہ کیا کوئی ریاست آزاد ہے یا کسی دباؤ میں ریاست بسی ہوئی ہے۔
پاکستان ان چار عوامل پر تقریبا آزادی سے لے کر اب تک 3 عوامل معاشی ترقی، انصاف اور امن و امان پر انتہائی بری طرح سے ناکام دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں معاشی ترقی تو دور اگلے 20 سال بھی خدانخواستہ اس طرح کی کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے جبکہ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے ملک بھارت کی معیشت آج دنیا کی ٹاپ 5 معیشتوں میں شامل ہے اور اگلے 15 20 برسوں میں وہ ٹاپ 3 میں آرہا ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہمارے حکمران اپنی اپنی باریوں میں آئی ایم ایف کے سامنے جھولی جھکائے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک ایک ارب ڈالرز کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے آگے لٹا دیا جاتا ہے۔ ہماری معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر مشتمل ہے اور وہ طبقہ بھی آہستہ آہستہ پسپا ہو رہا ہے۔ وہ ایک الگ بحث ہے اس پر آگے کبھی پھر بات کریں گے۔
معاشی ترقی کے بعد ان نظام انصاف کا حال پاکستان میں سب سے برا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ ادارہ پاکستان میں سب سے زیادہ ناکام ہے تو اس میں کوئی شک و شبہ نہ ہوگا۔ جس معاشرے میں ذرہ برابر بھی انصاف ہو جائے تو وہ معاشرہ ترقی کرے گا لیکن پاکستان تو یہاں ایسی چیزوں سے کوسوں دور ہے۔ اشرافیہ کے لیے عدلیہ اور انصاف کا نظام گھر کی دہلیز پر موجود ہوتا ہے جبکہ غربا کے لیے انصاف کا حصول کرنا تین تین نسلوں تک مشکل ہے۔ لوگ اپنے مقدموں کی پیروی کرتے کرتے مر جاتے ہیں لیکن ہمارے قاضی القضا ججز کو انصاف دینا آتا نہیں یا ان سے انصاف ہوتا نہیں۔
تیسرا اور ایک اہم مسئلہ امن و امان کا، امن و امان کسی بھی ریاست کے لیے بنیادی تقاضہ ہے جو رنگ نسل فرقوں سے ہٹ کر ہے اور انسانی حقوق کا عنصر بھی اس میں ہی شامل ہے کہ انسانی جان کی اہمیت ہوتی ہے۔ پچھلے دور کی بات ہم نہ کریں تو بہتر ہے وہ کریں گے تو بات بڑی ہو جائے گی کہ کس طرح پاکستان میں امن و امان کے مسائل ہیں اور اب تک پاکستانی لوگ کس طرح دہشت گردی کے ہاتھوں اپنی زندگی گواہ بیٹھتے ہیں۔ اس کے لیے پاکستان میں پولیس کا نظام جو بہتر بنانے کی ضرورت ہے وہ تو دور ہمارے یہاں پولیس کے لوگ بھی امن و امان کا حصہ تباہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ملک بھر میں آئے روز ہزاروں وارداتیں ہوتی ہیں ہر شہر میں سینکڑوں وارداتوں میں کئی انسانی جانیں چلی جاتی ہیں لیکن حکمرانوں کے سر پہ جوں نہی رینگتی وہی گھسیٹی پٹی باتیں اور تسلیاں دے کر ٹائم پاس کا مرحلہ گزارا جاتا ہے۔
ان 3 چیزوں کو خود آپ دل کے اوپر سے کسی بھی حمایت کا ٹیگ اتار کر جانچیں کیا آپ واقعی آزاد ہیں؟