Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Umar Shahzad
  4. Zohran Mamdani, New York Ka Naya Cehra

Zohran Mamdani, New York Ka Naya Cehra

ظہران ممدانی، نیویارک کا نیا چہرہ

کبھی کبھی جمہوریت ایک حیرت بن جاتی ہے۔ وہ حیرت جو دل کو یقین بھی نہیں آتی اور عقل کو ماننا بھی پڑتا ہے۔ نیو یارک، وہی شہر جو کبھی دنیا کے سب سے بڑے سرمائے، سیاست اور شہرت کا مرکز سمجھا جاتا تھا، آج ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جس کا نام ہے ظہران ممدانی۔

ایک مسلمان، ایک امیگرنٹ، ایک عام گھرانے کا بچہ، جو اب دنیا کے طاقتور ترین شہروں میں سے ایک کا میئر بن چکا ہے۔

کہانی دلچسپ ہے۔ ممدانی کے والد محمود ممدانی یوگانڈا سے تعلق رکھنے والے ماہرِ معاشرت ہیں اور والدہ میرا نائر وہی مشہور فلم ساز جن کی فلم سلام بمبے نے دنیا بھر کے سینما گھروں میں تہلکہ مچا دیا تھا۔

یہ جوڑا ایک وقت میں یوگانڈا میں رہتا تھا، پھر کیپ ٹاؤن چلا گیا اور آخرکار نیو یارک جا پہنچا۔

ظہران تب صرف سات برس کے تھے۔ شاید انہیں نہیں معلوم تھا کہ وہ ایک دن اسی شہر کے اقتدار کی کرسی پر بیٹھیں گے جس کے بلند و بالا ٹاورز اُنہیں بچپن میں آسمان کو چھوتے دکھائی دیتے تھے۔

یہ کہانی محض ایک الیکشن کی نہیں، یہ کہانی یقین اور جدوجہد کی ہے۔

ظہران نے Bronx High School of Science سے تعلیم حاصل کی، پھر Bowdoin College سے افریقانا اسٹڈیز میں ڈگری لی۔

عام نوجوانوں کی طرح انہوں نے بھی اپنی جیب کے خرچ کے لیے چھوٹے موٹے کام کیے، کرائے کے فلیٹوں میں رہائش اختیار کی اور نیو یارک کے سخت موسموں اور سخت تر حالات میں اپنے خوابوں کو سینچا۔

پھر ایک دن انہوں نے فیصلہ کیا۔

"اگر اس شہر میں رہنے والوں کی آواز بننے والا کوئی نہیں، تو کیوں نہ میں ہی بن جاؤں؟"

کہا جاتا ہے ایک رات وہ اپنے دوست کے ساتھ کیفے میں بیٹھے تھے۔

دوست نے مذاق میں کہا، "ظہران! تم سیاست میں کیوں نہیں آتے؟ تم تو ان سب سے بہتر بات کرتے ہو"۔

ظہران نے مسکرا کر جواب دیا، "میں آؤں گا، مگر ایسے نہیں جیسے باقی آتے ہیں۔ میں آؤں گا لوگوں کے دروازے سے، ایوان کے دروازے سے نہیں "۔

یہی جملہ ان کے سیاسی سفر کی بنیاد بنا۔

پھر 2020ء آیا۔ انہوں نے نیویارک اسٹیٹ اسمبلی کا الیکشن لڑا اور جیت گئے۔

وہاں سے نیچے سے اوپر تک ان کی آواز گونجنے لگی۔

وہ کرایہ داروں کے حقوق کی بات کرتے تھے، مزدوروں کی مشکلات کی بات کرتے تھے اور شہر کے عام آدمی کی زندگی آسان بنانے کے منصوبے دیتے تھے۔

یہ بات عوام کے دل کو لگی، کیونکہ نیو یارک کے بلند ٹاوروں کے نیچے رہنے والے لوگ برسوں سے اپنی آواز سنائے جانے کے منتظر تھے۔

2025ء کے الیکشن میں جب انہوں نے میئر شپ کے لیے میدان میں قدم رکھا تو کسی نے سنجیدہ نہیں لیا۔ میڈیا نے ان کا نام بھی پیچھے کے صفحے پر چھاپا، مگر ایک شخص نے انہیں سنجیدہ لیا، ڈونلڈ ٹرمپ۔

انتخاب سے ایک دن پہلے ٹرمپ نے تقریر میں کہا۔ "چاہے آپ کو اینڈریو کومو پسند ہوں یا نہ ہوں، آپ کے پاس کوئی آپشن نہیں۔ آپ انہیں ووٹ دیں۔ ممدانی ہرگز نہیں۔ اگر وہ میئر بن گئے تو ہم نیویارک کے وفاقی فنڈز بند کر دیں گے"۔

یہ وہی اینڈریو کومو تھے جو ڈیموکریٹک امیدوار کے طور پر میدان میں تھے اور ان کے پیچھے صدر ٹرمپ اور دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کھڑے تھے۔

انہوں نے ممدانی کی انتخابی مہم کی بھرپور مخالفت کی۔

مسک نے تو کھلے عام کہا تھا کہ "نیویارک کو کاروبار دشمن مئیر کی ضرورت نہیں "۔

ٹرمپ اور مسک دونوں نے میڈیا، سرمایہ دار طبقے اور اپنے فالوورز کے ذریعے ممدانی کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن یہ مہم الٹی پڑ گئی۔ یہ جملہ نیو یارک کے عوام کے لیے چنگاری ثابت ہوا۔

اگلے دن لوگ گھروں سے نکلے اور ووٹ ڈالنے چلے گئے۔

انہوں نے دراصل ممدانی کو نہیں، بلکہ خود کو ووٹ دیا، اُس خودی کو جو برسوں سے دبائی جا رہی تھی اور یوں، جب نتیجے کا اعلان ہوا تو نیو یارک کی فضا میں ایک نیا نعرہ گونجا۔

"ممدانی جیت گئے!"

وہ لمحہ صرف سیاسی فتح نہیں تھا، یہ ایک نظریاتی کامیابی تھی۔

نیو یارک کے عوام نے بتا دیا کہ یہاں کسی کا مذہب یا نسل نہیں، بلکہ وژن اور محنت ہی اصل پہچان ہے۔

ظہران ممدانی نیو یارک کے پہلے مسلمان میئر بنے۔ وہ اس صدی کے سب سے کم عمر میئر بھی ہیں۔ لیکن ان کی اصل پہچان یہ نہیں کہ وہ مسلمان ہیں، یا کم عمر ہیں۔ ان کی اصل پہچان یہ ہے کہ وہ نیچے سے اوپر اٹھنے والے پہلے میئر ہیں۔ جنہوں نے اپنی سیاست محلوں، بازاروں اور مزدور بستیوں سے شروع کی۔

وہ کسی پارٹی کے بڑے ڈونر کے مرہونِ منت نہیں، بلکہ عوام کے مرہونِ منت ہیں۔ جمہوریت کا حسن یہی ہے۔ یہاں کوئی شہزادہ نہیں ہوتا، صرف محنت کش ہوتے ہیں۔ یہاں تخت وراثت میں نہیں ملتا، لوگوں کے اعتماد سے ملتا ہے۔

ظہران ممدانی نے ثابت کر دیا کہ جمہوریت میں کوئی دروازہ بند نہیں۔ اگر دروازے پر دستک دینے والا خالص نیت سے آئے تو بند دروازے بھی کھل جاتے ہیں اور ہاں، ذاتی زندگی میں بھی وہ اتنے ہی سادہ ہیں جتنے اپنے نظریے میں۔

ممدانی نے 2017ء میں نیو یارک کی سماجی کارکن فاطمہ احمد سے شادی کی۔ جو خواتین کے حقوق اور امیگرنٹ کمیونٹی کی فلاح کے لیے سرگرم رہتی ہیں۔ دونوں کی جوڑی سیاسی نہیں بلکہ نظریاتی ہم آہنگی پر قائم ہے۔ وہی ہم آہنگی جو شاید نیو یارک کی نئی سیاست کی بنیاد بھی ہے۔

آج نیو یارک کا ایک بچہ اپنے والد سے پوچھ رہا ہے۔

"ابو، کیا میں بھی کبھی میئر بن سکتا ہوں؟"

اور والد مسکرا کر کہتا ہے۔

"ہاں، بیٹا، اگر ظہران ممدانی بن سکتا ہے تو تُو کیوں نہیں؟"

یہی جمہوریت ہے۔

خواب دیکھنے، ہارنے اور پھر جیتنے کا حق۔

نیو یارک نے آج یہ حق منوا لیا ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan