Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Umar Shahzad
  4. Wo Sadar Jo Apne Jooton Samait Dafan Hua

Wo Sadar Jo Apne Jooton Samait Dafan Hua

وہ صدر جو اپنے جوتوں سمیت دفن ہوا

کابل کی شامیں ہمیشہ ایک عجیب سی ویرانی رکھتی ہیں۔ سورج جب کوہِ دامان کے پیچھے ڈوبتا ہے تو شہر کی پتھریلی فضا میں ایسا سکوت اتر آتا ہے جیسے وقت خود رک گیا ہو۔ انہی پتھروں اور فضاؤں کے درمیان ایک نام آج بھی سرگوشیوں میں سنائی دیتا ہے، سردار محمد داود خان۔ وہ شخص جس نے افغانستان کو بادشاہت سے نکالا، جمہوریت کی راہ دکھائی، مگر خود اسی راہ میں مٹی تلے سو گیا۔

1973ء میں کابل کے ارگ محل میں ایک رات توپوں کی آوازیں گونجیں۔ وہ رات افغانستان کی تاریخ کا رخ بدل گئی۔ سردار داود خان نے فوجی مدد سے اپنے چچا بادشاہ ظاہر شاہ کو معزول کیا اور افغانستان کو "جمہوریہ" قرار دیا۔ اس وقت ان کی پشت پر روس کا ہاتھ تھا اور روس نواز افسران نے انہیں اقتدار دلایا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سردار داود کا رجحان بدلنے لگا۔ وہ سمجھ گئے کہ روس کا اثر افغانستان کو نگل لے گا۔ چنانچہ انہوں نے روس سے فاصلہ اور امریکہ، ایران اور عرب دنیا کے ساتھ قربت بڑھانی شروع کر دی۔ یہی وہ موڑ تھا جس نے ان کے خلاف سازش کے بیج بوئے۔

روس کے قریب رہنے والی خلق پارٹی کے رہنما، نور محمد ترکئی، حفیظ اللہ امین، ببرک کارمل، ان کی پالیسیوں سے ناراض ہو گئے۔ روس کو خدشہ تھا کہ داود اگر مغرب کی جھولی میں جا بیٹھا تو افغانستان ہاتھ سے نکل جائے گا۔ چنانچہ ماسکو میں بیٹھ کر فیصلہ ہوا کہ داود کو راستے سے ہٹا دیا جائے۔ اس فیصلے پر عمل کرنے کے لیے ترکئی اور امین نے فوج میں اپنے حامی افسران کو متحرک کر دیا۔

27 اپریل 1978ء کی رات کابل میں توپوں کی گھن گرج سنائی دی۔ یہ وہی رات تھی جو تاریخ میں "ثور انقلاب" کہلائی۔ خلق پارٹی کے فوجیوں نے صدارتی محل پر حملہ کیا۔ گولہ باری ساری رات جاری رہی۔ محل کے اندر داود خان اپنے چند محافظوں کے ساتھ ڈٹے رہے۔ صبح کے قریب جب بغاوت کرنے والے فوجی محل کے اندر داخل ہوئے تو داود خان نے اپنے خاندان کو ایک کمرے میں جمع کیا اور خود بندوق تھام لی۔

جب فوجی ان کے سامنے آئے تو داود خان نے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا: "میں کسی غدار کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالوں گا"۔

یہ ان کے آخری الفاظ تھے۔ اگلے لمحے کمرے میں گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی اور افغانستان کا پہلا صدر اپنے خاندان سمیت زمین پر گر گیا۔ اس رات صرف سردار داود نہیں مارے گئے، ان کے پورے خاندان کو مٹا دیا گیا۔

ان کی اہلیہ زینب، دو بیٹے، تین بیٹیاں، ایک داماد، ایک بھائی، ایک بہن اور کئی قریبی رشتہ دار، کل انیس افراد۔ سب کو ایک ہی کمرے میں کھڑا کرکے گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ لاشوں کو فوجی ٹرکوں میں لاد کر کابل کے قریب پلِ چرخی کے علاقے میں دفن کر دیا گیا۔ کسی کو کچھ پتا نہیں چلا کہ افغانستان کا پہلا صدر اور اس کا خاندان کہاں چلا گیا۔

قتل کے بعد نور محمد ترکئی صدر بن گیا، حفیظ اللہ امین اس کا وزیرِ خارجہ۔ روس نے نئی حکومت کو فوراً تسلیم کیا اور افغانستان میں کمیونزم کی بنیاد رکھ دی گئی۔ مگر یہ اقتدار بھی زیادہ دیر نہ چلا۔ ترکئی کو چند ماہ بعد اسی حفیظ اللہ امین نے قتل کر دیا اور پھر روس نے امین کو بھی ہٹا کر ببرک کارمل کو لایا۔ یوں اقتدار اور خون کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔

سردار داود خان کے دور میں افغانستان اپنی تاریخ کے سب سے روشن اور لبرل دور سے گزر رہا تھا۔ کابل یونیورسٹی میں خواتین کی تعداد مردوں کے قریب تھی۔ لڑکیاں مغربی لباس پہنتی تھیں، ریڈیو اور ٹی وی پر خواتین نیوز کاسٹرز خبریں پڑھتی تھیں۔ تھیٹر، موسیقی اور تعلیم کھلے عام پروان چڑھ رہے تھے۔ خواتین سرکاری دفاتر میں کام کرتی تھیں۔ افغانستان اس وقت مشرقِ وسطیٰ کے جدید ترین معاشروں میں شمار ہوتا تھا۔

سردار داود خود بھی نفیس ذوق رکھتے تھے۔ ان کا لباس ہمیشہ صاف، استری شدہ اور باوقار ہوتا۔ وہ عام دنوں میں سفید شلوار قمیض پر نیلا یا خاکی کوٹ پہنتے، لیکن سرکاری تقریبات میں فرانسیسی طرز کا سوٹ۔ ان کے جوتے اٹلی کے بنے ہوتے، نرم چمڑے کے اور مہنگے، جن کی قیمت ایک عام افغان کی دو ماہ کی تنخواہ کے برابر تھی۔ ان کی شخصیت میں شاہانہ وقار اور فوجی نظم دونوں شامل تھے۔ وہ زیادہ بولتے نہیں تھے، مگر جو کہتے، وہ آخری فیصلہ ہوتا۔

ان کی قبر تیس سال تک نامعلوم رہی۔ پھر 2008ء میں کابل کے نواح میں ایک اجتماعی قبر دریافت ہوئی۔ وہاں سے ہڈیاں، ایک گھڑی، ایک پیتل کی انگوٹھی اور چند کپڑوں کے بٹن ملے۔ جب ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا تو تصدیق ہوئی کہ وہ سردار داود اور ان کے خاندان کے افراد کی باقیات تھیں۔ ان کی انگوٹھی پر "D" کا حرف کندہ تھا، داود کا "D"۔ بعد میں انہیں پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ دوبارہ دفن کیا گیا۔

سردار داود صرف ایک صدر نہیں تھے، وہ ایک خواب تھے، ایسے افغانستان کا خواب جہاں عورت کو عزت، علم کو طاقت اور آزادی کو بنیاد بنایا جائے۔ مگر وہ خواب 28 اپریل 1978ء کی رات مٹی میں دفن ہوگیا۔ اس رات کے بعد افغانستان میں کبھی روشنی پوری طرح لوٹ کر نہیں آئی۔

کابل کے ایک بزرگ نے ان کی قبر پر کھڑے ہو کر کہا تھا: "وہ صدر جو اپنے جوتوں سمیت دفن ہوا، مگر اپنے نظریے سے کبھی نہیں اترا"۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz