Tuesday, 16 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Umar Shahzad
  4. Ummat e Muslima Ko Darpesh Fitne

Ummat e Muslima Ko Darpesh Fitne

امتِ مسلمہ کو درپیش فتنے

کہتے ہیں تاریخ ہمیشہ خاموش رہتی ہے، مگر اس کی خاموشی میں صدیوں کی چیخیں اور زخم چھپے ہوتے ہیں۔ قومیں جب بکھرتی ہیں تو سب سے پہلے ان کی آوازیں ٹوٹتی ہیں، پھر کردار بکھرتے ہیں اور آخر میں نظریات دفن ہو جاتے ہیں۔ امتِ مسلمہ کی چودہ صدیوں پر محیط تاریخ پڑھ لیجیے، جب بھی ہم گرے، کسی بیرونی دشمن نے نہیں گرایا۔ ہر بار وہ فتنے تھے جو ہمارے اندر سے اٹھے اور جنہوں نے ہمیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کیا۔

مدینہ کی گلیوں میں 656ء کے آس پاس لوگ ایک ہی سوال پوچھ رہے تھے: "یہ سب باہر سے ہوا یا اندر سے؟"

جواب اُس وقت بھی یہی تھا جو آج ہے، فتنہ ہمیشہ اندر سے اٹھتا ہے۔ خلافتِ راشدہ کا آخری باب ختم ہوا تو مسلمانوں نے پہلی بار جانا کہ جب اندر دیواریں ٹوٹ جائیں تو باہر کے دشمن کو کچھ کرنا نہیں پڑتا۔

آج، اکیسویں صدی کے پیچیدہ سیاسی، معاشی اور فکری حالات میں امتِ مسلمہ ایک بار پھر اسی مقام پر کھڑی ہے۔ ہم آزاد بھی ہیں اور بے بس بھی۔ طاقتور بھی نظر آتے ہیں اور منتشر بھی۔ ہمارے معاشروں میں درجنوں نہیں، سینکڑوں فتنے موجود ہیں، لیکن اصل خطرہ ان فتنوں سے نہیں، ان سے ہے جو ہمیں تقسیم کرتے ہیں، جو ہمیں ایک امت کے بجائے کئی گروہوں میں بانٹ دیتے ہیں۔

سب سے پہلا زخم فرقہ واریت ہے۔ عرب ہو یا عجم، ایران ہو یا شام، پاکستان ہو یا افغانستان، مسلمان آج مسلمان سے خوف زدہ ہے۔ مسجدیں مسلکوں میں بٹ چکی ہیں، محلے نظریات کے تنازع میں تقسیم ہو رہے ہیں، خاندان عقائد کے اختلاف پر ٹوٹ جاتے ہیں۔ یہ فتنہ نیا نہیں۔ کربلا کے بعد سے لے کر عباسی و اموی دور کی خانہ جنگیوں تک تاریخ بارہا اس آگ میں جلتی رہی ہے۔ آخر میں نتیجہ ہمیشہ ایک ہی نکلا: فرقہ واریت نے کبھی کسی قوم کو زندہ نہیں چھوڑا۔

قیادت کا بحران بھی امت کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے۔ آج ہماری صفوں میں لیڈر بہت ہیں مگر رہنما نہیں۔ لیڈر صرف جوش دلاتے ہیں، رہنما راستہ دکھاتے ہیں۔ ہم شخصیتوں کے پیچھے چلتے ہیں، اصولوں کے پیچھے نہیں۔ کبھی ہماری تاریخ میں ایسے رہنما موجود تھے جو ٹوٹتی ہوئی اقوام کو جوڑ دیتے تھے، بکھرے ہوئے معاشروں کو ایک بنا دیتے تھے۔ مگر آج ہر ملک اپنی ملکی سیاست، اپنے مفادات اور باہمی کھینچا تانی میں اس قدر پھنس گیا ہے کہ امت رہنمائی سے محروم ہو چکی ہے۔

فکری زوال بھی امت کے ذہن پر گہرا وار ہے۔ وہ قوم جس نے بغداد، قرطبہ اور غرناطہ کی صورت میں دنیا کا سب سے عظیم تعلیمی نظام کھڑا کیا تھا، آج تحقیق، سائنس اور علم سے دور کھڑی ہے۔ ہم نے اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا، علم کو پیچھے دھکیل دیا اور جذبات کو آگے کر دیا۔ نوجوان سوشل میڈیا کے طوفان میں بہہ رہا ہے۔ دلیل کی جگہ نعرے، تحقیق کی جگہ رائے اور علم کی جگہ جذبات نے لے لی ہے۔

جب تک ہمارے پاس کتابیں تھیں، ہم دنیا کی رہنمائی کرتے تھے، جب کتابیں بجھ گئیں تو روشنی بھی بجھ گئی۔

پراکسی جنگیں بھی امت کے جسم میں گہرے زخم بنا چکی ہیں۔ یمن، شام، سوڈان اور لیبیا میں لگی آگ کسی ایک دشمن نے نہیں بھڑکائی، اسے بھڑکایا بھی ہم نے ہے۔ مسلمان ملک ایک دوسرے کے خلاف گروہوں کی سرپرستی کرتے ہیں، ایک دوسرے کی سیاست میں مداخلت کرتے ہیں، ایک دوسرے کے نظاموں کو کمزور کرتے ہیں۔ یہ وہ فتنہ ہے جس نے امت کو ایک جسم سے کئی حصّوں میں بانٹ دیا۔

میڈیا اور بے قابو بیانیوں کا فتنہ بھی کم نہیں۔ آج سچ دفن ہے، بیانیہ زندہ ہے۔ ہر شخص اپنی الگ سچائی رکھتا ہے۔ سازشی نظریات ایسے پھیل رہے ہیں جیسے ہوا میں نمی، ہر جگہ، ہر لمحے۔ لوگ وہی بات سنتے ہیں جو ان کے نظریے کو خوش کرے۔ ایسے ماحول میں اتفاق رائے، سنجیدہ مکالمہ اور اجتماعی سوچ تقریباً ناممکن ہو چکی ہے۔

امت کا اکٹھا ہونا تبھی ممکن ہے جب حق، رائے پر غالب آئے، نہ کہ رائے، حق پر اور سب سے بڑا، سب سے خاموش مگر سب سے خطرناک فتنہ اخلاقیات کا زوال ہے۔ عبادتیں بڑھ گئی ہیں مگر کردار سکڑ گیا ہے۔ عمارتیں اونچی ہوگئی ہیں مگر انسانیت نیچے گر گئی ہے۔ سیاست جھوٹ سے بھری ہے، تجارت دھوکے سے، معاشرے بے حسی سے۔ یہ وہ فتنہ ہے جو اندر سے امت کو کھوکھلا کر رہا ہے اور المیہ یہ ہے کہ ہمیں اس کا احساس بھی نہیں رہا۔

اب سوال یہ ہے کہ ان تمام فتنوں سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟

راستہ ہمیشہ ایک ہی رہا ہے، واپس اصل کی طرف۔ اس قرآن کی طرف جو شعور دیتا ہے، اس سیرت کی طرف جو کردار بناتی ہے، اس علم کی طرف جو ذہن کو روشن کرتا ہے، اس انصاف کی طرف جو معاشروں کو اٹھاتا ہے۔ قومیں اصلاح سے زندہ ہوتی ہیں، جذبات سے نہیں۔

فتنے ہمیشہ رہیں گے، مگر امت تب اٹھے گی جب وہ فتنوں کو پہچان لے اور شاید آج دوسرا بڑا فتنہ یہی ہے کہ ہم پہچاننے کی صلاحیت ہی کھو چکے ہیں۔

Check Also

Asif Ali Zardari

By Syed Mehdi Bukhari